آخر وہی ہو جس کا مطالبہ امریکا چار ماہ سے کر رہا تھا۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں قائم امن کو امریکا اور بھارت دونوں ہی پسند نہیں کرتے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے افغانستان سے پاکستانی سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے کئی بار افغانستان کی حکومت سے سرحدی علاقہ محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان میں کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان، افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سلامتی افغانوں پر بمباری کر کے ہی ممکن ہے۔ برسوں سے یہی سب کچھ ایران سے ہو رہا ہے اور اس نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے صوبے بلوچستان کا امن تباہ کیا پاکستانی نوجوانوں کی پراکسی تیار کی اور اس سے پاکستان کو بلیک میل بھی کیا ہے لیکن ہم خاموش؟۔ پاکستانی میڈیا نے تو اس خبر کو سرسری طور پر بھی بیان نہیں کیا لیکن اس کی تفصیل اس وقت معلوم ہوئی جب امریکی ترجمان کی بریفنگ کے دوران ایک افغان رپورٹر نے امریکی ترجمان سے معلوم کیا کہ افغانستان میں پاکستان نے بمباری کی اور کیا امریکا اس کی مذمت کر ے گا۔ جس کے جواب امریکی حکومت کے تر جمان نے کہا کہ پاکستان ہمارا اسٹرٹیجک اتحادی ہے اور وہ جو کچھ کر رہا ہے اس بارے میں ہم کو اچھی طرح علم ہے اور ہماری اس میں رضامندی شامل ہے۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ آئندہ بھی پاکستان کے ہر کام میں ہم اس کے ساتھ ہیں اور رہیں گئے۔ امریکا اور پاکستان 72برسوں کے اسٹرٹیجک اتحادی ہیں اور ہم مل کر کام جاری رکھیں گے جس سے افغانستان میں امن قائم ہو گا۔ جس میں ہم پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم رکھتے اور ہمیں یقین ہے اس سے امن قائم ہوگا۔
یہ ہیں امریکا کے وہ خیالات جن کی بنیاد پر پاکستان نے افغانستان پر حملہ کیا ہے۔ 2001ء میں بھی امریکا کی کارروائی کا اصل مقصد القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانا اور طالبان کو القاعدہ کے اس لیڈر کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے کی سزا دینا تھا۔ طالبان کو ختم کرنے کے لیے امریکا کو ایک ماہ تک بمباری کرنا پڑیں اور یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ افغانستان کو امن گہوارہ بنایا جاسکے اور دنیا میں قیام امن کی کوششوں کو کامیابی ہمکنار کیا جاسکے لیکن اب 21برس گزرنے کے باوجود افغانستان میں امن کی فاختہ کو زندہ نہیں کیا جاسکا ہے اور اب امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بمباری سے افغانستان میں امن قائم ہوگا۔
افغان حکام کے مطابق مشرقی افغانستان کے صوبوں خوست اور کنڑ میں پاکستانی فورسز کی بمباری میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 47 تک پہنچ گئی ہے۔ قبل ازیں ایسی ہلاکتوں کی تعداد سات بتائی جا رہی تھی۔ افغان حکام نے بتایا ہے کہ فضائی حملوں نے سرحد کے ساتھ واقع خوست اور کنڑ میں رہائشی مکانات کو نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ یہ اطلاعات ہیں کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ یہ بیان طالبان حکومت کی جانب سے پاکستانی فوج کے جیٹ طیاروں کی افغانستان کے صوبہ کنڑ اور صوبہ خوست کے کچھ علاقوں پر بمباری کا الزام عائد کرنے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت دفاع نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی فوج کے جیٹ طیاروں نے 16 اپریل کی صبح افغانستان کے صوبہ کنڑ اور صوبہ خوست کے کچھ حصوں پر گولہ باری کی جس سے بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ’کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر دہشت گرد گروہ پاکستان کی سرحد پر حفاظتی چوکیوں پر حملے کر رہے ہیں اور ان حملوں میں کئی پاکستانی فوجی ’شہید‘ بھی ہوئے ہیں۔ 14 اپریل کو افغانستان سے دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان میں پاکستان فوج کے سات جوانوں کو شہید کیا‘۔ پاکستان، دہشت گردی کے لیے افغان سر زمین استعمال ہونے کی شدید مذمت کرتا ہے، یہ دہشت گردی پاکستان افغان سرحد پر امن و استحکام برقرار رکھنے کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ افغانستان پاکستان میں دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے اور پاکستان افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنائے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان، افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور تمام شعبوں میں دو طرفہ تعلقات مضبوط بنانے کے لیے افغانستان کی حکومت کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔ لیکن یہ دو طرفہ تعلقات میں امریکا کے مطابق اس کی رضامندی شامل ہونا ضروری ہے۔
وزیر خارجہ امیر خان متقی کے علاوہ پاکستانی سفیر سے ملاقات میں طالبان کے نائب وزیر دفاع الحاج ملا شیریں اخوند نے بھی شرکت کی پاکستان پر فضائی حملوں کے الزام کے بعد طالبان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان کو طلب کیا اور پاکستانی سفیر سے کہا ہے کہ ’خوست اور کنڑ سمیت تمام عسکری خلاف ورزیوں کو روکنا ضروری ہے اور اس طرح کے واقعات سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ جس کے برے نتائج ہوں گے۔ یہ سفارتی زبان نہیں دو دشمن ملک کے درمیان ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکی کہا جاسکتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ ’’ایبسولوٹلی ناٹ ایک مرتبہ پھر یس سر بن گیا؟‘‘۔
21 سال پہلے امریکی قیادت میں مغربی دفاعی اتحاد ناٹوکی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں اور طالبان کی اسلامی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ 21 سال بعد طالبان کی اسلامی حکومت دوبارہ اقتدار میں آ چکی ہے اور اسی دن سے امریکا اور اس کے شکست خوردہ اتحادی یہی کوشش کر رہے ہیں اس حکومت کو ختم کر نے لیے ایک مرتبہ بھر پاکستان سے مدد لی جائے۔ بی بی سی کے مطابق امریکا میں 11 ستمبر 2001ء میں دہشت گردی کے تاریخی واقعات رونما ہوئے۔ واشنگٹن نے القاعدہ کے نائن الیون حملوں کا بدلہ لیا اور چند ہفتوں کے اندر 7 اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر حملہ کر دیا۔ طالبان کو ختم کرنے کے لیے امریکا کو ایک ماہ تک افغانستان پر بمباری کرنا پڑیں تاہم بن لادن فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ آخر کار 2011ء میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادی جن کی تعداد 100ممالک پر مشتمل تھی نے 20برسوں تک افغانستان پر حملے جاری رکھے اور 30اگست کو امریکا ناکامی سے دو چار افغانستان سے بے آبرو ہو کر نکلا اور اسی دن سے اس کی یہی خواہش ہے کہ پاکستان سے افغانستان پر بمباری کی جائے جس کی شروعات ہو چکی ہے لیکن انجام ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے تباہی اور بربادی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ امریکا اور ناٹو سے زیادہ پاکستان کے پاس عسکری قوت نہیں ہے اور نہ ہی افغانوں کو شکست دینا تاریخ کا حصہ ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ’’ایبسولوٹلی ناٹ‘‘ ہی کو ملک کی بقا اور سلامتی سے نتھی رکھا جائے۔
بشکریہ جسارت