بنوں – ”ہمارا قصور یہ تھا کہ ہم پشتون تھے، پشتون کے گھر میں پیدائش ہوئی تھی، یا شاید ہمارا قصور یہ تھا کہ پاکستان کی بقا میں ہمارے بڑوں کا خون شامل ہے۔ ہمارا قصور یہ تھا کہ تعلق قبائلی اضلاع سے تھا، یا ہمارا قصور یہ تھا کہ ہم نے ملک کی خاطر نقل مکانی کی تھی؟“
یہ کہنا ہے بنوں میں ایک دھرنے کے شرکاء کا، جہاں ’افغانستان میں مبینہ پاکستانی کارروائی کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی ہلاکتوں‘ کے واقعے کے خلاف مدا خیل قبیلے کے رہائشیوں کا دھرنا نیشنل پریس کلب کے سامنے کئی روز سے جاری ہے
یہ دھرنا نماز تراویح کے بعد شروع ہو جاتا ہے اور بغیر کسی وقفے کے سحری تک جاری رہتا ہے۔ آج اس کا پانچواں دن ہے
دھرنے میں وفاقی حکومت کی اتحادی پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور احمد پشتین، رکن صوبائی اسمبلی میر کلام وزیر، چیئرمین میران شاہ مولانا نیک زمان، آئی ڈی پیز کمیٹی کے سربراہ ملک رحمت اللہ وزیر، ڈاکٹر گل عالم، حاجی صمد خان، گیلامان پشتین اور دیگر شریک ہیں
دھرنے کے منتظمین کا، کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جائیں گے، پرامن دھرنا جاری رہے گا
دوسری جانب مذاکرات کے لیے مظاہرین کی پچاس رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جو ضرورت کے وقت وفد کی شکل میں حکام کے ساتھ مذاکرات کرے گی
دھرنے کے مقصد کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں پی ٹی ایم سربراہ منظور احمد پشتین اور ڈاکٹر گل عالم وزیر نے بتایا کہ شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز پر افغانستان کے صوبہ خوست میں طیاروں سے مبینہ طور پر حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں خواتین اور بچوں سمیت سینتالیس سے زائد افراد نشانہ بنے اور متعدد زخمی بھی ہوئے
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعے کے خلاف احتجاج میں ہم دھرنا شروع کیا کیونکہ یہ ہمارے ساتھ پہلا واقعہ نہیں بلکہ مختلف واقعات میں مختلف طریقوں سے لوگ ٹارگٹ کیے جاتے ہیں۔ ’ہم کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟‘
دھرنے میں شامل افراد افغانستان میں عارضی طور پر مقیم شمالی وزیرستان کے متاثرین کی فوری واپسی، قیامِ امن، افغانستان میں جان سے جانے والے بچوں کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی سمیت پر امن اور خوشحال وزیرستان کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں
آئی ڈی پیز کمیٹی کے سربراہ ملک رحمت اللہ وزیر نے بتایا کہ ’ملک پر جب بھی کٹھن حالات آئے ہیں تو قبائل نے بلامعاوضہ ملکی سلامتی کے لیے لبیک کہا ہے۔ آج شمالی وزیرستان کے عوام خود امن کے لیے چیخ چیخ کر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔‘
انہوں نے گذشتہ دنوں افغانستان میں شمالی وزیرستان کے متاثرین کے ساتھ پیش آنے والے افسوس ناک واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’اگر ان متاثرین کی بروقت اپنے علاقوں کو منتقلی ممکن بنائی گئی ہوتی تو آج اس قدر جانی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔‘
ملک رحمت اللہ نے کہا کہ ’آج پانچ روز پورے ہوگئے ہیں، مگر حکومت نے ہماری آہ تک سننے کی زحمت نہیں کی۔ ہم بھی اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دھرنے کی سرخیل پشتون تحفظ موومنٹ خود وفاقی حکومت کا حصہ ہے اور اس کے پاس دو وفاقی وزارتیں بھی ہیں
مداخیل قبیلے کے مشران نے پشتونوں کے دیگر قبیلوں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ ان کا ساتھ دیں کیونکہ ’یہ وقت ہر کسی پر آسکتا ہے۔‘
16 اپریل کو افغان حکام نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغان صوبے خوست اور کنڑ میں فضائی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے
بعدازاں افغان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کی گئی ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر منصور خان کو طلب کرکے افغانستان میں مبینہ طور پر پاکستانی فضائیہ کے حملے کے بارے میں وضاحت طلب کی گئی
اگرچہ پاکستان نے اب تک افغان الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے تاہم اسلام آباد کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کی جانب سے پاکستان پر حملوں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
وزیر اعظم کا دورہ شمالی وزیرستان
وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز شمالی وزیرستان کے دورے کے موقع پر عسکری قیادت کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ انہیں موجودہ صورت حال پر بریفنگ دی گئی۔ اس کے بعد ٹوچی جرگہ ہال میں اتمانزئی کے مشران کے ساتھ بڑا جرگہ منعقد ہوا
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے شمالی وزیرستان کے لیے ایک یونیورسٹی، کیڈٹ کالج، موبائل ہسپتال اور دانش سکول کا اعلان کیا۔ انہوں نے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اتمانزئی مشران پر مشتمل ایک جرگہ اسلام آباد بلایا جائے گا جہاں باقی مسائل پر تفصیلی گفتگو کریں گے
اس موقع پر وفاقی وزرا رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف، مفتی عبدالشکور، مشیر امیر مقام، ایم این اے محسن داوڑ، مسلم لیگ ن کے صوبائی رہنما ملک لیاقت علی وزیر و دیگر موجود تھے.