کراچی – پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی قیادت میں جب حکومت کے خلاف کراچی سے مارچ کا آغاز کیا گیا تو تحریک انصاف نے گھوٹکی سے حقوق سندھ مارچ کا اعلان کیا جو تقریباً ایک ماہ قبل 6 مارچ کو کراچی پہنچا، لیکن یہاں یہ کوئی بڑا سیاسی شو کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ لیکن اتوار کو صورتحال مختلف نظر آئی جب لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد احتجاج میں شرکت کے لیے کراچی کی سڑکوں پر موجود تھی
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جمعے کو بطور وزیرِ اعظم قوم سے آخری خطاب میں اتوار کے دن احتجاج کی اپیل کی تھی
کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف نعرے لگائے گئے اور ایک ویڈیو کے مطابق پارٹی کا جھنڈہ بھی جلایا گیا اور یہ نعرے لگائے گئے کہ ’مہاجروں کا ووٹ فروخت کیا گیا ہے‘
عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے خلاف پاکستان کے کئی شہروں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے۔ ملک میں ہنگامہ خیز سیاسی ڈرامہ فی الحال ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے والے لوگ ان کے اقتدار کے خاتمے کا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں؟
اسلام آباد میں مظاہرے میں شریک ایک خاتون کا کہنا تھا ”میرے خیال میں عمران خان وہ واحد شخص بچا ہے جو ایماندار ہے۔ ہم صرف اسی پر اعتماد کر سکتے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ غدار ہمارے حکمران ہوں“
لاہور اور کراچی میں بالخصوص عوامی رد عمل کی کیا توقع تھی، صحافیوں نے عمران خان سے پیر کو اسمبلی میں آمد پر بار بار یہ سوال کیا اور انہوں نے صرف جملے میں جواب دیا کہ ’عزت دینے والا اللہ ہے۔‘
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر جہاز رانی علی حیدر زیدی کا کہنا ہے کہ انھیں اس عوامی رد عمل کی توقع تھی کیونکہ عمران خان نے قوم کو اٹھا دیا اور جس طرح سے یہ باہر نکلی ہے یہ امپورٹیڈ حکومت نہیں چلے گی
سیاسی تجزیہ کار عوامی رد عمل پر منقسم نظر آتے ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹوڈولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی یعنی پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ اتنا بڑا رد عمل ہوگا
انہوں نے کہا ’یہ توقع سے زیادہ ہجوم تھا اور کئی شہروں میں تو قیادت بھی موجود نہیں تھی پھر بھی لوگوں نے رد عمل کا اظہار کیا ہے‘
تجزیہ کار سہیل وڑائچ بھی احمد بلال کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ فوری ردعمل ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف ایک بہت بڑی سیاسی قوت ہے اور یہ مقبول سیاسی قوت کے طور پر ابھی موجود ہے‘
ان کے مطابق ’پنجاب میں تحریک انصاف اربن مڈل کلاس میں نظر آ رہی ہے۔ ہمارا اندازہ یہ تھا کہ پنجاب کے جو پچھلے ضمنی انتخابات ہوئے اس میں اربن مڈل کلاس کا رخ شہروں میں مسلم لیگ ن کی طرف تھا جبکہ دیہات میں تحریک انصاف جیت رہی تھی، لیکن اتوار کو جو احتجاج ہوا ہے وہ اربن مڈل کلاس نے کیا ہے‘
تجزیہ کار مظہر عباس کو عوامی ردعمل کی توقع تھی۔ بقول ان کے ’جب بھی حکومت کو اس طرح سے ہٹایا جاتا ہے تو اس پر ایک فطری رد عمل نظر آتا ہے اور اس جماعت کی عوامی حمایت تو رہتی ہے اور آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور سب سے زیادہ مضبوط سوشل میڈیا ونگ بھی تحریک انصاف کا رہا ہے، اس نے بھی لوگوں کو متحرک کیا ہے‘
ان کے مطابق ’عمران خان کا ایک خاص ووٹ بینک ہے، ایسے لوگ بھی ہیں جو سنہ 2013 سے قبل کبھی پولنگ اسٹیشن نہیں گئے تھے۔ وہ خاندان، وہ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو کبھی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے، وہ عمران خان کی وجہ سے متوجہ ہوئے۔ ہم نے کل شہروں میں دیکھا، شرکا میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو اس ووٹ بینک سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘
عمران خان کا الزام ہے کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد امریکی سازش کا حصہ ہے اور انہیں خارجہ پالیسی کے فیصلوں کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس میں ماسکو کا دورہ کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے، جس نے ان کے بقول مغربی اہلکاروں کو ناراض کر دیا تھا
دوسری جانب اپوزیشن کے رہنما ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور عمران خان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اقتدار میں رہنے کے لیے ’عوام کو بے وقوف‘ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ وہ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو چکے ہیں
بعض تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ”معمول کے“ ایک سفارتی مراسلے (کیبل) کے الفاظ کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ مراسلہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نے بھیجا تھا. اطلاعات کے مطابق اس مراسلے میں اس مبینہ وارننگ کا ذکر کیا گیا تھا کہ اگر عمران خان اقتدار میں رہے تو پاکستان کو اس کے ‘نتائج’ بھگتنا پڑیں گے
عمران خان نے اس مراسلے کی بنیاد پر کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے یہ دھمکی، کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس وقت دی گئی، جب ابھی تک تحریک عدم اعتماد لائی ہی نہیں گئی تھی
وہ اسی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ اس تحریک عدم اعتماد اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے، جس کے لیے پاکستان کی اپوزیشن استعمال ہوئی
دوسری جانب روس کی طرف سے بھی یہ بیان سامنے آ چکا ہے کہ امریکا نے روس کا دورہ کرنے پر نافرمان عمران خان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا
امریکا مسلسل اس کی تردید کرتا آیا ہے. امریکا کا کہنا ہے کہ ان کا اس سب سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن پی ٹی آئی کی اس وقت کی حکومت نے سرکاری سطح پر امریکا کی تردید کو سراسر جھوٹ قرار دیا
تاہم اب صورتحال کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کا یہ موقف پاکستان کے عوام میں مقبول ہو رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ حالیہ احتجاج کے دوران ‘امریکا کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے۔’ کا نعرہ گونجتا سنائی دے رہا ہے
اسلام آباد کے ایک پارک میں ہونے والی ایک ریلی میں پورے پورے خاندان اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے شریک ہوئے۔ ان میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کی تھی. مظاہرین میں سے ایک نے کہا ‘ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم غلاموں کی زندگی نہیں گزاریں گے“
کراچی میں ایک بزرگ کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھا، جس پر تحریر تھا کہ ”بچو، بھٹو کو میں نے کھویا، عمران کو تم نہ کھونا“
یاد رہے کہ یہ بات مشہور ہے کہ بھٹو کو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی تھی
سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ پر شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی تصویر کے ساتھ تحریر تھا کہ ”امریکا کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ عمران خان کو خرید ل
سکتا، اس لیے اس نے کباڑ لے لیا“
سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہمیشہ سے امریکی مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ ”جیسے سنہ 2002 میں ہم نے دیکھا کہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو اتنی کامیابی ہوئی کہ اس نے خیبر پختونخواہ میں حکومت بنائی۔ اس سے قبل کبھی مذہبی جماعتوں کو اس طرح سے پذیرائی نہیں ملی تھی“
مظہر عباس کا کہنا ہے ”سنہ 1977 میں گو کہ مارشل لا لگ گیا تھا اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کا بیانیہ لوگوں میں بڑا مقبول تھا اور جب نوے روز میں الیکشن کا اعلان کیا گیا تو پیپلز پارٹی کی کامیابی کی پیش گوئی کر لی گئی تھی۔ بھٹو نے بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش کی جا رہی ہے جو اتحاد بنا ہے وہ بھی اس سازش کا حصہ ہے۔ عمران خان بھی اس بیانیے کو اختیار کیے ہوئے ہیں“
احمد بلال محبوب کہتے ہیں ”عمران خان کے بیانیے میں عالمی اور مقامی دونوں ہی عنصر موجود ہیں کہ ’عمران نے پاکستان کے لیے خود داری دکھائی ہے اور پاکستان کے لیے کھڑا ہوا ہے“
حالیہ احتجاجی لہر کے دوران سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہروں میں اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف بھی غصہ نظر آ رہا ہے
سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک ویڈیو میں مظاہرے میں ایک شخص کے پوسٹر پر لکھا ہے کہ ”تم کتنی ویگو لا سکتے ہو“ واضح رہے کہ ویگو گاڑی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے
دوسری جانب پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ حالیہ صورتحال سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے۔ وہ بھی محمد خان جونیجو سے لے کر بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی سمیت وزیرِ اعظموں کی اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں، جنہوں نے اپنی مدت پوری نہیں کی
تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں ”محمد خان جونیجو کے پاس عوامی حمایت نہیں تھی اسی لیے کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ اس کے بعد بینظیر بھٹو کی حکومت جب ختم ہوئی تو لوگ ان کے لیے نکلے تھے۔ اس وقت صورتحال اندرونی تھی امریکی مخالفت والی نہیں تھی۔ اسی طرح 1993 میں جب نواز شریف نے تقریر کی کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا تو ان کا سیاسی قد بڑھا تھا۔ اسی طرح جب 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو مسلم لیگ ن بطور سیاسی جماعت اپنی جگہ کھڑی رہی باوجود اس کے کہ اس کو توڑا گیا“
احمد بلال کہتے ہیں ”ماضی میں عوام ایسے باہر نہیں نکلی اور اس کی کئی اور بھی وجوہات ہوں گی لیکن ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے اس وقت یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ فوج کہاں کھڑی ہے۔ موجودہ وقت کچھ حد تک تو واضح ہے لیکن مکمل طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ فوج کیا کرے گی، جب ایسے لوگ باہر نکلیں گے“
ان کے مطابق ماضی میں خوف کا عنصر زیادہ تھا اور ان کا خیال ہے کہ وہ عنصر اب نہیں ہے
تجزیہ کار سہیل وڑائچ بھی احمد بلال کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ ماضی میں ایسا کوئی فوری رد عمل نظر نہیں آیا ہے
انہوں نے کہا ”نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور تک جو مارچ کیا تھا اس میں کچھ قدر رد عمل نظر آیا تھا لیکن اس طرح سے خود بخود مظاہرے کرنا یہ ایک بڑی پیش رفت ہے، اس کو آؤٹ برسٹ یا عوامی ناراضگی کہہ سکتے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے حمایتی چاہتے تھے کہ ان کی حکومت نہ جائے، عمران کا بیانیہ ایک طبقے کے لیے باعث کشش ہے اور ان کا ووٹ بینک جو اگر پہلے سویا بھی ہوا تھا تو وہ اب متحرک ہوا ہے“
سہیل وڑائچ کہتے ہیں ”ایک نئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ فورس بن رہی ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی ہوتی تھی اس کے بعد مسلم لیگ ن بنی، اب یہ ایک نئی طاقت ابھرے گی“
ان کا کہنا ہے ”اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے مثبت اور منفی دونوں ہی پہلو ہیں۔ مثبت رخ تو یہ ہے کہ اس میں بڑا جوش، جذبہ و جنون ہوتا ہے جب آپ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی امپیریل ازم کے نعرے لگاتے ہیں۔ دوسری طرف منفی پہلو یہ ہے کہ ریاست کی طاقت کے جو سرچشمے ہیں آپ ان سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اقتدار سے بھی دور ہوتے چلے جاتے ہیں چاہے آپ عوام میں کتنے بھی مقبول کیوں نہ ہوں“
مظہر عباس کہتے ہیں ”تحریک انصاف ایک چیلنج بنے گی۔ خیبر پختونخواہ میں ان کی حکومت ہے، پنجاب میں بہت بڑی جماعت ہے اور معاشی صورتحال انتہائی سنگین ہے“
انہوں نے کہا ”وہ اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ پر براہ راست حملہ نہ کریں لیکن وہ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ صرف باہر کی سازش نہیں اس میں اندر کے لوگ بھی ملوث ہیں۔ جس طرح کا عوامی رد عمل آیا ہے اس سے عمران خان کا حوصلہ اور بلند ہوگا اور ادارے اور موجودہ حکومت دباؤ میں آئے گی“
احمد بلال کہتے ہیں ”تحریک انصاف آگے بڑھے یا یہاں پر ہی رک جائے، قیادت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کہے نہ کہے لیکن سوشل میڈیا پر یہ چلتا رہے گا۔ شاید اس میں شدت بھی آئے اور یہ چلینج رہے گا۔ انہیں بھی کسی پوائنٹ پر جواب دینا پڑے گا“