”غیر متوقع نتائج بھگتنا ہوں گے“ یوکرین کی فوجی امداد پر روس کا امریکا کو انتباہ

ویب ڈیسک

ماسکو – روس نے یوکرین کے لیے فوجی امداد پر امریکا کو باضابطہ طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر کیئف کو جدید ہتھیاروں کی رسد بھیجی گئی تو واشنگٹن کو ’غیر متوقع نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑے گا

امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے ایک سفارتی مراسلے میں ماسکو نے امریکا اور نیٹو کو روس کے ساتھ تنازع میں کیئف کے لیے انتہائی حساس ہتھیاروں کی فراہمی پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ترسیل جلتی پر تیل چھڑکنے کا کردار ادا کر رہی ہے اور یہ کہ اس کے ’غیر متوقع نتائج‘ سامنے آ سکتے ہیں

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ انتباہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے اسی ہفتے یوکرین کے لیے 80 کروڑ ڈالر کے نئے فوجی امدادی پیکج کا وعدہ کیا تھا، جس میں ہیلی کاپٹر، توپ خانہ اور بکتر بند گاڑیاں اور جنگی جہاز شامل ہیں

واشنگٹن پوسٹ نے بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار کے حوالے سے کہا کہ ’روسی ہمیں جو کچھ نجی طور پر بتا رہے ہیں وہ بالکل وہی ہے جو ہم دنیا کو کھل کر بتا رہے ہیں یعنی ہم یوکرین کے اپنے شراکت داروں کو جو امداد فراہم کر رہے ہیں، وہ غیر معمولی طور پر موثر ثابت ہو رہی ہے۔‘

تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے روس کے رسمی مراسلے کے حوالے سے رپورٹس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’ہم کسی نجی سفارتی خط و کتابت کی تصدیق نہیں کریں گے۔‘

ترجمان نے مزید کہا: ’ہم جس چیز کی تصدیق کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر یوکرین کو اربوں ڈالر مالیت کی سکیورٹی امداد فراہم کر رہے ہیں، جسے ہمارے یوکرینی شراکت دار روس کی بلا اشتعال جارحیت اور تشدد کی ہولناک کارروائیوں کے خلاف اپنے ملک کے دفاع کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اس کا غیر معمولی اثر پڑ رہا ہے۔‘

نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی حکام کو یہ مراسلہ عام چینلز کے ذریعے بھیجا گیا تھا اور اس پر کسی بھی سینیئر روسی عہدیدار کے دستخط نہیں تھے

ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ رسمی خط و کتابت سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس یوکرین کے لیے امریکہ کی جاری حمایت کے بارے میں فکر مند ہے

سی این این ہی کی رپورٹ کے مطابق دستاویز سے واقف ایک ذرائع نے کہا کہ شکایت کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ماسکو یوکرین پر حملے جاری رکھنے کے بعد امریکا اور نیٹو کے خلاف مزید جارحانہ موقف اپنانے کی تیاری کر رہا ہے

ادھر صدر بائیڈن نے اپنے یوکرینی ہم منصب وولودی میر زیلنسکی کو فون پر ہتھیاروں کے نئے امدادی پیکج کے بارے میں بتایا کیونکہ روس نے اپنی حملوں کا رخ مشرقی یوکرین کی جانب موڑ دیا ہے، جو کہ سات ہفتوں سے جاری جنگ کا نیا فرنٹ لائن بن چکا ہے

یاد رہے چند روز قبل صدر بائیڈن نے کہا تھا ’جیسا کہ روس دونبیس کے علاقے میں اپنے حملے کو تیز کرنے کی تیاری کر رہا ہے، امریکا یوکرین کو اپنے دفاع کی صلاحیتیں بڑھانے میں مدد کرتا رہے گا‘

ان کا مزید کہنا تھا ’امداد کے اس نئے پیکیج میں بہت سے انتہائی موثر ہتھیاروں کے نظام شامل ہوں گے، جو ہم پہلے ہی فراہم کر چکے ہیں اور یہ روس کے مشرقی یوکرین میں بڑے پیمانے پر حملے کے خلاف موثر ثابت ہوں گے‘

یوکرین کے صدر زیلنسکی نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ انہوں نے صدر بائیڈن کے ساتھ ’دفاعی اور ممکنہ میکرو فنانشل امداد کے اضافی پیکیج‘ پر تبادلہ خیال کیا ہے

دوسری جانب یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی نے امریکی ٹی وی چینل سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ جنگ کے دوران ان کے 25 سے 30 ہزار فوجی ہلاک جبکہ دس ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں، تاہم ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد سے متعلق کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا

یوکرین کے صدر نے کہا کہ سات ہفتوں سے جاری جنگ میں روس کے 19 سے 20 ہزار فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ ماسکو کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ان کے ایک ہزار 351 فوجی ہلاک اور تین ہزار 825 زخمی ہوئے ہیں

نئی امداد میں کچھ بھاری عسکری سازوسامان بھی شامل ہے جو واشنگٹن نے پہلے جوہری ہتھیاروں سے لیس روس کے ساتھ تنازع بڑھنے کے خدشے کے باعث کیئف کو فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ امداد یوکرین کی فوج کو پہلے سے فراہم کی جانے والی ہتھیاروں کے علاوہ ہے

واضح رہے کہ یوکرین کے شہر ماریوپول میں شدید لڑائی جاری ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور کئی ابھی بھی پھنسے ہوئے ہیں

یوکرین کی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا ہے کہ ماریوپول میں صورتحال انتہائی مشکل ہے اور روس مسلسل اضافی فوج تعینات کر کے شہر ہر حملے کر رہا ہے

ترجمان نے کہا کہ روس مکمل طور پر شہر کا قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
خیال رہے کہ جمعرات کو یوکرین نے بحر اسود میں روس کے جنگی جہاز کو اینٹی شپ میزائل سے نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد روس نے دارالحکومت کیئف کے قریب واقع ایک فیکٹری پر حملہ کیا تھا جہاں اینٹی شپ میزائل بنائے اور مرمت کیے جاتے تھے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close