پرندوں کا یکساں قومی نصاب

نذر حافی

آج پھر صبح ہونے کی دیر تھی۔ دیوار پر پھر شور تھا۔ پرندے چہک رہے تھے۔ چمگادڑیں رات کی جدائی کا نوحہ کر رہی تھیں۔ کبوتروں نے غول در غول غل مچا رکھا تھا۔ دیوار کے نیچے ایک تاریک غار تھی۔ پرندوں کے پر اس غار میں گر رہے تھے۔ منظر بہت دلخراش تھا۔ پاتال میں سویا ہوا سانپ ابھی ابھی نیند سے بیدار ہوا تھا۔ ناگ غصے سے پھنکارا۔ زہریلی پھنکار سن کر دن ڈھل گیا، اور رات ہو گئی

اگلے روز پھر وہی سورج تھا۔ اسی دیوار پر چمگادڑوں کے بین اور پرندوں کی چہک تھی۔ پھر پاتال سے ناگ کی پھنکار کا انتظار۔ نصف النہار کے سمے پرندوں میں اختلاف ہوا۔ شاید پرندوں کے تعاقب میں کچھ سانپ بھی بھیس بدل کر دیوار کے ساتھ چپک گئے تھے

سانپوں کے قالب میں بھی کتنی نرمی اور لچک ہوتی ہے! سنا ہے کہ سو سال کے بعد یہ ایک جن یا دیو میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایک نوجوان پرندے نے پرندوں کو اپنی دیوار میں چھپے سانپوں سے خبردار کیا۔ شام کے قریب بھوک سے سانپوں کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اگلے روز پھر سورج اپنے وقت پر نکلا۔ اگلے دن پھر پرندے اسی دیوار پر غل مچا رہے تھے۔ انہیں اپنی ہی دیوار میں چھپے سانپوں سے خوف تھا۔ سب کی نظریں سیانے چمگادڑوں پر لگی ہوئی تھیں۔

چمگادڑوں نے اس موقع کو غنیمت جانا۔ چمگادڑوں کی خفیہ بیٹھکوں میں رات کے وقت پرندوں کے دائرے بننے لگے۔ چھوٹے چمگادڑ، موٹے چمگادڑ، زرد چمگادڑ، نیلے چمگادڑ، شہری چمگادڑ، دیہاتی چمگادڑ اور طرح طرح کے چمگادڑ ان بیٹھکوں میں بھاشن دینے لگے۔ روزانہ مختلف انواع و اقسام کے پرندے اپنی اپنی پسند کے کسی موٹے تازے چمگادڑ کے گرد آلتی پالتی مارکر بیٹھ جاتے۔ پھر چمگادڑوں کی دانش کی افیون کا دور چلنے لگا۔ اس افیون کے باعث بیٹھکوں کی رونق اور بھی بڑھ گئی۔ اب کچھ زنانہ چمگادڑیں جوگیوں کی مانند اپنے منتر اور کچھ سنیاسیوں کی طرح اپنے ٹوٹکے لے کر سارا دن بیٹھکوں میں بیٹھی رہتیں۔ یونہی ان کے دائرے دوسرے پرندوں تک بھی بڑھتے اور پھلتے پھولتے گئے۔ اب ہر پرندہ ان چمگادڑوں کی کہکشاں کا ستارہ تھا۔ اگر یہ پرندے اڑنے لگتے تو یہ کہکشاں ٹوٹنے لگتی

لہٰذا جب بھی سورج چمکتا اور کوئی پرندہ رزق کمانے کے لئے اڑنا چاہتا تو ”جوگی چمگادڑ“ اسے سمجھاتی کہ بھوک تو پیٹ میں محسوس ہوتی ہے، لہٰذا اس کا ذکر نہ کرو اور اسے پیٹ میں ہی رہنے دو ۔ پیٹ کے لئے اڑنا پرندوں کی شان کے خلاف ہے

کوئی کہتا کہ مجھے پیاس لگی ہے تو ”سنیاسی چمگادڑ“ اسے جواب دیتی کہ پیاس تو سینے کی جلن کا نام ہے، یہ پانی سے کب بجھتی ہے۔ یہیں پر ہی کسی کمزور پرندے کے سینے میں اپنی چونچ اتار کر یہ پیاس بجھا لو

کوئی کہتا کہ میرا تو آشیانہ بھی نہیں، اسے کہا جاتا کہ آشیانے کا نام نہ لینا، ورنہ انسانوں کی طرح روٹی، کپڑے اور مکان کے دام میں پھنس جاؤ گے۔ کوئی کہتا کہ جنگل کے درندوں نے میرا حق چھین لیا ہے، تو اسے جواب ملتا کہ بھلا اس دنیائے فانی میں آج تک کسی کو حق ملا ہے؟ لہٰذا اپنی چونچ نہ کھولو اور خاموشی سے کام لو۔ کوئی کہتا کہ میری جان کو خطرہ ہے تو اسے جواب ملتا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں، خطرے کے وقت ہمارے کبوتر میاں کی مانند اپنی آنکھیں بند کر لیا کرو۔ کوئی کہتا کہ آگ میرے نشیمن تک پہنچ چکی ہے تو اسے جواب ملتا کہ نشیمن سے دل نہیں لگایا کرتے، جل جانے دو ، قسمت میں ہوا تو پھر نیا بن جائے گا۔

کوئی کہتا کہ سانپ میرے بچوں کو تاک رہے ہیں تو اسے جواب ملتا کہ تم بھی تو ہمارے بچے ہو۔ ہمارا ادب کرو اور بچوں کے درمیان تقسیم بندی نہ کرو۔ ہمارے اور تمہارے بچے جدا جدا نہیں ہیں، تمہارے بچے بھی ہمارے بچے ہیں، لہٰذا ہمارے بچے تمہارے بچوں کے نسل در نسل قومی والدین ہیں۔ اب یکساں قومی نصاب کی باتیں چھوڑو، یکساں قومی والدین کی بات کرو۔ بس اپنے بچوں کے نصاب میں ہمارا تقدس اور ہمارا ادب و احترام شامل رکھنا۔ یہی تمہارا یکساں قومی نصاب ہے

باقی سانپ کو دیکھ کر سانپ کے سامنے دودھ کا پیالہ رکھ دیا کرو۔ اس کا پیٹ بھر جائے گا تو پھر تمہیں کاٹے گا بھی نہیں۔ کوئی پوچھتا کہ اب اس بھوک کا کیا علاج کروں؟ اسے بتایا جاتا کہ جسے سب سے زیادہ بھوک ستا رہی ہو اسے دبوچ کر کھا جایا کرو۔ اس طرح ہماری اس خوشحال دنیا سے بھوک بھی اور بھوکے بھی ختم ہو جائیں گے۔ کوئی کہتا کہ پرندوں کی اٹھان اور پرواز کی سطح مختلف ہے، لہٰذا پرندوں کی دنیا میں مساوات کا نسخہ کیا ہے؟ اسے جواب دیا جاتا کہ جو بھی پرواز کی کوشش کرے، اس کے پر کاٹ دو

دیوار کے اوپر، یہ نسخے اور ٹوٹکے نسل در نسل پرندے سنتے رہے۔ جو بات نسل در نسل سنی جائے، وہی تو یکساں قومی نصاب اور مادر زاد عقیدہ بن جاتی ہے۔ اب اس یکساں قومی نصاب کے پرندے باقی دنیا کے پرندوں سے مختلف ہیں۔ باقی ساری دنیا کے پرندوں کی شناخت پرواز سے ہوتی ہے لیکن ہماری دیوار کے گرد دائروں میں رہنے والے پرندوں میں سے اگر کوئی پرواز کی کوشش کرے تو اس کا سر منڈوا دیا جاتا ہے اور اس کے پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔ ان بے چاروں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ انہیں اس حال تک پہنچانے میں زنانہ اور اندھی چمگادڑوں کا کتنا عمل دخل ہے۔ پرندوں کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن جو پرندے ایک ہی دائرے میں رہتے ہیں، ان کی تعداد اور سوچ بہت محدود ہوتی ہے۔
(ہم سب کے شکریے کے ساتھ)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close