سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال میں اسرائیل کو طویل عرصے تک فلسطینیوں پر برتری حاصل رہی ہے، لیکن اب فلسطینی نوجوانوں نے بھی اس ہتھیار کا ہوشیاری سے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے
عرب نیوز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ”اشتعال انگیز مواد“ پوسٹ کرنے کی شکایت پر فیسبک، واٹس ایپ، ٹوئٹر اور انسٹاگرام کے سینکڑوں فلسطینی اکاؤنٹس منجمد کیے جا چکے ہیں. پاکستان کے معروف مذہبی اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد کا یوٹیوب چینل بھی یہودی لابی کے دباؤ پر بند کیا گیا
لیکن فلسطینی ان پابندیوں کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی بڑی تعداد اب شارٹ وڈیوز کی مقبول ترین چینی اپلیکیشن ٹِک ٹاک پر منتقل ہو گئی ہے، جو اسرائیل کے غصے میں اضافے کا باعث بن رہا ہے
اطلاعات ہیں کہ ٹک ٹاک نے فلسطینیوں کے متعدد اکاؤنٹس کی بند کرنے کی اسرائیلی درخواستوں کو مسترد کیا ہے جن پر اسرائیل نے ’اشتعال انگیز مواد‘ پوسٹ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ حالانکہ فیسبک انتظامیہ ان الزامات کی بنیاد پر بہت سارے اکاؤنٹس کو بند کر چکی ہے
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم میں پیدا ہونے والی صورتحال میں ٹک ٹاک ایپ ایک مؤثر ہتھیار کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ اس اپلیکشن پر ’فری فلسطین‘ مسلسل ٹرینڈ کرتا رہا ہے
فلسطینیوں کے ہاتھوں میں موجود موبائل کیمرے دنیا کو واقعات کی تفصیل اور تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کا مؤثر ذریعہ بن چکے ہیں
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی اور فلسطینی شہریوں نے بتایا ہے کہ ٹک ٹاک نے مئی 2021ع میں یروشلم کے قریب واقع شیخ جراح میں پیش آنے والے واقعات کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا، جن کے بعد گیارہ دن تک جنگ جاری رہی
نوجوان فلسطینیوں کی جانب سے ٹک ٹاک پر چلائی گئی اسرائیلی مظالم کی وڈیوز نے دوسروں کو بھی اسرائیلی فوجیوں سے جھڑپوں میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا
عالمی سوشل میڈیا ذرائع کے مطابق جنوری 2020 میں فلسطین میں 30 لاکھ 37 ہزار انٹرنیٹ صارفین تھے جو کہ فلسطین کی مجموعی آبادی کا 70 فیصد بنتے ہیں.