کراچی – قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگئی اور عمران خان سابق وزیراعظم ہوگئے، تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد دنیا بھر سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا گیا
عربی ویب سائٹ رائی الیوم کے ایڈیٹر انچیف اور مصنف عبدالباری عطوان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ‘عمران خان کو اس لیے اقتدار سے ہٹا دیا گیا کیونکہ انہوں نے امریکہ کو للکارا تھا اور اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات اور افغانستان میں قابض افواج کو شکست دینے میں مزاحمت کی حمایت سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بجائے، اس نے خود کو چین اور روسی محور سے جوڑ دیا۔’
پاکستان میں چینی سفارت خانے میں تعینات کلچرل کاؤنسلر جانگ ہی کنگ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤںٹ پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے بے دخلی کے متعلق لکھا کہ عمران خان تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے ذریعے پارلیمنٹ سے معزول کیے گئے پاکستان کے پہہلے وزیراعظم بن گئے۔
نیدر لینڈز کی پارلیمنٹ کے رکن گریٹ وائلڈرز نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے پر لکھا: ‘اسلامی انتہا پسند عمران خان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔۔۔وہ دہشت گردی کے حامی اور آزادی، جمہوریت اور بھارت کےدشمن تھے
گریٹ وائلڈرز ڈچ سیاست دان اور پاپولسٹ پارٹی فار فریڈم (پی وی وی) کے بانی ہیں
بھارتی صحافی برکھا دت نے عمران خان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر کے حوالے سے لکھا: ‘عمران خان ایک خراب کھلاڑی رہے ہیں۔ ووٹنگ کو مسترد کرنا اور پھر آخر میں اس کے لیے پیش نہ ہونا ایک ایسے کپتان کے مترادف ہے جو اپنی ٹیم کے لیے لڑنے میں ناکام رہے ہو یا ایسے جیسے کوئی جنرل جنگ میں اپنے جوانوں کا ساتھ چھوڑ دے
اقوام متحدہ میں بھارت کے سابق مستقل نمائندے سید اکبرالدین نے لکھا کہ ’ان دنوں پاکستان کی سیاست میں انڈیا کا ذکر بار بار ہو رہا ہے۔ عمران خان نے انڈیا کی خارجہ پالیسی کی تعریف کی ہے تو حزب اختلاف کی مریم نواز شریف نے وزیر اعظم واجپائی کی مثال دی ہے۔ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟‘
بھارتی اداکارہ اور مصنفہ سیمی گریوال نے ٹوئٹر پر لکھا: ‘عمران خان کی بے دخلی ہمیں سکھاتی ہے:
1۔ مشترکہ اپوزیشن ایک مقبول وزیر اعظم کو برطرف کر سکتی ہے۔
2۔ سیاست میں مثالیت پسندوں (آئیڈیلسٹ) کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ میں عمران خان کو چالیس سال سے جانتی ہوں اور آئیڈیلزم ان کا مرکز ہے۔
بقول سیمی: ‘عمران خان کی بہت سی ناکامیاں ہو سکتی ہیں، لیکن بدعنوانی (کرپشن) ان میں سے ایک نہیں ہے۔’
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘غرور اور تکبر انسانوں کے لیے نہیں۔ تکبر کو زوال ہے، زوال ہے زوال ہے۔ اسی لیے عمران خان پاکستان کا ووٹ آؤٹ ہو جانے والا پہلا وزیرِ اعظم ٹھہرا
اپنی ایک اور ٹوئٹ میں نواز شریف کی تصویر لگا کر مریم نواز نے کہا کہ ’میں نے آپ کو آمریت کے زندانوں میں فاتح کے روپ میں دیکھا، آپ کے ساتھ جیل گزار کر آپ کو فاتح کے روپ میں دیکھا، میں نے آپ کو کبھی ٹوٹتے نہیں دیکھا’
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر رد عمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما سعد رفیق کا کہنا تھا کہ پرانے پاکستان میں واپسی مبارک ہو
ایس او ایس یونیورسٹی آف لندن سے وابستہ پی ایچ ڈی سکالر محمد ہاشمی الحامدی نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کامیابی کے بعد ٹوئٹر پر لکھا: ‘پیغمبر اسلام کی سیرت میں بھی مشکل وقت آیا، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ ہار نہیں مانیں گے۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔’
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں شہباز گل نے لکھا ان سارے دنوں میں خان کو اکیلے لڑتے دیکھا۔ ایک بہادر کی طرح ۔ بہت کچھ دل میں ہے۔ دل میں ہی رہے تو اچھا ہے۔ بس اتنا ہی کہوں گا۔ خان کو باندھ کر ہرایا گیا ہے، باندھ کر!
سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا تھا کہ بال آخر میں ایک ایسے میدان میں آ گئی ہے جسے نہ خریدا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کے دباؤ میں آتی ہے؛ طاقت کا سرچشمہ عوام۔
سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر رد عمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ آج جمہوریت کے لیے افسوس ناک دن ہے جب امریکی سازش کامیاب ہوگئی۔
شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ کرپٹ سیاسی مافیا ایک عدالتی بغاوت کی مدد سے کامیاب ہوئی جس نے پارلیمانی بالادستی کو تباہ کر دیا، یہ شرم ناک ہے
پاکستانی کرکٹر انور علی خان نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کامیابی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ”ہم آپ کے مستحق نہیں تھے“
دوسری جانب پاکستان کی قومی اسمبلی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم کے نتیجے میں ان کی حکومت کے خاتمے اور موجودہ سیاسی منظر نامے کے دوران بھارتی سوشل میڈیا صارفین اور خاص کر بھارتی الیکٹرانک میڈیا کی پوری توجہ پاکستان میں جاری سرگرمیوں پر رہی
پاکستان کی سیاسی صورتحال پر بھارتی الیکٹرانک میڈیا کی توجہ اور سرحد پار بدلتی صورتحال کی خبروں کی ٹی وی اسکرینوں پر بھرمار نے انڈین عوام کو ایک ہیجان میں مبتلا کر دیا اور انڈین سوشل میڈیا صارفین نے اس کا کھل کر اظہار بھی کیا
امت جیسوال نامی صارف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’’ٹی وی چلا کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم انڈین نہیں پاکستانی ہیں۔‘
اس دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کے قوم سے خطابات کے دوران بھارت اور اس کی خارجہ پالیسی کا ذکر بھی ہوا جس میں انھوں نے انڈیا کو ’خود دار ملک‘ کہا اور انڈیا کی آزادانہ خارجہ پالیسی کی تعریف پر انڈیا میں بحث کا موضوع رہے۔
یہاں تک کہ عمران خان کی جانب سے بھارت کی تعریف و توصیف پر پاکستان میں حزب اختلاف کا نمایاں چہرہ مریم نواز کے بیان کی بھی بازگزشت رہی کہ ’اگر آپ کو انڈیا اتنا ہی پسند ہے تو آپ وہیں چلے جائیں۔۔۔پاکستان چھوڑ دیں۔‘
بھارت میں سوشل میڈیا پر پاکستان کے حوالے سے جہاں ’پاکستان‘، ’عمران خان‘ جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتے رہے وہیں ’پاکستان پولیٹیکل کرائسس‘، ’نو کنفیڈنس موشن‘ اور ’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ جیسے ہیش ٹیگ بھی نظر آئے
بھارت میں پاکستان میں ہونے والی سیاسی ہلچل پر لطف اٹھانے کا مزاج رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ برکھا دت جیسی سنجیدہ صحافی کی ٹائم لائن پر پاکستان کے حوالے سے سنجیدہ ٹویٹس کے ساتھ ایسے ٹویٹس بھی ہیں جس میں انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان نے نیٹ فلکس کو پیچھے چھوڑ دیا۔‘
ان کے اس ٹویٹ کو جہاں 12 ہزار سے زیادہ لائکس ملے وہیں دو ہزار سے زیادہ بار ری ٹویٹ کیا گیا اور تین سو سے زیادہ کمنٹس آئے۔ بہت سے پاکستانی صارفین نے اس کے جواب میں بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے ایچ بی او کے مترادف کہا
بہت سے سوشل میڈیا صارفین اس بات کا خصوصی طور پر ذکر کر رہے ہیں کہ کسی بھی منتخب پاکستانی رہنما نے اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہیں کی ہے اور عمران خان بھی اس روایت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بہت سے لوگوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بن گئے، جنہیں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹایا گیا
اس کے ساتھ ہی پاکستان میں جمہوریت کی کمزوری کی بات بھی کی جا رہی ہے
جموں سے کامران علی میر نامی ایک صارف نے لکھا: ’پاکستان میں جمہوریت مذاق ہے۔ پاکستان کے اکیس سابق وزرائے اعظم میں سے کسی نے بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔ ورلڈ ریکارڈ کی کتاب گنیز بک کو ان کی مستقل مزاجی پر توجہ دینی چاہیے۔‘
معروف صحافی راجدیپ سردیسائی نے پاکستان میں ہفتے کی شب پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال کے تناظر میں بھارت اور پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ’اس ملک میں حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن تبدیلی ہمیشہ پر امن رہی ہے (سنہ 75 کی ایمرجنسی واحد استثنیٰ ہے) واجپائی جی نے ایک ووٹ سے پارلیمان میں شکست کھائی اور وقار کے ساتھ مستعفی ہوئے۔ لیکن پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ (بھارت کے) برعکس افسوس ناک اور خطرناک ہے۔‘
کچھ افراد پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کا موازنہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال سے بھی کرتے دکھائی دیے
زینب نامی صارف نے ٹویٹ کیا ’عمران خان پاکستان کے کیجریوال ہیں۔‘
بھارت میں بہت سے سوشل میڈیا صارفین سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی تعریف بھی کرتے نظر آئے
سورج یادو نامی ایک صارف نے ان کی حمایت میں ٹویٹ کیا کہ ’ایک ہندوستانی کی حیثیت سے جس نے ان (عمران خان) کی تقاریر اور انٹرویوز سنے میں ایک بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عمران کے خلاف کوئی بدعنوانی کا مقدمہ نہیں ہے۔ وہ پاکستان سے محبت کرتا ہے۔ وہ پاکستان کے عوام کے لیے کام کر رہا ہے۔ ایک ایماندار شخص کے ساتھ جو ہو رہا اسے دیکھ کر افسردہ ہوں۔‘
اکرور سنگھ کووڈ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’بھارت اور زیادہ تر پاکستان میں اگر آپ آزاد خارجی پالیسی پر عمل کرتے ہیں تو آپ کو اسی چیز کا سامنا ہوتا ہے جس کا عمران خان کو ہوا۔ اب بھارتی اور پاکستانی دونوں کو عمران خان کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ مغرب ہمیشہ سے ہماری پالیسی کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اور ہم انہیں راستہ دیتے ہیں۔‘
بہت سے لوگوں نے عمران خان کے بیان کے حوالے سے بھارت کے وزیر اعظم مودی کی تعریف کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور لکھا کہ دنیا میں بھارت کی یہ پوزیشن وزیر اعظم مودی کی وجہ سے ہے جبکہ کئی صارفین نے یہ بھی لکھا کہ اگر یہ بات عمران اس وقت کہتے جب غیر بی جے پی حکومت ہوتی تو یہ بی جے پی والے انھیں پاکستان کا ایجنٹ اور ملک کا غدار قرار دیتے.