کوئٹہ – ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی کے افغان سرحد سے متصل علاقے ڈھک میں سیکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ کے ایک واقعے میں ڈرائیور حمیداللہ کی ہلاکت کے بعد احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے
ضلعے میں منگل کے روز سیاسی جماعتوں کی کال پر دالبندین اور چاگئے میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی اور تمام کاروباری مراکز بند رہے، جبکہ موجودہ حکومت کی حامی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) نے علامتی طور پراحتجاجاً وفاقی کابینہ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے
منگل کو وفاقی کابینہ کی حلف برداری میں بھی بی این پی نے شرکت نہیں کی تھی
واضح رہے کہ ڈرائیور حمیداللہ 15 اپریل 2022 کو نوکنڈی کے علاقے ڈھک میں پاک افغان سرحد کے قریب سیکورٹی اہلکاروں کی فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہوئے تھے جس کے خلاف ڈرائیوروں اور شہریوں نے نوکنڈی میں احتجاج کیا تھا
نوکنڈی میں احتجاج کے دوران مبینہ فائرنگ سے 8 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ واقعے کے خلاف گذشتہ دنوں بھی تحصیل چاگئے میں شہریوں نے احتجاج کیا تھا
احتجاج کرنے والے شہریوں نے الزام عائد کیا ہے کہ فائرنگ کے واقعات میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ملوث ہیں لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے
ممبر قومی اسمبلی اور موجودہ حکومت کی اتحادی بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی بلوچوں کا خون بہایا گیا، جو ابھی تک خشک نہیں ہوا
انہوں نے کہا کہ ’جب ہمارے دوستوں نے اسمبلی کے سیشن سے بائیکاٹ کیا تو وزیراعظم شہباز شریف نے ہمیں بلایا اور ہم نے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اوران کے سامنے یہ معاملات رکھے انہوں نے کہا کہ آپ حلف لے لیں‘
سردار اختر مینگل نے بتایا کہ ’ہم نے ان سے کہا تھا کہ ہم معذرت چاہتے ہیں کیوں کہ جب تک ان واقعات پر جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا جاتا اور فائرنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی، میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے حلف لینا مشکل ہوگا۔‘
اختر مینگل نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے یقین دہانی کرائی کہ کابینہ بننے کے بعد جوڈیشنل کمیشن بنایا جائے گا اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی
دوسری جانب ممبر قومی اسمبلی اور بی این پی کے رہنما محمد ہاشم نوتیزئی نے بتایا کہ ان کی جماعت نے وفاقی کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیوں کیا
محمد ہاشم نوتیزئی نے کہا کہ ’حکومت کا اتحادی ہونے کے بعد ہمیں وفاقی حکومت میں دو وزارتیں اور گورنر بلوچستان کا عہدہ دینے کا کہا گیا تھا لیکن ہم نے حالیہ واقعات کے بعد یہ قبول نہیں کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کی پالیسی واضح ہے۔ انہوں نے چاغی کے واقعے کے خلاف اسمبلی میں احتجاج کیا اور واک آؤٹ بھی کیا
’ہمارا مطالبہ ہے کہ نوکنڈی اور چاگئے میں فائرنگ کے واقعات کے حوالے سےجوڈیشنل انکوائری تشکیل دی جائے۔ جو اس بات کا پتہ لگائے کہ کون لوگ فائرنگ میں ملوث ہیں اور لوگوں میں نفرت پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔‘
ہاشم نوتیزئی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے علاقے میں روزگار کے ذرائع سرحد سے کاروبار کرنا ہے اور عوام کو روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری بھی ہے۔‘
ہاشم کہتے ہیں کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ پرتشدد واقعات کا خاتمہ، سرحد سے ٹوکن سسٹم ختم اور لوگوں کو آزادانہ کاروبار کرنے دیا جائے۔
دوسری جانب بی این پی کی کال پر آج بلوچستان بھر میں چاغی میں شہریوں پر فائرنگ کے واقعات کے خلاف مظاہروں کا اعلان کیا گیا تھا
ٹریبونل آف انکوائری کا قیام
اس معاملے میں تازہ ترین پیش رفت کے مطابق حکومت بلوچستان کی جانب سے صوبائی حکومت کے گریڈ 21 کے سینیئر ترین آفیسر اور سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو ارشد مجید پر مشتمل ٹریبونل آف انکوائری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
بلوچستان ٹر یبیونلز آف انکوائری آرڈننس 1968 کے تحت قائم ٹریبونل آف انکوائری 14 اور 18 اپریل کو ضلع چاغی میں رونما ہو نے والے فائرنگ کے واقعات کے تمام پہلوؤں اور محرکات کا جائزہ لے کر واقعات کی ذمہ داری کا تعین کرئے گا
ٹریبونل مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اپنی سفارشات بھی مرتب کرے گا اور 15 دن کے اندر اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرنے کا پابند ہوگا
جے آئی ٹی کی تشکیل
ادھر بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران چاغی کے واقعے کے حوالے سے وزیراعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی ہے جس نے منگل کو چاغی کا دورہ کیا ہے
عبدالقدوس بزنجو نے بتایا کہ ’اگر جے آئی ٹی کی انکوائری سے مطئمن نہیں ہوئے تو ہم عدالتی تحقیقات کروائیں گے۔ واقعہ بہت افسوسناک ہے۔ کوشش ہے کہ اس پرجلد فیصلہ آجائے، زخمیوں کا اگر یہان علاج ممکن نہیں تو انہیں کراچی بھجوا دیا جائے اور ہلاک ہونے والے ڈرائیور کے لواحقین کو بھی معاوضہ دیا جائے گا‘
دوسری جانب چیف سیکریٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا نے منگل کے روز ضلع چاغی کا دورہ کیا
ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ محمد ہاشم غلزئی، آئی جی پولیس محسن حسن بٹ بھی ان کے ہمراہ تھے
اُدھر صوبائی مشیر داخلہ و قبائلی امور میر ضیا اللہ لانگو نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں چاغی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں سے ہنگامی بنیادوں پر رپورٹ طلب کی ہے
صوبائی مشیر داخلہ نے یقین دلایا ہے کہ واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور ہلاک ہونے والے ڈرائیور کے لواحقین کو مکمل انصاف فراہم کیا جائے گا
انہوں نے چاغی کے علاقے میں فائرنگ کے زخمیوں کو ٹراما سینٹر کوئٹہ میں علاج معالجے کی بہترین سہولتوں کی فراہمی کی ہدایت کی اور چاغی کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پرسکون رہتے ہوئے صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں
یاد رہے کہ فائرنگ کے واقعات کے خلاف بڑی تعداد میں شہریوں نے تحصیل چاگئے میں منگل کو دھرنا دیا تھا جسے بعد میں انتظامیہ نے قبائلی رہنما ملک کریم داد محمد حسنی و دیگر سے کامیاب مذاکرات کے بعد ختم کرایا تھا
واقعے کے خلاف قومی اسمبلی میں احتجاج
بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی-ایم) کی پروفیسر ڈاکٹر شہناز بلوچ نے ایوان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کی پارٹی کے ایوان میں صرف چار اراکین ہیں، لیکن یہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی نمائندگی کرتے ہیں
انہوں نے کہا کہ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل اپنی پہلی تقریر میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر معاملات حل نہیں ہوتے تو انہوں نے حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟
بی این پی-ایم کی رکن اسمبلی نے کہا کہ پچھلے دو تین روز میں بلوچ لوگوں کو مارا گیا اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے
انہوں نے کہا کہ جب بھی انہوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے کوئی سرگرمی کی تو بلوچستان میں کوئی حادثہ پیش آیا اور لوگ مارے گئے
انہوں نے چاغی میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر مظاہرین پر فائرنگ کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پیر کی صبح ایک بار پھر بہت سے لوگ مارے گئے جس کی وجہ سے ہم نے واک آؤٹ کیا
انہوں نے کہا کہ مجھے بتائیں ہم اور بی این پی ایم کہاں جائیں؟ کم از کم ہمیں جینے کا حق تو دیں
انہوں نے کہا کہ اگر تمام جماعتیں مل کر کام کریں جیسا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کو ہٹانے کے لیے مل کر کوششیں کیں تو وہ بلوچستان کے مسائل بھی حل کر سکتے ہیں
یاد رہے کہ چاغی میں مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ کے معاملے پر بی این پی ایم کے ارکان نے پیر کو قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا
یہ معاملہ بی این پی ایم کے آغا حسن بلوچ نے اٹھایا اور الزام عائد کیا کہ 16 اپریل کو چاغی میں سکیورٹی فورسز نے نہتے اور مظلوم بلوچوں پر فائرنگ کی جس میں چھ افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے
بعد ازاں آغا حسن بلوچ نے پارٹی ارکان کے واک آؤٹ کی قیادت کی اور پھر وہ باقی کارروائی میں شرکت کے لیے واپس ایوان میں نہیں آئے.