فضائوں میں اڑنے والے پرندوں کی سب انواع کے دماغ، پھر ہر پرندے کا الگ دماغ۔ زمین پر رینگنے والے چھوٹے بڑے کیڑوں اور سانپوں وغیرہ کی بے شمار اقسام، ہر ایک نوع اور قسم کے دماغ، پھر ہر ایک کا منفرد دماغ، چرنے والے گھریلو اور جنگلی چوپایوں کی اقسام اور ان کے بے شمار دماغ۔ جنگل کے درندوں اور آبادی میں آباد درندوں کے دماغ۔ سمندروں میں مچھلیوں کی بے شمار اقسام اور ان کے دماغ۔ آہ! بے چارا سائنس دان… اربوں، کھربوں سال کی زندگی بھی اگر اپنے رب کریم سے مانگے اور اربوں کھربوں سائنس دانوں کو زندگی مل بھی جائے تو کیا کریں گے۔ کہاں تک جائیں گے؟
بہر حال! ہم بات کرتے ہیں انسان کے اپنے دماغ کی۔ جدید سائنس اب تک جو دریافت کر سکی ہے، وہ یہ ہے کہ انسانی دماغ میں کوئی ایک سو بلین یعنی ایک کھرب نیورونز ہیں۔ اسی طرح کائنات میں سپر کمپیوٹرز کے ذریعے کہکشاؤں (گلیکسیوں) کی تعداد کا جو اندازہ لگایا گیا ہے، وہ ایک سو بلین یعنی ایک کھرب گلیکسیاں ہیں
ثابت ہوا کہ دماغ اور خلائی سائنس میں اب تک کی ریسرچ کے مطابق زبردست مشابہت ہے۔ اسی طرح انسانی دماغ میں نیورونز کا مادہ صرف پچیس فیصد ہے جبکہ کائنات میں بھی جو دیکھنے کے قابل (Visible) میٹر ہے، وہ صرف 25 فیصد ہے۔ یہ دوسری مشابہت ہے
تیسری مشابہت یہ ہے کہ کائنات کا پچھتر فیصد حصہ Dark matter ہے، یعنی ہم اسے دیکھنے سے قاصر ہیں، اسی طرح دماغ کا بھی 75 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ اس میں کیا عجائبات ہیں، کچھ پتا نہیں..
چوتھی مشابہت یہ ہے کہ خلائی جہان میں بہت سارے شمسی نظام ملتے ہیں، تو وہ ایک گلیکسی کا حصہ بنتے ہیں۔ بہت ساری گلیکسیاں ایک کلسٹر یا جھرمٹ میں ہوتی ہیں اور پھر یہ جھرمٹ ایک سپر کلسٹر میں منظم ہو کر کردار ادا کرتے ہیں۔ آگے یہ سلسلہ کہاں تک جاتا ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بالکل یہی معاملہ دماغی نیورون کا ہے کہ وہ باہم منسلک یعنی ٰInterconnect ہیں اور جھرمٹوں کی صورت میں Neural Clusters بنتے ہیں اور آگے تک جاتے ہیں… کہاں تک جاتے ہیں، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ ایک لاکھ سپر کمپیوٹرز بھی دماغ کا درست اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔
اسی طرح ہر انسان کے دماغ میں”شعور‘‘ کی خاص نعمت کے بارے میں دماغی سائنس ابھی تک ایک فیصد بھی نہیں سمجھ سکی۔ سمجھنا اس لحاظ سے بھی بہت مشکل ہے کہ کمپیوٹر اپنا ڈیٹا اکلوتے بائنری سسٹم میں اسٹور کرتا ہے، جبکہ انسانی دماغ چھبیس کے قریب الگ الگ نظاموں میں ڈیٹا اسٹور کرتا ہے۔ اسے یادداشت کہا جاتا ہے۔ بوقت ضرورت انسان ان نظاموں سے ڈیٹا لے کر گفتگو شروع کر دیتا ہے۔ قلم ہاتھ میں تھامتا ہے اور لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ الغرض! ریسرچ اور تحقیق کی وسعت کا ایک لامتناہی سمندر ہے۔ زمین پر ایسے سات ارب سے زائد انسانی سمندر موجود ہیں، جو اپنے ساڑھے پانچ، چھ فٹ وجود کے اوپر موجود ہڈی کی کھوپڑی میں اٹھائے چل پھر رہے ہیں اور بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ صدقے‘ قربان جاؤں اس خالق پر! جس نے ہر انسان کو دماغ کی صورت میں اس قدر قیمتی دولت عطا فرمائی ہے کہ اس کی قیمت ساری زمین کی دولتوں سے بھی زیادہ ہے۔
دماغ کے جو نیورل کلسٹرز ہیں، یہ ہماری پیچیدہ ترین سوچوں (Complex Thoughts) کی صورت گری (Shape) کرتے ہیں، ہمارے جذبات (Emotions) کو شکل دیتے ہیں۔ اسی طرح جو گلیکسیاں ہیں، وہ بھی سوت کے باریک ترین دھاگوں (Filaments) کے ایسے چوراہے بناتی ہیں کہ ان میں ایک بیابان اور ویران (Desolate) خلا یعنی Gaps چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ ان کے درمیان Empty Space ہوتی ہے، جی ہاں! کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب سائنسدان کائنات کے ساتھ انسانی دماغ کا موازنہ کرتے ہیں تو:
Resulting image looked strikingly similar!
حیرت انگیز طور پر دونوں کا نتیجہ ہم آہنگ اور یکساں دکھائی دیتا ہے!
قارئین کرام!
دماغی سائنس کی ریسرچ کا یہ تازہ ترین جملہ ملاحظہ فرمانے کے بعد یہ ماننا پڑے گا کہ وہ انتہائی عظیم ترین خالق ہے، جس نے دماغ اور کائنات کو ہم آہنگ اور ہم شکل اس لیے بنایا ہے کہ میرا بندہ جب میری کائنات پر غور و فکر کر کے مجھ تک پہنچنے کی کوشش کرے تو بہت سارے ویرانوں، خالی جگہوں اور بیابانوں کو عبور کرتا ہوا مجھ تک بڑھتا چلا جائے، تو میں اس کو دماغ بھی ایسا عطا کروں کہ جو کائنات کی وسعتوں جیسا ہے۔ وہ بھی شاہکار ہو، لاجواب ہو اور اپنی مثال آپ ہو۔
اللہ اللہ! اسے کہتے ہیں ”رب‘‘ وہ تو ”رب کریم‘‘ ہے۔
اللہ قرآن میں فرماتا ہے ”اے انسان! تیرے اس قدر کریم رب سے تجھے کس چیز نے دھوکے میں مبتلا کر دیا ہے۔‘‘ (الانفطار:6)
یعنی دولت، اقتدار وغیرہ تو چند روز کے لیے آخرت کے مقابلے میں دھوکے کا سامان ہے۔ اے انسان! تو کیسا نادان ہے کہ ان کھلونوں میں کھو کر اپنے پالنہار مولا کو بھول گیا ہے۔
قارئین کرام! غور فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ پر غارِ حرا میں اولین وحی بھیجی تو آغاز اس طرح کیا ”پڑھو، اپنے اس رب کے نام کے ساتھ، جس نے پیدا کیا ‘‘(العلق:1) یعنی اللہ تعالیٰ نے پہلی وحی کا آغاز کیا تو اس میں اپنا ذاتی نام ”اللہ‘‘ استعمال نہیں فرمایا بلکہ صفاتی نام ”رب‘‘ کے لفظ کو استعمال فرمایا۔ آغاز ”اِقْرَأ‘‘ سے کیا۔ اب علم کا تعلق دماغ کے ساتھ ہے.. یعنی وہ ایسا رب ہے، ایسا پالنہار ہے کہ جس نے کائنات کو سمجھنے کے لیے دماغ تخلیق کیا ہے اور ایسا تخلیق کیا، جو کائنات کو سمجھ سکے۔ ربوبیت کا یہی تقاضا تھا۔
اگلی اور دوسری آیت ملاحظہ ہو۔ فرمایا: ”انسان کو جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا‘‘ (العلق:2)
یاد رہے! عَلَقْ کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ یہ ایک لمبوتری شکل میں خون کا ٹکڑا ہے، دوسرا اس کا معنی جونک ہے۔ جونک بھی خون کا ایک لمبوترا ٹکڑا ہوتا ہے۔ جدید ترین الٹرا سائونڈ نے اس کی تصویر دکھا دی ہے۔ بھورے رنگ کی جونک ہے، جو رحمِ مادر کی دیوار کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ فرانس کے ڈاکٹر موریس بکائی نے انہی مناظر کو سلائیڈ پر چلایا اور سائنس دانوں، ڈاکٹروں اور دانشوروں کے بھرے مجمعے میں یہ کہتے ہوئے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا کہ ”مجھے بتاؤ، ساڑھے چودہ سو سال پہلے کون سی لیبارٹری تھی، جس میں حضرت محمد کریمﷺ نے انسانی پیدائش کی تمام تر صورتوں کو اکمل ترین انداز سے بیان فرما دیا۔ ماننا پڑے گا۔ حضورﷺ پر آنے والے جس قرآن نے یہ بتایا، وہ قرآن بھی اللہ کا سچا کلام ہے… لہٰذا میں مسلمان بننے کا اعلان کر رہا ہوں‘‘ اور پھر اللہ کی توحید اور حضرت محمد کریمﷺ کی رسالت کا اعلان کر دیا
یہ تھا قرآن کی نزولی ترتیب کا آغاز… دوسرا پہلو قرآن کی اس ترتیب کا ہے جو ”لوحِ محفوظ‘‘ کی ترتیب ہے اور اسی ترتیب سے آج ہمارے ہاتھوں میں مصحف ہے۔ اس میں آغاز ”اللہ‘‘ کے ذاتی نام سے ہے اور پھر دوسری آیت میں بھی ”الحمد للہ‘‘ کہا گیا ہے کہ اے انسانو! اس اللہ کا شکر کرو کہ جو ”رب العالمین‘‘ ہے۔ یعنی کائنات اور اس میں موجود ہر ہر مخلوق کی ضرورتوں کو وہی پورا کر رہا ہے۔ اس نے انسان کو تکریم عطا فرمائی ہے تو اس کو دماغ دیا ہے کہ وہ تمام جہانوں میں اپنے خالق کی ربوبیت کے مظاہر دیکھے۔ اس کی ماں کہ جس کے شکم میں وہ پرورش پا رہا ہے۔ اتنا شاندار گھروندا بنانے والا ہے۔ جب انسان زمین پر آیا تو ماں کے سینے میں محبت کا موجیں مارتا سمندر اسی نے موجزن فرمایا۔۔۔۔۔ اسی کے سینے پر اس کی خوراک کا بندوبست فرمایا یعنی ایک جونک کہ جسے دیکھ کر کراہت ہوتی ہے، وہ چند سینٹی میٹر کی بھورے رنگ کی جونک کہ جسے کوئی بچہ ہاتھ کی ہتھیلی پر دیکھے تو فوراً اسے پھینکتے اور روتے ہوئے بھاگ پڑے اور ماں کے سینے سے جا چمٹے۔ اسے کیا خبر کہ وہ اتنی خوبصورت شکل والا ننھا منھا پپّو، وہ گلاب کے پھول جیسا حسین، وہ سفید رنگ کی کھلتی ہوئی کلی، وہ پیاری گڑیا، اولین شکل میں یہی جونک ہی تو تھی۔ بڑا ہو کر انسان بھول گیا۔ ”ہم نے تو تجھے اتنا عظیم دماغ دیا۔ اسے کائنات کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ پھر بھی مجھ سے دور ہے؟‘‘
آخر پر بے شمار درود و سلام رب کریم کے حبیب اور خلیلﷺ پر کہ جن کے ذریعے ہمیں قرآن ملا، اسلام ملا اور اپنی پہچان ملی۔
دعا ہے کہ سب کچھ پہچان کر موت کے بعد حشر کے دن حضرت محمد کریمﷺ کے مبارک ہاتھ سے جام کوثر مل جائے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا