مشی گن: جامعہ مشی گن نے آواز کی لہروں سے چوہوں میں کینسر کی رسولیوں کے خاتمے کی نوید سناتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صرف یہ تجربہ کامیاب رہا ہے بلکہ اس میں سرطانی پھوڑوں کے دوبارہ نمودار ہونے کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ غیرتکلیف دہ تھراپی ہے جس میں چوہوں کو پہلے جگر کے سرطان کا مریض بنایا گیا۔ پھر ان رسولیوں کو صوتی امواج سےختم کیا گیا ۔ جب رسولیوں کی مناسب تعداد غائب ہوئیں تو جگر فعال ہوگیا اور اس کا اندرونی دفاعی (امنیاتی) نطام جاگ اٹھا اور اس نے باقی بچ جانے والے رسولیوں کو ختم کردیا ، یہاں تک کہ مرض کا دوبارہ حملہ بھی نہیں ہوا۔
جامعہ مشی گین میں بایو میڈیکل انجنیئرنگ کے ماہر زین ژو کہتے ہیں کہ اگرچہ ہم آواز سے رسولیوں کا مکمل خاتمہ کرسکتے ہیں لیکن اگر جگر کے اوپر سرطانی پھوڑے 50 سے 75 فیصد تک کم کردیئے جائیں تو امنیاتی نظام باقی ماندہ رسولیوں اور سرطانی خلیات کو ازخود ختم کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 80 فیصد چوہوں میں کینسر لوٹ کر نہیں آیا جو ایک بڑی کامیابی ہے۔
آواز سے سرطان کا گھیرا تنگ
اس ٹیکنالوجی کو ہسٹوٹرپسی کا نام دیا گیا ہے جس میں آواز کی لہروں سے ملی میٹر درستگی تک سرطانی پھوڑوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ اگرچہ انسانوں پر بھی اسے آزمایا گیا ہے لیکن ان کے نتائج میں ابھی وقت لگے گا۔
اگرچہ کینسر کے بعض حصوں کو چھوڑدینا طبی عقلمندی نہیں لیکن کئی پیچیدہ تناظر میں کینسر کے پھوڑے مکمل طور پر براہِ راست ختم نہیں کئے جاسکتے کیونکہ رسولی کی جگہ، سائز اور درجات اسے ناممکن یا مشکل بناسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آواز سے سرطانی رسولیوں کو 50 سے 75 فیصد ختم کرکے اس پر امنیاتی نظام کو دیکھا گیا ہے۔
ماہرین پرامید ہے کہ اس تدبیر پر دیگر ماہرین بھی غور کریں گے کیونکہ یہ جگر کے سرطان کے لیے بہت امید افزا ثابت ہوئی ہے۔ سب سے عام سرطان کی فہرست میں جگر کا کینسر بھی شامل ہے اور اموات کی وجہ بھی ہے۔ اس تھراپی میں جسمانی عکس نگاری کی عام الٹراساؤنڈ کو تبدیل کیا گیا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ریڈیو تھراپی اور کیموتھراپی کے ڈھیروں منفی اثرات سے بھی بچاسکتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو ہائی ایمپلی ٹیوڈ مائیکروسیکنڈ لینتھ الٹراساؤنڈ کا نام دیا گیا ہے۔ جب اسے رسولی پر مرکوز کیا جاتا ہےتو وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ مائیکروسیکنڈ کی لہریں رسولی پر خردبینی بلبلے بناتی ہے جو پھیل کر پھٹتے رہتے ہیں۔ اس سے سرطانی رسولی دھیرے دھیرے ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہوکر ختم ہوجاتی ہے۔ مشی گن کے ماہرین13 برس سے اس ٹیکنالوجی پر کام کررہے ہیں۔