اسلام آباد – گرمیاں آتے ہی بجلی کے بلوں سے پریشان افراد سولر پاور سسٹم گھروں میں لگوانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ تاہم اگر ایک عام شہری سولر سسٹم سے پیدا ہونے والی بجلی ڈیسکوز یعنی بجلی کی سپلائی کمپنی کو فروخت بھی کر سکتے ہیں ، جس کے لیے گھر میں گرین میٹر لگوانا ضروری ہے
واضح رہے کہ گرین میٹر دو طرفہ میٹر ہوتا ہے، جس میں سسٹم سے گھر پر آنے والی اور گھر سے سسٹم میں واپس جانے والی بجلی کے یونٹس ماپنے کا نظام موجود ہوتا ہے
اسلام آباد کے علاقے بہارہ کہو کے رہائشی محمد بلال نے گھر پر دس کلو واٹ کا سولر سسٹم لگانے کے لیے متعلقہ کمپنی سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے لیے انہیں گیارہ لاکھ روپے ادا کرنا ہوں گے، جبکہ گرین میٹر لگوانے کے لیے علیحدہ سے پچاس ہزار روپے بھی دینا ہوں گے تاکہ آئیسکو سے جلدی میٹر لگوایا جا سکے
محمد بلال کہتے ہیں”میں نے بڑی مشکل سے گیارہ لاکھ کا انتظام کیا تھا تاکہ میرے نئے تعمیر ہونے والے گھر میں بجلی کے بل سے نجات حاصل ہو سکے، تاہم میں اضافی پچاس ہزار روپے میٹر کے لیے نہیں دینا چاہتا“
محمد بلال نے سولر پاور سسٹم لگانے والی کمپنی سے فائل لے کر خود آئیسکو سے رابطہ کیا تاکہ میٹر پر اضافی رقم بچا سکیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک طویل عمل ہے، جس میں پہلے کمپنی سولر سسٹم انسٹال کرنے کے بعد اس کے حوالے سے تمام تکنیکی معلومات پر مبنی فائل تیار کرتی ہے، پھر اسے متعلقہ ایس ڈی او کے دفتر لے جانا ہوتا ہے۔
متعلقہ ایس ڈی او آفس تمام دستاویزات کا جائزہ لے کر پھر ایک لیٹر جاری کرتا ہے، جو آئیسکو کے ایچ ایٹ میں واقع پی اینڈ آئی سیکشن میں لے جا کر وہاں سے انسپیکشن سرٹیفیکیٹ حاصل کیا جاتا ہے۔
انسپیکشن آفس کے اہلکار موقع پر جا کر سولر سسٹم کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کے حفاظتی نظام سے مطمئن ہو کر سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں، جسے ایس ڈی او آفس جمع کروانا پڑتا ہے
ایس ڈی او آفس اس کے بعد گرین میٹر کے لیے ڈیمانڈ نوٹس جاری کرتا ہے، جس کی فیس جمع کروا کر رسید دوبارہ ایس ڈی او آفس میں جمع کروائی جاتی ہے۔ اس کے بعد گرین میٹر کا انتظار شروع ہو جاتا ہے، جس میں کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں
گرین میٹر پر سولر کمپنی پچاس ہزار کیوں چارج کرتی ہے؟
آئیسکو کے ترجمان راجا عاصم کے مطابق، آئیسکو گرین میٹر لگوانے کے صرف ساڑھے آٹھ ہزار روپے لیتی ہے، جو کہ بینک میں جمع کروائے جاتے ہیں، اس سے زیادہ کی رقم سولر سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں ناجائز طور پر شہریوں سے لے رہی ہیں
ان کا کہنا ہے ”گرین میٹر لگوا کر دینا سولر کمپنیوں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور صارفین اس سلسلے میں اضافی ادائیگی نہ کریں۔“
تاہم متعدد صارفین کا کہنا ہے کہ اگر وہ پچاس ہزار یا لگ بھگ اتنی ادائیگی نہ کریں تو سولر کمپنیاں جلدی میٹر لگوانے کی ذمہ داری نہیں لیتیں اور پھر اگر وہ خود آئیسکو سے رابطہ کریں تو اہلکار طرح طرح کی مشکلات اور دستاویزات کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس طرح بہت سی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے
ایک سولر کمپنی کے مالک نےنام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گرین میٹر لگوانے پر ان کی کمپنی کے عملے کو آئیسکو اسٹاف کی مدد لینا پڑتی ہے اور مختلف دفاتر میں کئی چکر بھی لگانے پڑتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی عملے کا پراسس جلدی کرنے کے لیے تعاون حاصل کرنے پر بھی ’خرچہ‘ آتا ہے
’اگر خرچہ نہ کیا جائے تو سو طرح کے روڑے اٹکائے جاتے ہیں اور گرین میٹر کی شرائط اتنی سخت کر دی جاتی ہیں کہ اس کا حصول مہینوں بعد بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‘
اس سوال پر کہ کئی دیگر کمپنیاں گرین میٹر کی مد میں صرف سرکاری فیس ہی چارج کرتی ہیں جبکہ ان کی کمپنی پچاس ہزار روپے کیوں وصول کرتی ہے، تو ان کا کہنا تھا دیگر کمپنیاں یہی رقم سروس چارجز کے نام پر وصول کر لیتی ہیں مگر ان کی کمپنی تمام اخراجات اسی مد میں لکھتی ہے، جس پر خرچ ہوتے ہیں
پانچ ہزار سے زائد گرین میٹر لگا چکے ہیں: آئیسکو
ترجمان آئیسکو راجا عاصم کا کہنا تھا کہ ان کا عملہ اگر کسی سے رقم کا تقاضا کرے تو اس کی شکایت متعلقہ سب ڈویژن یا آئیسکو ہیڈکوارٹر میں کی جائے، ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی
ان کا کہنا تھا کہ آئیسکو ہیڈکوارٹرز میں نیٹ میٹرنگ کا شعبہ موجود ہے وہ متعلقہ شکایت سننے کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔ صارفین کو چاہیے کہ وہ براہ راست نیٹ میٹرنگ کےلیے آئیسکو کے چکر لگانے کے بجائے متعلقہ کمپنی کی خدمات ہی حاصل کریں تاہم اس مد میں اضافی اخراجات ادا نہ کریں
ترجمان نے کہا کہ ایسا تاثر غلط ہے کہ آئیسکو جان بوجھ کر میٹر لگانے میں تاخیر کرتا ہے بلکہ جس ترتیب سے درخواستیں آتی ہیں، اسی حساب سے نبٹا جاتا ہے
اس حوالے سے کچھ شہریوں نے بتایا کہ ایس ڈی او جی سکس نے ایک طریقہ کار متعارف کروایا ہے، جس کے تحت ہر فائل پر نمبر لگا دیا جاتا ہے اور اسی طرح نمبر آنے پر درخواست کو پراسس کیا جاتا ہے
ترجمان آئیسکو نے بتایا کہ کمپنی کے اس وقت تین لاکھ کے قریب صارفین ہیں تاہم مارچ کے شروع تک 5 ہزار 365 درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن پر 5 ہزار 200 کے قریب گرین میٹر لگائے جا چکے ہیں۔
حال ہی میں اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر بھی آئیسکو نے ایک آگاہی مہم شروع کی ہے جس میں صارفین کو سولر سسٹم کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے
سولر پاور سسٹم سے واپڈا کو بجلی بیچنا کتنا آسان ہے؟
سولر پاور سسٹم گھروں پر لگانے کے لیے کمپنیاں صارفین کو دو آپشن دیتی ہیں۔ ایک آف گرڈ سسٹم ہے، جس کے تحت گھر سے پیدا ہونے والی بجلی گھر پر ہی خرچ کی جاتی ہے اور رات کے اوقات کے لیے بیٹریز میں سٹور کر لی جاتی ہے۔ مگر اس میں بیٹریوں کی خریداری کا اضافی خرچ ہے جو ہر چند سال بعد بدلوانی پڑتی ہیں
اس لیے زیادہ تر لوگ آن گرڈ سسٹم کا انتخاب کرتے ہیں، جس کے تحت صارف اپنی بجلی ڈیسکوز یعنی بجلی کی سپلائی کمپنی کو ایکسپورٹ کرتا ہے اور گرڈ سے رات کے لیے بجلی امپورٹ کرتا ہے
اس آن گرڈ سسٹم میں دن کے وقت پیدا ہونے والی بجلی گھر کی ضرورت پوری کرنے کے بعد گرڈ میں چلی جاتی ہے اور اگر صارف کی پیدا کردہ بجلی کے یونٹس امپورٹ کردہ بجلی سے زیادہ ہوں تو آئیسکو اسے اس بجلی کے پیسے دیتا ہے
صارف سے بجلی تو تقریباً دس روپے فی یونٹ کے حساب سے خریدی جاتی ہے لیکن صارف کو رات کو پیک آورز کے وقت فراہم کی جانے والی بجلی کی قیمت تقریباً 25 روپے فی یونٹ دی جاتی ہے۔ اس طرح گویا صارف کی تقریباً اڑھائی یونٹ کے بدلے میں پیک آورز کا ایک یونٹ اسے ملتا ہے تاہم باقی اوقات میں بجلی کا امپورٹ کیا ہوا ایک یونٹ ایکسپورٹ کے ایک یونٹ کے برابر ہی ہوتا ہے
تھیوری میں لوگ سمجھتے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ بجلی بنا کر سپلائی کمپنی کو بیچ کر پیسے بھی کمائے جا سکتے ہیں لیکن متعدد صارفین کا کہنا تھا کہ کمپنیاں بجلی کی قیمت اتنی کم دیتی ہیں کہ اگر ان کا بل بجلی کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کے بعد زیرو ہو جائے تو یہی غنیمت ہے
عام طور پر صارفین سے سولر کمپنی انسٹالیشن کے وقت ان کا بل دیکھ کر اوسط بجلی کے یونٹ کا استعمال بتا دیتی ہے اور زیادہ تر صارفین اتنا بڑا سولر سسٹم ہی لگاتے ہیں کہ ان کی ضرورت پوری ہو جائے اور بجلی کا ماہانہ بل زیرو ہوجائے
تاہم آئیسکو کے ترجمان کے بقول، ان کے پاس ایسے کئی صارفین ہیں، جن کو اضافی بجلی کے عوض تین ماہ بعد چیک کی شکل میں ادائیگی کی جاتی ہے۔ ہر صارف جو استعمال شدہ بجلی سے زیادہ بجلی گھر میں پیدا کرتا ہو وہ اپنا چیک متعلقہ ایس ڈی او سے حاصل کر سکتا ہے.
یہ بھی پڑھیں: مجھے کتنے سولر پینلز کی ضرورت ہے؟