کمشنر کراچی کی قیمتوں کی جانچ پڑتال کی مہم ناکام ،سرکاری نرخوں کی مسلسل خلاف ورزی جاری

ویب ڈیسک

کراچی: پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے 18 ٹاؤنز کی ہزاروں مارکیٹوں میں کمشنر کراچی کے دفتر کے عہدیداران کی جانب سے لاکھوں خوردہ فروشوں پر بھاری جرمانے عائد کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ منافع خوری اچھی طرح قابو کی جارہی ہے۔

تاہم حقیقت میں کمشنر کراچی کی قیمتوں کی جانچ کی مہم صارفین کے مفادات کے تحفظ کے مشن سے زیادہ ایک معمول کے سالانہ سرکاری کام کی طرح نظر آتی ہے۔

کمشنر کراچی کی قیمتوں کی جانچ پڑتال کی مہم ناکام ہوگئی، رمضان المبارک کے پہلے 20 روز میں عوام کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا گیا، صارفین مسلسل اضافی قیمتیں ادا کر رہے ہیں جبکہ عید الفطر کے قریبی ایام میں سبزی، پھلوں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی مارکیٹ کی قیمتوں اور سرکاری نرخوں بڑا خلا نظر آرہا ہے

 

دکانوں پر سرکاری قیمتوں کی فہرست کی موجودگی یقینی بنانے کے بجائے کمشنر کراچی نے پھلوں اور سبزیوں کی سرکاری قیمتوں کی فہرست سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دکھانے پر زیادہ توجہ دی ہے

کمشنر آفس کی آفیشل ویب سائٹ پر جاری کیے گئے نرخ عام طور پر مختلف مسائل کی وجہ سے آف لائن رہتے ہیں۔

پرچون کی دکانوں اور دکانداروں کے پاس پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں کی فہرستوں کی عدم موجودگی نے صارفین کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے، اس طرح ان کے لیے کمشنر کراچی کے نمبر پر خوردہ فروشوں کی جانب سے اضافی قیمتوں کی شکایت درج کروانا ایک مشکل معاملہ ہے۔

صارفین اور اکثر پھل اور سبزی بیچنے والے اسمارٹ فون استعمال نہیں کرتے ایسی حالت میں خریدار اور نہ بیچنے والے منافع خوری کے بارے میں بحث کر سکتے ہیں۔

پھلوں اور سبزیوں کی سرکاری قیمتوں کی فہرستوں کی عدم دستیابی نے مارکیٹ کے کھلاڑیوں کو اپنی مرضی کے مطابق قیمتیں وصول کرنے کا کھلا موقع فراہم کیا ہے۔

اگر حکام کی طرف سے ان پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، تو وہ صارفین سے اضافی رقم وصول کر کے آسانی سے جرمانہ ادا کردیتے ہیں۔

اشیا ضروریہ کی قیمتوں کی فہرست کے معاملے میں صارفین بھی مطمئن نہیں ہیں کیونکہ زیادہ تر خوردہ فروشوں نے فہرست ظاہر نہیں کی ہے، اس طرح صارفین کے ساتھ جھگڑا ختم ہو گیا ہے، یہاں تک کہ کچھ دکانوں پر آویزاں قیمتوں کی فہرستوں میں بھی کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

ایک عارضی مارکیٹ سروے سے انکشاف ہوا کہ سرکاری نرخوں کے مطابق اچھے اور معمولی کوالٹی کے خربوزے کی قیمت بالترتیب 73 اور 53 روپے ہے، لیکن مارکیٹ میں خربوزہ بالترتیب 100 اور 80 روپے فی کلو فروخت کیا جارہا ہے۔

دونوں معیار کے کیلے 100 اور 150 روپے درجن میں فروخت کیے جارہے ہیں، جبکہ اس کی سرکاری قیمت 63 اور 103 روپے فی درجن ہے، اچھے معیار کا تربوز 63 روپے سرکاری نرخ کے برخلاف 80 روپے فی کلو فروخت کیا جارہا ہے۔

کراچی ہول سیل فریش فروٹ ایسوسی ایشن (کے ڈبلیو ایف ایف اے) کے صدر سید عبدالقدیم آغا کا کہنا تھا کہ ’کمشنر کراچی کی جانب سے قیمتیں مقرر کرنے کے عمل میں ہماری ایسوسی ایشن سے مشاورت نہیں کی گئی

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل سابق کمشنر رمضان المبارک سے قبل قیمتیں مقرر کرنے سے پہلے کے ڈبلیو ایف ایف اے سے ضرور مشاورت کرتے تھے۔

اشیا خور ونوش میں بیسن کے سرکاری نرخ 159 روپے فی کلو ہیں، لیکن ریٹیلرز 180 سے 200 فی کلو فروخت کر رہے ہیں، کالے چنوں کی قیمت 150 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے، تاہم مارکیٹ میں اس کی قیمت فروخت 160 سے 180 روپے کلو ہے۔

صارفین کو گھی اور خوردنی تیل پر بھی کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا جارہا، جس کی قیمت مارکیٹ میں 500 روپے فی کلو ہے جبکہ حکومت کی جانب سے 25 مارچ کو خوردنی تیل کی درآمدات پر ٹیکس میں 10 فیصد کا ریلیف فراہم کیاگیا تھا۔

زندہ پولٹری پرندوں اور ان کے گوشت کے سرکاری نرخ بالترتیب 235 روپے اور 365 روپے فی کلو مقرر کیے گئے ہیں، تاہم صارفین زندہ مرغی کے لیے 300-350 روپے فی کلو اور ان کے گوشت کے لیے 500-600 روپے فی کلو ادا کر رہے ہیں

حیرت کی بات یہ ہے کہ شاید ہی کوئی ایسی دکان ہو جو کنٹرول ریٹ ایک ہزار 220 روپے پر بکرے کا گوشت فروخت کررہی ہو خوردہ فروشوں کی جانب سے بکرے کا گوشت ایک ہزار 400 روپے سے ایک ہزار800 روپے فی کلو فروخت کیا جارہا ہے۔

ہڈیوں کے ساتھ اور بغیر ہڈی کے گوشت کی قیمت 660 روپے اور 825 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے تاہم قصاب 850 سے 900 روپے اور 750 روپے فی کلو وصول کر رہے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close