’آکسیجن باغ‘ کے ذریعے گلوبل وارمنگ سے لڑنے والے بھارتی پولیس اہلکار کی کہانی

ویب ڈیسک

انسان کرہ ارض پر ڈیڑھ کروڑ انواع میں سے ایک ہے۔ انسان دنیا کے ان جانداروں میں سرفہرست ہے، جن کی تعداد اس سیارے پر بڑھ رہی ہے، لیکن دوسری طرف اکثر جانوروں اور پودوں کی آبادی میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔انسان نے ترقی کے لئے قدرتی جنگلات کا کافی بڑا حصہ صاف کر دیا ہے۔ مچھلیوں کے ذخیرہ کا تین چوتھائی حصہ ختم کر ڈالا ہے، پانی کے نصف ذخائر کو آلودہ کر دیا ہے اور اس قدر زیادہ زہریلی گیس فضاء میں خارج کی ہیں، جو زمین کو آنے والی کئی صدیوں تک گرم رکھیں گی۔انسان نے قدرتی انواع کو فنا کرنے کا عمل قدرتی عمل سے ہزار گنا تیز کر دیا ہے۔ اس طرح ہم نے خود اپنی بقاء کو خطرے سے دو چار کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔

ہمارے سیارے کی رنگ برنگی زندگی کو بائیو ڈائیورسٹی کہتے ہیں جو ہمیں خوراک، کپڑے، ایندھن، دوائیاں اور بہت کچھ دیتی ہے۔ ہمیں تو سڑک کے کنارے اُگتی گھاس اور کھیتوں میں پلنے والے ایک بھنورے تک کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ زندگی کے جال سے کسی ایک چیز کا خاتمہ انتہائی تباہ کن نتائج کا حامل ہو سکتا ہے

اس سیارے پر حیات، حیات کی بقا اور تحفظ میں درختوں کا کلیدی کردار ہے۔ جہاں تک جنگلات کا تعلق ہے تو یہ زمین پر زندگی کو جاری رکھنے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ان مرکبات کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جس سے زمین اور فضاء کی آلودگی میں کمی آتی ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہر سال 6 ملین ہیکٹر پر مشتمل ابتدائی جنگلات کٹائی کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں۔ اسی طرح انسان کی سرگرمیوں کی وجہ سے ابتدائی جنگلات کے رقبے میں ہر روز کمی واقع ہو رہی ہے۔ زمین پر ہم اپنے بہترین دوست درخت کے دشمن بن گئے ہیں

لیکن لوگ کچھ ایسے بھی ہیں، جنہوں نے انسان کے اس دوست کا قرض چکانے کے لئے وہ قرض بھی چکائے ہیں، جو ان پر واجب بھی نہیں تھے۔
ایسے ہی ایک شخص کا نام ہے دیویندر سورا، جن کا تعلق بھارتی دارالحکومت دہلی سے متصل ریاست ہریانا سے ہے اور انہوں نے گویا زمیں پر درخت اگانے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے

سونی پت میں اپنے ابتدائی دنوں سے ہی دیویندر سورا کو فطرت کے لیے فطری لگاؤ ​​تھا، لیکن جیسا کہ انہوں نے ملک میں جنگلات کی بڑھتی ہوئی کٹائی اور شہری کاری کے اثرات کا مشاہدہ کیا، انہوں نے اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ اس احساس نے ان کی جنگلات کی مہم کے بڑے ہدف کو جنم دیا: سونی پت ضلع میں دو لاکھ درخت لگانا!

اگر ہندوستان کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے ماریموتھو یوگناتھ کو سوا لاکھ سے زیادہ درخت لگانے کے لیے ’ٹری مین آف انڈیا‘ کہا جاتا ہے، تو ریاست ہریانا کے سونی پت ضلع کے دیویندر سورا کو ان کی خدمات کی وجہ سے آج ’ٹری مین آف ہریانا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے

چھتیس سالہ دیویندر سورا پیشے سے پولیس کانسٹیبل ہیں۔ وہ چندی گڑھ پولیس میں بطور سپاہی تعینات ہیں اور انہیں وہاں کی ہریالی بہت متاثر کرتی ہے

اس سوال پر کہ انہیں درخت لگانے کی ترغیب کس بات سے ملی اور اس کا محرک کیا تھا، دیویندر سورا کہتے ہیں، ”جس طرح ایک پلان اور منصوبے کے تحت چندی گڑھ کو بسایا گیا ہے، وہ قابلِ رشک ہے، آپ گرمیوں کے دن میں درختوں کے سائے تلے دھوپ کی تپش کا احساس کیے بغیر میلوں پیدل چل سکتے ہیں۔ جب چندی گڑھ میں میری پوسٹنگ ہوئی تھی تو میں پولیس چوکی درختوں کے سائے میں پیدل ہی جایا کرتا تھا۔ وہیں سے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ ہریانا کے تمام گاؤں میں اس کا کام شروع کیا جائے“

اور پھر ان کے ذہن میں آئے اس خیال نے خوبصورت اور ہرے بھرے ’آکسیجن باغ‘ کی صورت میں حقیقت کا روپ دھار لیا

21 مارچ 2021 کو دیویندر سورا کی سرپرستی میں سونی پت کے بھٹ گاؤں میں ایک غیر سرکاری مہم کے تحت دس ایکڑ زمین پر چار ہزار درخت لگائے گئے، جس میں گاؤں والوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا

دیویندر نے اس مہم کو ’آکسیجن باغ‘ کا نام دیا ہے اور یہ اس وقت کا تیسرا آکسیجن باغ تھا، جو دیویندر کی کوششوں سے وجود میں آیا

دیویندر بتاتے ہیں ”جس طرح ہریانا میں پہلے جنگل ہوتے تھے اور کئی قسم کے چرند و پرند ہوتے تھے وہ ہریالی نہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ ختم ہونے لگے، اس لیے میں نے ’آکسیجن باغ‘ کا منصوبہ بنایا اور اس پر عمل درآمد شروع کیا، جس میں ایک سو سے زیادہ اقسام کے درخت لگائے گئے، جن میں نیم، برگد، گولڑ، پیپل وغیرہ جیسے بڑے اور گھنے درخت شامل ہیں“

دیویندر سورا پر بچپن سے ہی کسی فیلڈ میں نام کمانے اور اپنی پہچان بنانے کی دھن سوار تھی۔ وہ پولیس میں تقرری سے پہلے بطور ایتھلیٹ اپنے صوبے کی نمائندگی کر چکے ہیں، لیکن ایک انجری کی وجہ سے ان کا یہ خواب ادھورا رہ گیا

دیویندر 2010ع سے پودے لگانے کا کام کر رہے ہیں اور اب تک چار لاکھ سے زائد پودے لگا چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس پروجیکٹ کا نام ’آکسیجن باغ‘ رکھا ہے اور اب تک وہ بءس آکسیجن باغ لگا چکے ہیں

اس سوال پر، کہ پولیس کی نوکری بذاتِ خود مشکل اور مصروف ہوتی ہے، اس میں وہ اتنے درخت نکالنے کے لیے وقت کیسے نکالتے ہیں اور آج ان کے ساتھ کتنے لوگ ہیں؟ دیویندر سورا کہتے ہیں ”میری جاب چوبیس گھنٹے کی اور پھر اڑتالیس گھنٹے چھٹی کے حساب سے ہے تو یہاں وقت کا مسئلہ نہیں ہوتا“

انہوں نے مزید کہا ”پلانٹ کم لگاؤ، لوگوں کو اس کے فوائد زیادہ بتاؤ اور اس کام میں کافی وقت لگتا ہے۔ لوگ آج میرے ساتھ جڑے ہوئے ہیں یہ گذشتہ آٹھ دس سال کی محنت ہے۔ جس طرح سیاسی اجتماعات میں بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے، میلے ٹھیلے میں بھیڑ ہوتی ہے، اسی طرح اگر آپ درخت لگانے کے فوائد لوگوں کو بتائیں گے تو وہ آپ سے ایسے ہی جڑیں گے، جیسے وہ کسی سیاسی تحریک سے جڑتے ہیں“

دیویندر کے مطابق ، آج ان کی ٹیم میں دس ہزار سے زیادہ لوگ شامل ہیں اور یہ کسی انقلاب سے کم نہیں

گلوبل وارمنگ سے لڑنے کے بارے میں دیوثندر اپنی زندگی کی مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں ”میں سواری کے لیے موٹر سائیکل کے بجائے سائیکل استعمال کرتا ہوں، پلاسٹک سے بچنے کے لیے کپڑے کے تھیلے کا استعمال کرتا ہوں۔“

دیویندر اپنی ساری تنخواہ پیڑ پودے لگانے میں صرف کر دیتے ہیں۔ یہ پوچھنے پر کہ پھر گھر کیسے چلتا ہے، وہ بتاتے ہیں ”وہ میرے والد کی پینشن سے چلتا ہے“

ایک انٹرویو میں دیویندر کا کہنا تھا ”مادیت اپنے عروج پر ہے۔ لوگ اس کے لیے درخت کاٹ رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پرندوں کی نسلیں اپنا ٹھکانا کھو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں پرندوں کی بہت سی انواع معدوم ہو رہی ہیں۔“

وہ کہتے ہیں ”کورونا وائرس کی وبائی بیماری ہماری جانب سے فطرت کو محفوظ نہ رکھنے کا نتیجہ تھی۔ ہم زمین کا توازن بگاڑ رہے ہیں اور اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے“

ایک عوامی تحریک کے ذریعے دیویندر سورا نے اب تک اپنی ریاست میں ساڑھے گیارہ ہزار نوجوانوں سے رابطہ قائم کیا ہے جو درخت لگاتے ہیں، ان کا تحفظ کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں۔
اپنی اس مہم کو انہوں نے ’پریاورن مِتر‘ (ماحول کے دوست) کا نام دیا ہے

دیویندر سورا کو وہ وقت بھی یاد ہے، جب ہریانا میں بہت ہریالی تھی۔ وہ بتاتے ہیں ”ہمارے جنگلات کا نوے فی صد حصہ تباہ ہو چکا ہے، اور پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ مادیت کی قیمت سے آگاہ ہوں“

دیویندر نے سونی پت-گوہانا ہائی وے کے ساتھ ایک ’جنتا نرسری‘ بھی قائم کی ہے، جہاں ہر سال مختلف اقسام کے درختوں کے تقریباً پچیس ہزار پودے مفت تقسیم کیے جاتے ہیں

دیویندر سورا نے کہا کہ کسی بھی ریاست یا ملک میں اگر نوجوان یہ تہیہ کر لیں کہ وہ درخت لگائیں گے تو دنیا ہری بھری ہو جائے گی اور بہت سے موسمیاتی مسائل حل ہو جائیں گے

دیویندر سورا کی لگن صرف پودے لگانے تک ہی محدود نہیں ہے۔ وہ گرین کاز، ورکشاپس اور کمیونٹی ایونٹس کی آرکیسٹریٹنگ کے لیے ایک آواز کے وکیل کے طور پر بھی ابھرے۔ مقصد؟ جنگلات کی کٹائی کے سنگین نتائج اور درخت لگانے کے بے شمار فوائد کے بارے میں عوام کو آگاہی فراہم کرنا

مقامی کمیونٹیز نے دیویندر کے مشن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان کی پرجوش حمایت کی، جس کی وجہ سے اس مہم نے توجہ حاصل کی۔ وہ صرف تماشائی نہیں تھے۔ انہوں نے فعال طور پر درخت لگائے، ویران پلاٹوں کو پھلتی پھولتی سبز جگہوں میں بدل دیا۔ تعلیمی اداروں نے اس مقصد کو آگے بڑھایا، طلباء کو براہ راست شجرکاری مہم میں شامل کر کے ان میں ماحولیاتی اقدار کو فروغ دیا

دیویندر سورا کی جنگلات کی مہم کو اپنے حصے کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خراب موسمی حالات اور فنڈنگ ​​کی رکاوٹوں نے پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کرنے کا خطرہ پیدا کیا۔ پھر بھی، دیویندر کا عزم غیر متزلزل رہا۔ کراؤڈ فنڈنگ ​​کی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے اور ماحولیات سے آگاہ افراد اور تنظیموں کے عطیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، جنگلات کا مشن آگے بڑھا

پھر بھی، دیویندر کا نقطہ نظر محض درخت لگانے کے عمل سے بالاتر تھا۔ اس نے ایک متوازن، فروغ پزیر ماحولیاتی نظام کا تصور پیش کیا۔ لہٰذا، سونی پت ضلع میں لگائے گئے 2 لاکھ درختوں میں دیسی اور پھل والی اقسام شامل ہیں۔ اس سے نہ صرف حیاتیاتی تنوع کو فروغ ملا بلکہ مقامی حیوانات کی بقا اور خوشحالی کو بھی یقینی بنایا گیا

جیسے جیسے جنگلات کی مہم آگے بڑھی، اس کے فوائد تیزی سے واضح ہوتے گئے۔ اس سے پہلے بنجر زمینیں سرسبز جنگلوں میں تبدیل ہو گئی تھیں، جو سونی پت کے باشندوں کے لیے ’سبز پھیپھڑوں‘ کا کام کرتی تھیں۔ درختوں کے پھیلے ہوئے احاطہ نے مقامی آب و ہوا کو معتدل بنایا، سخت گرمیوں میں سایہ فراہم کیا، اور زمینی پانی کو ری چارج کرنے میں سہولت فراہم کی

مختصراً، سونی پت ضلع میں دیویندر سورا کی جنگلات کی مہم محض ایک تحفظ کی کہانی سے زیادہ ہے۔ یہ ایک فرد کے وژن، لگن، اور کمیونٹی کے تعاون کے گہرے اثرات کی ایک متاثر کن تاریخ ہے۔ ان کی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح نچلی سطح پر اٹھائے گئے اقدامات ماحولیاتی تبدیلی کو متحرک کر سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک پائیدار میراث کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close