ایک ہفتے سے زائد جاری رہنے والی غیر یقینی کی صورتحال کے بعد بلآخر قومی اسمبلی نے پاکستان کے نئے وزیرِاعظم کا انتخاب کرلیا ہے۔ اس مضمون کی اشاعت کے وقت تک نئی کابینہ کے انتخاب کا عمل بھی شروع ہوچکا ہوگا۔ تناؤ تو اب آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے لیکن غیر یقینی کی صورتحال باقی رہ سکتی ہے۔
اگرچہ ہمارے نظام نے عمران خان کی جانب سے اٹھائے جانے والے آئینی و قانونی اعتبار سے ہر غلط قدم کا مقابلہ کیا ہے لیکن ملک کو درپیش سیاسی بحران جلد ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔
اس سیاسی بحران یا عدم استحکام کے 2 پہلو ہیں:
ایک پہلو تو خود عمران خان ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت کے بارے میں تمام تجزیوں کے باوجود، انہیں اب بھی عوامی حمایت حاصل ہے جس کا مظاہرہ اتوار کی رات مختلف شہروں میں دیکھا گیا۔ عمران خان کے حامیوں کی تعداد انہیں اقتدار تک پہنچانے کے لیے کافی ہو یا نہ ہو لیکن وہ سڑکوں پر قوت کے اظہار کے لیے کافی ہے۔
یہ حمایت عمران خان کو سیاست میں زندہ رکھے گی اور ایک خاطر خواہ قوت بنائے گی۔ ان کے سخت ترین ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں ہونے کے بجائے اپوزیشن میں رہتے ہوئے کہیں زیادہ مؤثر ہیں۔ یہ اعزاز کبھی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے لیے مخصوص تھا تاہم پیپلز پارٹی نے اسے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حوالے کردیا ہے۔
پھر ان کا تشکیل دیا گیا بیرونی سازش کا بیانیہ بھی ان کی مدد کرے گا۔ شاید خارجہ پالیسی پر عمل کرنے والوں نے اس پر تنقید کی ہو لیکن سیاسی طور پر یہ عمران خان کو بہت فائدہ پہنچائے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے نواز شریف سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کی جماعت اور ان کے اتحادی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ابتدائی دنوں میں نواز شریف کی جانب سے فوج پر کی جانے والی تنقید سے خوش نہیں تھے۔
عمران خان نے اقتدار سے اپنی بے دخلی کو بیرونی سازش سے جوڑا اور اس بیانیے کو نہ صرف ان کے حامیوں اور جماعت کے رہنماؤں نے اپنایا بلکہ فروغ بھی دیا۔ ہوسکتا ہے کہ دیگر لوگ بھی اس سے قائل ہوجائیں کیونکہ ماضی میں بھی پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ ان امریکا مخالف جذبات پر بھی پورا اترتا ہے جنہیں خود ریاست بھی تواتر کے ساتھ بھڑکاتی رہی ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اس طرح عمران خان کو فوج کے اندر اپنی حمایت برقرار رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی جانب سے حالیہ دنوں میں عمران خان کی حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ فوج کے اندر ابھی ان کے لیے حمایت باقی ہے۔
بیرونی سازش کے نعرے کی کامیابی یوں بھی نظر آرہی ہے کہ اپوزیشن کو نہ صرف اس پر ردِعمل دینا پڑا بلکہ اپنا دفاع بھی کرنا پڑرہا ہے۔ شہباز شریف کو بھی بحیثیت وزیرِاعظم اپنی پہلی تقریر میں اس معاملے کا ذکر کرنا پڑا اور انہوں نے پارلیمانی تحقیقات کا بھی اعلان کیا۔ مقبول عام نعروں کی یہی خاص بات ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اسے نظر انداز کرنے کے بجائے اس پر ردِعمل دینے پر مجبور کردیتے ہیں جس سے ایک ایجنڈا ترتیب پاتا ہے۔
عمران خان کے لیے ایک چیلنج اس مسئلے کو آئندہ انتخابات تک زندہ رکھنا ہوگا تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات کب ہوں گے۔ ریاست کا مقابلہ کرتے ہوئے ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا۔
عمران خان کو صرف فارن فنڈنگ کیس کا سامنا نہیں ہے بلکہ ان کی جماعت کو دھڑے بندی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ ان تمام جنگوں کے درمیان سڑکوں پر اپنے حامیوں کے جذبات بھڑکانا اور انتخابات تک اس صورتحال کو برقرار رکھنا بالکل بھی آسان نہیں ہوگا۔ عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے فیصلے پر بھی بحث کی جاسکتی ہے۔ حلقے کی سیاست میں اپنی جگہ چھوڑنا سیاسی طور پر کبھی بھی فائدہ مند نہیں ہوتا پھر اسمبلی میں رہتے ہوئے پی ٹی آئی نئی حکومت پر زیادہ دباؤ ڈال سکتی تھی۔
اس سیاسی بحران کا دوسرا حصہ گورننس اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس کے انتظام کی صلاحیت ہے۔
ملک کی معیشت اس وقت تباہ ہوچکی ہے۔ اس کی وجہ کچھ تو پی ٹی آئی کے فیصلے (یا یوں کہیے کہ تنظیمِ نو اور اصلاحات کے حوالے سے فیصلے نہ کرنا) ہے اور کچھ ہماری طویل مدتی اور ناقابلِ تسخیر مشکلات ہیں۔ ایندھن کی قیمتوں کے حوالے سے عمران خان کے حالیہ اقدام نے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر یہ درست فیصلے لیتی ہے تو اسے سڑکوں پر اور ٹاک شوز میں عوام اور پی ٹی آئی کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یوں پی ٹی آئی کو یہ سوال کرنے کا موقع مل جائے گا کہ کیا مہنگائی کی وجہ صرف پی ٹی آئی کی نااہلی تھی؟
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کو بھی وضاحت کرنی پڑے گی کہ آخر وہ کیوں بجلی کی قیمتوں کو کم نہیں کرسکتے اور کیا وہ اپنے وعدے کے مطابق اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کو ختم کریں گے۔ پی ٹی آئی کی نااہلی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی پر 3 برسوں سے جو بحث جاری ہے اسے برداشت کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
تنقید کے علاوہ بھی اگر شہباز شریف آئندہ انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) کی ساکھ اور مقبولیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو وہ کئی مشکل فیصلوں کو ٹال دیں گے (انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں بھی پیٹرول کی قیمتوں کے حوالے سے بات نہیں کی)۔ ان کے لیے کوئی بھی فیصلہ کرنا مشکل ثابت ہوگا کیونکہ انتخابات کی تاریخوں کے حوالے سے ابھی کسی قسم کا اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔
کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو فوری انتخابات چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کچھ عرصے کے لیے بھی حکومت کرنا پنجاب میں ان کی انتخابی کامیابی کے امکانات کو کم کردے گا۔ خود نواز شریف بھی اس بات کے حق میں ہیں لیکن یہ بات واضح نہیں کہ آیا جماعت میں ایسی سوچ رکھنے والے افراد اکثریت میں ہیں یا وہ کامیاب ہوسکتے ہیں یا نہیں۔
اس بارے میں شہباز شریف اور نئی مخلوط حکومت مجموعی طور پر کیا رائے رکھتی ہے، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ اس اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) زیادہ کچھ کہے بغیر بس انتخابات سے قبل قانون سازی کی ضرورت کو دہرا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس قانون سازی کے ایجنڈے کے حوالے سے بھی ابھی اتفاق نہیں ہے۔ کوئی انتخابی اصلاحات کی بات کرتا ہے تو کوئی نیب کی اور کوئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی۔ پھر بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حکومت کم از کم نومبر تک رہے گی تاکہ اس حوالے سے کچھ یقین ہوجائے کہ اس وقت کیے جانے والے بڑے فیصلے کون کرے گا۔
اگر حکومت کی مدت کچھ ہفتوں سے مہینوں تک چلی گئی تو پھر بڑھتی ہوئی مہنگائی کا بوجھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات میں پنجاب میں کچھ کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے اس معاملے سے الگ رہنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری شہباز شریف کی حکمرانی کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔
اس صورتحال سے عمران خان اور پی ٹی آئی بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ یعنی یہ بات طے ہے کہ آئندہ انتخابات تک حالات پُرسکون تو نہیں ہونے والے۔
بحولہ : ڈان نیوز