جب بھارت میں مغوی رومانیہ کے سفیر کی رہائی کے لیے پاکستان سے بھی مدد مانگی گئی۔۔

ریحان فضل

20 اگست سنہ 1991 کو رومانیہ میں انڈیا کے سفیر جولیو ریبیرو شام چھ بجے دفتر سے واپس آتے ہی اپنی اہلیہ کے ساتھ سیر کے لیے نکلے۔ رومانیہ کے دو سکیورٹی اہلکار ان کے تقریباً 30 میٹر پیچھے چل رہے تھے

ان کے پاس ریوالورز تھے جو انھوں نے اپنی جیبوں میں چھپا رکھے تھے۔ رومانیہ کی حکومت کو معلوم تھا کہ ریبیرو کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ وہ پنجاب میں پولیس کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں۔ ریبیرو اپنی اہلیہ کے ساتھ تقریباً آدھا کلومیٹر پیدل چلے ہوں گے کہ انھوں نے اپنے قریب ہی کار کی تیزی سے بریک لگنے کی آواز سنی

آواز سن کر ربیرو چوکنا ہو گئے۔ انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو چار افراد جن کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے گاڑی سے نیچے اتر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے ریبیرو کی سمت فائرنگ کی

جولیو ریبیرو اپنی سوانح عمری ’بلیٹ فار بلیٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں اتنی تیزی سے بھاگا جتنی تیزی سے ایک 62 سالہ بوڑھا بھاگ سکتا تھا۔ میں نے دوڑتے ہوئے سڑک پار کی جو بہت چوڑی تھی۔ دو حملہ آور میرا پیچھا کر رہے تھے۔ وہ اے کے 47 سے مجھ پر مسلسل فائرنگ کر رہے تھے۔ اے کے47 سے کسی مخصوص شخص کو نشانہ بنانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں

‘پہلی بات تو یہ کہ آپ کے پاس بہت کم وقت ہوتا ہے۔ اگر وقت ہو بھی تو صرف پہلی گولی کے ہی نشانے پر لگنے کا امکان ہوتا ہے۔ باقی گولیاں ادھر ادھر اڑتی جاتی ہیں۔ میں جیسے ہی دوڑتا ہوا ایک بغل والے مکان کے احاطے میں گھسا تو ایک گولی میری پشت پر لگی۔ میں چند قدم تک بھاگا لیکن پھر گر پڑا۔‘

حملہ آور کو محافظ کی گولی لگی

دوسری جانب رومانیہ کے سکیورٹی اہلکاروں کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ کیا ہو رہا ہے تو انھوں نے واکی ٹاکی کے ذریعے اپنے ساتھیوں کو آگاہ کیا۔ وہ بہت تیز گاڑی چلاتے ہوئے وہاں پہنچے۔ انھوں نے حملہ آوروں پر فائرنگ کی جو گاڑی کی نگرانی میں کھڑے تھے۔ ایک شخص وہیں مارا گیا

دوسرے شخص کو ریبیرو کے ساتھ ہی ہسپتال لے جایا گیا۔ اس کا آپریشن ہوا اور چند دنوں بعد وہ بات کرنے کے قابل ہو گیا۔ تیسرا حملہ آور اسلحے سمیت رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ چوتھا حملہ آور اپنے ایک ساتھی کے ساتھ دوسری کار میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ ریبیرو کا فوری طور پر آپریشن کیا گیا

وہ 22 دنوں تک ہسپتال میں رہے۔ ربیرو پر حملے کی اطلاع ملتے ہی انڈین حکومت نے دہلی میں رومانیہ کے سفارت خانے اور سفیر کے گھر پر چھ سکیورٹی اہلکاروں کو ڈیوٹی پر مامور کر دیا

دریں اثنا، انڈین وزارت خارجہ کے حکام نے رومانیہ کے سفیر لیویو راڈو کو وزارت میں طلب کیا اور ان سے پوچھا کہ ان کا ملک انڈین سفارت کاروں کی سکیورٹی کے لیے کیا کر رہا ہے۔ راڈو اور انڈین حکام اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے کہ اس دوران سکھ انتہا پسند راڈو کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے

راڈو کو گھر سے آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر اغوا کیا گیا

اس واقعے کے تقریباً دو ماہ بعد آٹھ اکتوبر سنہ 1991 کو صبح آٹھ بج کر پانچ منٹ پر انڈیا میں رومانیہ کے سفیر 55 سالہ لیویو راڈو اپنی کالے رنگ کی ڈاچیا کار سے اپنے زورباغ والے گھر سے اپنے دفتر وسنت وِہار جانے کے لیے نکلے۔ وہ اپنی گاڑی خود چلا رہے تھے۔ جیسے ہی وہ زورباغ لین میں داخل ہوئے اور لودھی روڈ کی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ ایک ماروتی کار نے انھیں بائیں طرف سے اوور ٹیک کیا

انڈیا ٹوڈے کے 31 اکتوبر 1991 کے شمارے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’ان این اپیرنٹ ریٹیلیئشن، سکھ ملیٹینٹس ایبڈکٹ رومانین ڈپلومیٹ‘ میں راہل پاٹھک نے لکھا: ’راڈو کی کار کے بالکل پیچھے ایک فرانسیسی سفارت کار کی گاڑی چل رہی تھی۔ زورباغ کے مکینوں کی حفاظت کے لیے زورباغ مارکیٹ لین اور لودھی روڈ کے کراسنگ پر رکاوٹیں لگی تھیں

جیسے ہی بیریئر نیچے آیا، تینوں کاریں یعنی ماروتی، راڈو کی کار اور فرانسیسی سفارتکار کی گاڑیاں رک گئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ماروتی سے تین لوگ نیچے اترے۔ دو لوگ راڈو کی گاڑی کی طرف بڑھے۔ ایک شخص نے پگڑی پہنی ہوئی تھی اور اس کے ہاتھ میں اے کے 47 تھی۔ دوسرے شخص کے ہاتھ میں پستول تھا

تیسرے شخص کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ دو افراد راڈو کی گاڑی پر زبردستی چڑھ گئے۔ تاہم اس وقت دہلی کے ایڈیشنل کمشنر آف پولیس نیرج کمار نے بیان دیا تھا کہ ایک شخص نے راڈو کو بندوق دکھا کر کار کا دروازہ کھولا تھا۔ پچھلی گاڑی میں موجود فرانسیسی سفارت کار نے سمجھا کہ کچھ سکیورٹی اہلکار راڈو کی گاڑی میں داخل ہو رہے ہیں

جنرل ویدیا کے قاتلوں کو رہا کرنے کا مطالبہ

جیسے ہی انتہا پسند راڈو کی کار پر چڑھے، بیریئر کھل گیا اور راڈو کی ڈاچیا کار اور ماروتی کار آگے بڑھ گئیں۔ پولیس کو اس اغوا کی اطلاع اس واقعے کے 100 منٹ بعد صبح 9.50 بجے ملی۔ یہ اطلاع انھیں وزارت خارجہ کے ذریعے ملی

پولیس صبح تقریباً ساڑھے 10 بجے حرکت میں آ گئی۔ بعد میں ایک عینی شاہد سے معلوم ہوا کہ جس ماروتی کار نے راڈو کی کار کو روکا تھا اس کا نمبر DDD 4747 تھا۔ جانچ کے بعد پتہ چلا کہ کار پر لگی نمبر پلیٹ جعلی تھی۔ کچھ دیر بعد راڈو کی کار اور ماروتی سندر نگر کے علاقے میں کھڑی پائی گئیں

پولیس کمشنر نیرج کمار نے بعد میں اعتراف کیا کہ واقعے کے تقریباً دو گھنٹے بعد روڈ بلاک لگانے اور گاڑیوں کی چیکنگ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا تھا۔ خالصتان کمانڈو فورس سمیت چار سکھ انتہا پسند تنظیموں نے اغوا کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ 12 اکتوبر کو خبر رساں ایجنسی یو این آئی کے دفتر کو راڈو کی ایک تصویر بھیجی گئی جس میں وہ مسلح انتہا پسندوں سے گھرے ہوئے تھے

یہ پولرائیڈ کیمرے سے لی گئی تصویر تھی جسے بڑا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ایک نوٹ بھی آیا جس میں لکھا تھا کہ اگر حکومت نے انڈین آرمی چیف جنرل ویدیا کے قتل کے جرم میں سزائے موت کا سامنا کرنے والے تین سکھ انتہا پسند سُکھا، جندا اور نیما کو رہا نہ کیا تو وہ راڈو کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے

پولرائیڈ کیمرے کی ریل کہاں سے خریدی گئی تھی اس کے بارے میں پولیس نے سراغ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں کوئی خاص معلومات نہیں مل سکیں

حکومت ہند اور رومانیہ کے درمیان اختلافات
انٹیلیجنس بیورو نے آنے والی فون کالز کی نگرانی کے لیے راڈو کے گھر پر ایک کنٹرول روم قائم کیا۔ انھوں نے راڈو کی بیوی کے پاس اپنے کنٹرول روم کے دو نمبر بھی چھوڑے۔ انھیں ہدایت کی گئی کہ اگر اغوا کاروں نے انھیں فون کیا تو انھیں یہ نمبر دیے جائیں۔ لیکن شدت پسندوں نے ان کے گھر کوئی فون کال نہیں کی

ادھر راڈو کی اہلیہ کیتھرین راڈو نے انڈین حکومت پر تنقید کر کے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ حکومت ہند نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ خیالات رومانیہ کی حکومت سے تعلق نہیں رکھتے

لیکن انڈیا کو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب رومانیہ کے وزیر اعظم نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ آخر انڈیا اس معاملے میں متحرک کیوں نہیں ہے

16 اکتوبر کو کے ایل ایف (خالصتان لبریشن فرنٹ)، خالصتان کمانڈو فورس اور سکھ سٹوڈنٹ فیڈریشن (بٹو گروپ) نے ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ اگر ویدیا کے قاتلوں کو 19 نومبر تک رہا نہ کیا گیا تو وہ سمجھ جائیں گے کہ انڈین حکومت راڈو کو مردہ دیکھنا چاہتی ہے

انتہا پسند دیوپال سنگھ مارا گیا

اغوا ہونے کے بعد لیویو راڈو نے شدت پسندوں کو بتایا کہ وہ دل کے مریض ہیں اور اگر اُنھیں وقت پر دوا نہ ملی تو ان کی صحت خراب ہو سکتی ہے۔ شدت پسندوں نے اپنے ایک ساتھی دیوپال سنگھ کو ٹیلی فون بوتھ سے راڈو کے گھر پر دوائیوں کے ناموں کے بارے میں پوچھنے کے لیے فون کروایا گيا

پولیس اس فون کو ٹیپ کر رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ دیوپال سنگھ ریسیور رکھ پاتے، پولیس نے سپر مارکیٹ کے باہر ایک ٹیلی فون بوتھ کو گھیر لیا۔ دیوپال سنگھ نے پولیس کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کر دی

پولیس نے گولی کا جواب گولی سے دیا۔ دیوپال سنگھ کو تین گولیاں لگیں اور وہ وہیں ہلاک ہو گئے۔ اس کے فوراً بعد انتہا پسند راڈو کو صادق نگر میں محفوظ ٹھکانے سے نکال کر شمالی دہلی کے نانک پیاؤ گوردوارہ لے آئے

پولیس نے راڈو کی تلاش میں دہلی میں کئی مقامات پر چھاپے مارے لیکن انھیں کامیابی نہیں ملی۔ سکھ انتہاپسندوں نے راڈو کو کچھ دنوں تک دہلی میں رکھا لیکن پھر سنگھو بارڈر کے ذریعے گاڑی میں بٹھا کر انھیں پنجاب لے گئے

راڈو کی رہائی کے لیے مغربی ممالک کا دباؤ
حکومت ہند نے جنرل ویدیا کے قاتلوں کی رہائی کے انتہا پسندوں کے مطالبات کو یکسر مسترد کر دیا۔ انتہا پسندوں نے یہ بھی اشارہ کیا کہ راڈو کو اغوا کر کے وہ نہ صرف جنرل ویدیا کے قاتلوں کی رہائی کے خواہاں تھے بلکہ وہ رومانیہ کی حکومت سے ان لوگوں کو بھی رہا کروانا چاہتے تھے جنھوں نے جولیو ریبیرو کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی

رومانیہ کی حکومت نے واضح کیا کہ وہ جولیو ریبیرو کو قتل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو رہا نہیں کرے گی۔ دریں اثناء رومانیہ کی حکومت نے حکومت پاکستان سے رابطہ کیا اور اپنے سفارت کار کی رہائی کے لیے ان سے مدد طلب کی

دیگر مغربی ممالک بھی پاکستان پر دباؤ ڈالنے لگے۔ اغوا کے تقریباً 15 دن بعد شدت پسندوں کو احساس ہوا کہ ان کے منصوبے کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے

بین الاقوامی میڈیا میں اغوا کا ذکر نہ ہونے پر مایوسی ہوئی

انڈین خفیہ ایجنسی را میں ایڈیشنل سیکریٹری کے طور پر کام کرنے والے بی رامن اپنی کتاب ’دی کاؤ بوائز آف را ڈاؤن میموری لین‘ میں لکھتے ہیں: ’انڈیا، امریکہ اور جرمنی کی خفیہ ایجنسیوں نے لاہور میں رہنے والے انتہا پسندوں کے ٹیلی فون ٹیپ کیے تھے

’انٹیلیجنس بیورو نے کے ایل ایف کے ایک کارکن کو پکڑا بھی جسے اغوا کے بارے میں بہت کم علم تھا۔ پکڑے گئے افراد سے پوچھ گچھ پر یہ بات سامنے آئی کہ کے ایل ایف پہلے ایک فرانسیسی سفارت کار کو اغوا کرنے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ ان کے پاس سکیورٹی کا مضبوط نظام موجود ہے تو یہ خیال ترک کر دیا گیا

’راڈو کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ انھیں ذاتی طور پر کوئی سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی۔ لیکن سکھ انتہا پسندوں کو بہت مایوسی ہوئی کہ اس اغوا کو بین الاقوامی میڈیا میں کوئی خاص توجہ نہیں ملی۔ چنانچہ انھوں نے راڈو کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ مستقبل میں وہ صرف امریکہ جیسے اہم ملک کے سفارت کاروں کو ہی اغوا کریں گے۔‘

راڈو جہلم ایکسپریس سے دہلی آئے

دریں اثنا، امریکی انڈر سکریٹری برائے بین الاقوامی سلامتی ریجنالڈ بارتھولومیو 21 نومبر کو اسلام آباد سے دہلی پہنچے۔ پاکستان میں مقیم سوہن سنگھ کی سربراہی میں دوسری پنتھک کمیٹی نے اعلان کیا کہ راڈو کو 24 نومبر کو رہا کیا جائے گا۔ اغوا کاروں نے انھیں 25 نومبر کی رات 11 بجے پنجاب کے جالندھر اور لدھیانہ کے درمیان ایک چھوٹے سے سٹیشن سے دہلی جانے والی ٹرین میں سوار کیا

26 نومبر سنہ 1991 کو صبح 10 بجے جہلم ایکسپریس نئی دہلی سٹیشن میں داخل ہوئی۔ لیویو راڈو نے ایک عام مسافر کی طرح اپنے جنرل کمپارٹمنٹ سے اتر کر پلیٹ فارم پر قدم رکھا۔ وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں فوری طور پر اپنے محاصرے میں لے لیا

وہ انھیں اپنی حفاظت میں باہر لے آئے جہاں ایک ٹیکسی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ انھیں سیدھے ان کے گھر زورباغ لے گئی۔ اس وقت راڈو کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور اُنھوں نے پگڑی باندھ رکھی تھی۔ اس بھیس میں وہاں تعینات پولیس اہلکار بھی اُنھیں پہچان نہ سکے۔ اپنے گھر میں داخل ہونے کے لیے راڈو کو اپنا شناختی کارڈ دکھانا پڑا

سکھ انتہا پسندوں کی بدنامی

اگلے دن راڈو نے پریس کانفرنس کر کے صحافیوں کو اپنی روداد سنائی۔ جب وہ صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے تو انھیں رومانیہ کے صدر ایان ایلسکو کا پیغام موصول ہوا جس میں انھوں نے راڈو کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پورا ملک ان کے لیے پریشان تھا۔ راڈو نے کہا کہ انھیں 27 اکتوبر تک دہلی میں رکھا گیا لیکن ہر وقت ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی تھی

راڈو نے یہ بھی بتایا کہ انتہا پسندوں نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ وہ اُنھیں ’انکل‘ کہتے تھے اور روزانہ ان کے پڑھنے کے لیے انگریزی اخبار کا بندوبست کرتے تھے۔ انھیں وقت گزارنے کے لیے ایک ٹی وی بھی دیا گیا تھا۔ رات کو سونے سے پہلے انھیں ایک گلاس دودھ پینے کے لیے دیا جاتا

رہائی کے چند ہی دنوں بعد رومانیہ کی حکومت نے لیویو راڈو کو دہلی سے واپس بلا لیا۔ حکومت ہند نے یہ سبق بھی سیکھا کہ بعض اوقات ثابت قدمی کے بھی اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں

اس اغوا کا انتہا پسندوں کی مہم پر برا اثر پڑا۔ وہ اپنے ساتھیوں کی رہائی کے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے جبکہ پوری دنیا میں ان کی بہت بدنامی بھی ہوئی۔

بشکریہ: بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close