بلقیس ایدھی, جو چہرے پڑھ کر دل کا حال بتا دیتی تھیں

رمیشہ علی

2015 میں ایک فرانسیسی رپورٹر نے ایک دستاویزی فلم کے سلسلے میں جب بلقیس ایدھی سے ملاقات کی تو انہوں نے الٹا اس سے سوال کر ڈالا کہ ’کیا آپ کو غصہ بہت آتا ہے؟‘

اور جب اس صحافی نے اعتراف کیا تو بلقیس ایدھی نے چھوٹتے ہی پوچھا: ’پھر تو اپنی بیوی کو بھی مارتے ہوگے؟‘ یہ سن کر اس صحافی کے حقیقتاً پسینے چھوٹ پڑے

انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار امر گروڑ یہ قصہ سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بلقیس ایدھی چہرہ دیکھ کر دل کا حال بتا دیتی تھیں

جمعے کو 74 برس کی عمر میں انتقال کرجانے والی بلقیس ایدھی اپنے شوہر عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ تھیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ہلالِ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا

بلقیس بانو ایدھی کی پیدائش 1947ع میں کراچی میں ہوئی تھی۔ اپنی خدمات کے باعث انہیں ’مادر پاکستان‘ (The Mother of Pakistan) کے نام سے بھی جانا تھا

پیشے کے اعتبار سے وہ ایک نرس تھیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق جب وہ آٹھویں جماعت میں تھیں تو انہوں نے نرسنگ کی تربیت کے لیے ایدھی نرسز ٹریننگ سینٹر میں داخلہ لیا تھا

اسی دوران عبدالستار ایدھی نے انہیں شادی کی پیشکش کی اور اپریل 1966ع میں جب ان کی شادی ہوئی تو بلقیس ایدھی کی عمر اُنیس سال تھی۔ ان کے اور عبدالستار ایدھی کے چار بچے فیصل، کبریٰ، زینت اور الماس سوگواران میں شامل ہیں

ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق شادی کے وقت عبدالستار ایدھی کے مالی حالات خستہ تھے۔ ان کے پاس صرف ایک پرانی گاڑی اور چھوٹی سی ڈسپینسری تھی، جس کی پہلی منزل پر ایک میٹرنٹی ہوم تھا، جہاں چھ سے سات بستر تھے

گراؤنڈ فلور پر چھ بائے چھ کے ایک کمرے سے بلقیس ایدھی نے اپنی نئی شادہ شدہ زندگی کی شروعات کی اور جب لوگ اس ڈسپینسری میں اپنے بچے چھوڑ کر جاتے تھے تو ایک نئی نویلی دلہن ہونے کے باوجود بھی بلقیس ایدھی ان بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی

عبدالستار ایدھی نے 1951ع میں ایدھی سینٹر کی بنیاد رکھی، جو ایک غیر منافع بخش سماجی تنظیم ہے۔ 8 جولائی 2016ع تک عبدالستار ایدھی نے اس کی باگ ڈور سنبھالی

ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے فیصل ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ بنے جبکہ بلقیس ایدھی انتظامی معاملات کے ساتھ میٹرنٹی ہوم اور اڈاپشن سروسز کی دیکھ بھال کرتی تھیں

ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق بلقیس ایدھی کو اس وقت کی ڈسپینسری میں اپنا پہلا بڑا تجربہ اچھی طرح یاد ہے۔ 1971ع کی جنگ کے دوران بم دھماکوں کے نتیجے میں کئی مسخ شدہ لاشیں دفنانے کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن لائی جاتی تھیں، جہاں ان لاشوں کو غسل دیا جاتا تھا

بلقیس ایدھی یاد کرتی تھیں کہ ان لاشوں کا صرف ایک بازو، ٹانگ یا سر برآمد ہوتا تھا۔ وہ ایدھی فاؤنڈیشن کے دیگر رضاکاروں کے ساتھ مل کر ان لاشوں کو اکٹھا کرتیں اور پھر انہیں غسل دیا کرتی تھیں

بلا کی چہرہ شناس

امر گرڑو بتاتے ہیں کہ ’میری ان سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ وہ بلا کی چہرہ شناس تھیں۔ لوگوں کے چہرے پڑھ کر وہ ان کی دل کی بات بتا دیتی تھیں۔‘

بقول امر: ’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2015ع میں فرانسیسی ٹیلی وژن کا ایک صحافی کراچی آیا۔ وہ پاکستان میں نومولود بچوں کے قتل کے حوالے سے ایک دستاویزی فلم پر کام کر رہا تھا۔ میں ان کا لوکل فکسر تھا۔ اس وڈیو کے لیے ہمیں کئی دن تک بلقیس ایدھی کے پاس آنا جانا تھا۔‘

’اس لیے میں نے فرانسیسی صحافی کے آنے سے پہلے بلقیس صاحبہ سے مل کر انہیں بتایا کہ ایسی ایک ڈاکیومینٹری ہے، جس میں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ ان کی ایک عادت تھی کہ وہ آپ کی بات سن کر سیدھا جواب دینے کے بجائے آپ سے کوئی اور سوال کرتی تھیں۔ جس کا مطلب ہوتا تھا کہ انہیں آپ کی بات میں دلچسپی ہے اور وہ آپ کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔‘

’جب فرانسیسی صحافی کراچی آئے تو میں نے ان سے کہا کہ کام شروع کرنے سے پہلے آپ بلقیس صاحبہ سے ملیں اور ان کو تفصیل سے بتائیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور ان سے تعاون کی درخواست بھی کریں۔ تو وہ مان گئے۔ ہم کھارادر میں ایدھی مرکز پہنچ گئے۔ ان کے آفس میں کچھ دیر انتظار کے بعد بلقیس صاحبہ بھی آگئیں۔‘

بقول امر: ’فرانسیسی صحافی نے انہیں بتانا شروع کیا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، مگر بلقیس صحافی کو غور سے دیکھ رہی تھیں۔ جب ان کی بات ختم ہوئی تو میں نے ترجمہ کیا۔ جس پر بلقیس صاحبہ نے مجھے کہا کہ ان سے پوچھو کہ کیا آپ کو غصہ بہت آتا ہے؟ میں نے جب ان سے پوچھا تو صحافی چونک گیا‘

’صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ اس بات کا کیا مطلب ہے؟ میں نے ان کا سوال بلقیس صاحبہ سے پوچھا تو انہوں نے پھر کہا کہ اس سے پوچھو کہ غصہ آتا ہے یا نہیں؟ خیر صحافی آخرکار مان گیا کہ ان کو غصہ آتا ہے۔ بلقیس ایدھی نے کہا کہ آپ غصے میں اکثر اپنی بیوی کو بھی مارتے ہوں گے۔ اس پر فرانسیسی صحافی ہکا بکا رہا گیا۔ اس کی آنکھیں لال ہوگئیں اور چہرہ پسینہ پسینہ ہوگیا۔ وہ صحافی مجھ سے بار بار پوچھتا رہا کہ ان کو کیسے پتہ چلا‘

ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی نے آج تک اپنا گھر نہیں بنایا۔ بلقیس ایدھی اپنی شادی کے پہلے چار سے پانچ سال تک ڈسپینسری کی چھت پر رہا کرتی تھیں۔ جب کہ بچوں کی پیدائش کے بعد وہ اپنی والدہ کے گھر پر رہنے لگی تھیں۔ ان کی والدہ بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی جب کہ بلقیس روزانہ اپنی والدہ کے گھر سے ایدھی سینٹر کے کئی چکر لگایا کرتی تھیں

فیصل ایدھی کے مطابق ان کے والدین نے سینتیس سالہ ازدواجی زندگی میں کئی دن اور رات ایدھی سینٹر میں گزارے ہیں۔ کئی موقعے ایسے بھی آئے جب وہ رات کو بھی گھر نہیں آتے تھے۔ ان کے بچے جب بھی ان سے ملنا چاہتے تھے تو وہ نانی کے گھر سے دوپہر کا کھانا لے کر ایدھی سینٹر آجاتے تھے اور اپنے والدین کے ساتھ کھانا کھاتے تھے

ہزاروں بچوں کی ممی!

گذشتہ برس انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بلقیس ایدھی نے بتایا تھا کہ انہوں نے ’ایدھی فاؤنڈیشن میں آج تک تقریباً دس ہزار سے زائد یتیم بچوں کو پناہ دی ہے۔‘

بہت سے دیگر افراد کی طرح بلقیس ایدھی کے ساتھ پچھلے چودہ سالوں سے منسلک ایدھی فاؤنڈیشن کی کارکن اسما محمد اسلم انہیں ’ممی‘ کہہ کر بلاتی تھیں

اسما نے بتایا: ’میں ہر وقت ان کے ساتھ رہتی تھی، کام کرتی تھی اور ساتھ کھانا کھاتی تھی۔ انہیں کھانے میں پالک، ساگ، میتھی اور مچھلی بہت پسند تھی۔ مگر پچھلے کچھ دنوں سے ممی کی طبعیت خراب ہوئی تو میں ان کے پاس ہی رہتی تھی‘

انہوں نے بتایا: ’ممی بہت محبت کرنے والی خاتون تھیں، وہ ہم سب کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتی تھیں۔ اگر ہم کسی دن نہیں آتے تھے تو وہ پریشان ہوجاتی تھیں اور فوراً کالز کرتی تھیں۔ پوچھتی تھیں کہ کیا ہوا خیریت ہے کیا مسئلہ ہے۔‘

بقول اسما: ’زندگی کے ہر مسئلے میں انہوں نے میری بہت مدد کی ہے۔ انہوں نے مجھے جینے کا حوصلہ دیا۔ جب میں ایدھی فاؤنڈیشن آئی تو میں دنیا کے معاملات سے واقف نہیں تھی۔ ممی نے میرا قدم قدم پر ساتھ دیا، مجھے ہر چیز بتائی سکھائی۔ میری غلطیوں کو معاف کیا اور مجھے ہر بار پھر سے موقع دیا۔ وہ کہتی تھیں کہ بس جو بھی ہو تمہیں حوصلہ نہیں ہارنا ہے۔‘

اسما بتاتی ہیں کہ بلقیس ایدھی کو پہننے اوڑھنے کا شوق تھا۔ ’ویسے تو وہ ہمیشہ سادہ لباس میں نظر آتی تھیں لیکن انہیں اچھے کپڑے پہننے اور تیار ہونے کا بہت شوق تھا۔ سرخ اور میرون رنگ ان کا پسندیدہ تھا۔ وہ ایدھی سینٹر میں لڑکیوں کی شادی اور بچوں کی سالگرہ کے لیے بہت اہتمام کرتی تھی۔ انہیں باہر گھومنے کا اور نئی جگہیں دیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔‘

’ان کی زندگی ایدھی فاؤنڈیشن کے ارد گرد ہی گھومتی تھی۔ اس کے باہر ان کی کوئی زندگی نہیں تھی۔ انہوں نے واقعی اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے وقف کیا ہے۔ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا تھا، اکثر کوئی مسئلہ پیش آتا تھا تو ہم گھبرا جاتے تھے، مگر وہ فوراً کوئی حل بتا دیتی تھیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’2016 میں مولانا صاحب (عبدالستار ایدھی) کی وفات کے بعد سے وہ بہت زیادہ اداس رہتی تھیں۔ میں نے ان کے رویے میں واضح تبدیلی محسوس کی تھی۔ وہ ہر وقت خود کو کام میں مصروف رکھتی تھیں مگر مولانا صاحب کو بہت مس کرتی تھیں اور بات بات میں انہیں یاد کرتی اور ان کا ذکر کرتی تھیں۔‘

ایدھی فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر 1976ع کا ایک واقعہ درج ہے جب عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی ایک حادثے کا شکار ہوئے جو ایک گاؤں کے قریب پیش آیا، جس کے آس پاس کوئی ہوائی اڈہ یا لینڈنگ پٹی نہیں تھی۔ اسی وقت کراچی میں بسم اللہ بلڈنگ نامی ایک عمارت گر گئی تھی

اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ جب عمارت گری تو انہوں نے جائے وقوعہ پر عبدالستار ایدھی کو غیر موجود دیکھ کر ان کے بارے میں دریافت کیا جس پر انہیں تمام صورتحال سے آگاہ کیا گیا۔ یہ جان کر ذوالفقار علی بھٹو نے فوری طور پر ایک چھوٹا ہوائی جہاز روانہ کیا

ایدھی کو کراچی کے سول ہسپتال میں داخل کروایا گیا، جہاں کچھ دیر بعد وہ ہوش میں آئے۔ انہوں نے ہوش میں آتے ہی بلقیس ایدھی سے کہا کہ وہ بھی ایک طیارہ خریدنا چاہتے ہیں۔ جس پر بلقیس ایدھی نے ان سے سوال کیا کہ وہ جہاز کیسے خریدیں گے کیونکہ ان کی موجودہ مالی صورت حال اتنی ابتر ہے کہ اگر وہ کچھ پیسوں کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالیں تو پیسوں کے بجائے جیب کا دھاگہ نکل آئے

مگر وہ دونوں کبھی مایوس نہیں ہوئے اور آج ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کی سب سے بڑی سماجی تنظیم ہے، جس کی شاخیں نہ صرف پاکستان کے کونے کونے بلکہ بیرون ملک میں بھی موجود ہیں۔ نہ صرف اس کی ایمبولینسز کا جال پورے ملک میں بچھا ہوا ہے بلکہ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس امدادی سرگرمیوں کے لیے جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی ہے.

بشکریہ: دا انڈیپینڈنٹ اردو، عرب میڈیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close