پاکستان میں پندرہ ماہ کے وقفے کے بعد شمالی وزیرستان میں رواں ماہ دوبارہ پولیو کا ایک نیا کیس سامنے آیا ہے
شمالی وزیرستان کے متاثرہ بچے (م ص) کے چچا ناہیداللہ نے بتایا کہ اپریل کے آغاز میں ان کے بھتیجے کو جب تیز بخار ہوا تو پہلے وہ وزیرستان کے ڈاکٹروں کے پاس گئے اور پھر ان کے مشورے پر پشاور گئے
ناہید اللہ کہتے ہیں ’بخار کے بعد بچے کے پاؤں بے جان ہوگئے تھے۔ پشاور میں ڈاکٹر صاحبان نے پولیو کا بتایا۔ علاج میں بچے کو چھ انجیکشن ایک دن اور چھ دوسرے دن لگے۔ ہر انجیکشن کی قیمت اکیس ہزار روپے سے زائد تھی جو ہمیں ہسپتال سےمفت ملے۔‘
انہوں نے بتایا کہ فوری علاج اور توجہ سے بچے کی حالت بہتر ہونا شروع ہوئی اور اب ان کا بھتیجا کافی حد تک ٹھیک ہوگیا ہے
پاکستان میں پولیو پروگرام کے حکام نے بتایا کہ نئے کیس کی تشخیص پاکستان میں پندرہ ماہ بعد جب کہ خیبر پختونخوا میں اکیس ماہ بعد شمالی وزیرستان کے میرعلی علاقے میں سامنے آئی، جس کی اطلاع ملتے ہی ہنگامی بنیادوں پر ٹیمیں تشکیل دے کر اس علاقے میں بھیجی گئیں
خیبر پختونخوا میں پولیو پروگرام کے ایمرجنسی آپریشنز سینٹر کے کوآرڈینیٹر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ’پیر 25 اپریل کو ضلعی افسران اور صوبائی پولیو پروگرام کے افسران کی وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ میٹنگ میں زمینی حقائق، چیلنجز اور آئندہ کےلائحہ عمل پر بات ہوگی۔‘
طبی ماہرین کے مطابق پولیو ایک متعدی مرض ہے جو کہ پانچ سال کے کم عمر بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ طبی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پولیو اکثر ٹھیک ہوجانے کے بعد زندگی کے کسی بھی حصے میں دوبارہ حملہ کرسکتا ہے
شمالی وزیرستان میں پولیو پروگرام کو درپیش مشکلات اور مسائل
پاکستانی حکام پولیو وائرس کے مکمل خاتمے کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مختلف عوامل وقتاً فوقتاً منظر عام پر لاتے رہے ہیں، جس میں قطرے پلانے سے انکاری والدین، ناقص مہم اور خراب سکیورٹی صورتحال چند بڑی وجوہات ہیں
اسی ضمن میں شمالی وزیرستان میں نیا کیس سامنے آنے کے بعد اس علاقے کا ازسر نو جائزہ لینا بھی ضروری ہوگیا ہے، جہاں صحت کا نظام شروع سے ہی مسائل کا شکار ہے اور جس پر مختلف مافیاز کے مسلط ہونے کا الزام بھی لگتا رہا ہے
ان علاقوں میں پولیو پروگرام کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور مسائل کی وجہ سے کئی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز (ڈی ایچ اوز) کا تبادلہ بھی کیا گیا لیکن صوبائی ترجمان عبدالباسط کے مطابق حالات تاحال کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں
انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع خصوصاً شمالی وزیرستان میں خراب حالات کی وجہ سے اکثر پولیو ٹیمیں وہاں جانے سے کتراتی ہیں۔ ’ان ٹیموں کی تنخواہیں باقی اضلاع کی ٹیموں کی نسبت دوگنی کردی گئیں، لیکن پھر بھی وہ ان علاقوں میں جانے پر آمادہ نہیں۔‘
عبدالباسط نے شمالی وزیرستان میں پولیو مہم کی راہ میں حائل دوسری بڑی رکاوٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں میں کام کرنے والے زیادہ تر ورکرز رضاکار ہیں، جو اپنی مرضی سے یہ کام کرتے ہیں۔ ’ہمیں ان علاقوں کے لیے مستقل ورکرز چاہییں تاکہ ان کے اعداد وشمار، معلومات پر گرفت اور حالات و مسائل سے بخوبی آگاہی ہو۔ عارضی کارکن کا جب دل کرتا ہے کام پر حاضر ہوجاتا ہے اور جب دل نہیں کرتا وہ کام پر نہیں آتا۔ علاوہ ازیں ایسے ورکر کو اپنے پچھلے کام کی تفصیل بھی یاد نہیں رہتی۔‘
عبدالباسط نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر ) کے دور میں پولیو کے محکمے میں زیادہ تر افراد ملکان کی سفارش پر بھرتی ہوئے ہیں، جو اس ٹاسک کے لیے موزوں نہیں ہیں اور صرف خانہ پری سے کام لیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کی رِٹ پولیو کارکنان پر کمزور ہے اور اکثر ان مسائل کے سامنے ہار مانتے ہوئے وہ بھی ناقص سسٹم کا حصہ بن جاتے ہیں۔‘
صوبائی پولیو پروگرام کے ترجمان نے مزید بتایا کہ اگر شمالی وزیرستان میں پولیو وائرس کا خاتمہ کرنا ہے تو سب سے پہلے وہاں صحت کا محکمہ ٹھیک کرنا ہوگا۔ پولیو مہم میں مستقل اور موزوں لوگ مرد وخواتین بھرتی کرنے ہوں گے، تاکہ گھر گھر سے درست ڈیٹا جمع ہوسکے۔
ان کا کہنا تھا: ’خصوصاً خواتین ورکرز کی ضرورت ہے تاکہ وہ گھروں کے اندر جاکر ڈیٹا اکھٹا کرسکیں۔ جب تک مائیکروپلاننگ درست نہیں ہوگی، پولیو کے قطرے تمام بچوں کو پہنچ سکیں گے اور نہ ہی درست ڈیٹا حاصل ہوسکے گا۔‘
یاد رہے کہ پاکستان میں پولیو وائرس کا آخری کیس گذشتہ برس 27 جنوری کو بلوچستان کے قلعہ عبداللہ سے رپورٹ ہوا تھا، جس کے پندرہ ماہ بعد نیا کیس قبائلی علاقے سے رپورٹ ہوا ہے
نئے کیس کی تشخیص کے بعد پاکستان کے ہیلتھ سیکرٹری عامر اشرف نے کہا کہ ’یہ ایک بچے اور اس کے والدین کے لیے بہت بڑا المیہ ہے۔ علاوہ ازیں یہ پاکستان اور دنیا میں پولیو کے خاتمے کے لیے ہونے والی کوششوں کے لیے بھی ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔ ہم مایوس ہیں، لیکن ہمارا حوصلہ پسپا نہیں ہوا۔‘
پولیو وائرس کے اعداد وشمار کے حساب سے خیبر پختونخوا کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ رہی ہے۔ خیبر پختونخوا کے پچھلے پانچ سال کے ڈیٹا کے لحاظ سے 2020ع میں بائیس کیسز، 2019ع میں ترانوے کیسز، 2018ع میں آٹھ کیسز، 2017ع میں ایک کیس اور 2016ع میں دس کیسز رپورٹ ہوئے.