’سیلاب زدگان کی امداد کے ساتھ پلاسٹک بیگ، بوتلوں کی آمد پریشان کن‘

ویب ڈیسک

ملک میں حالیہ تباہ کن سیلاب کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا محض ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ اور یہ موسمیاتی تبدیلیاں بہرصورت ماحولیاتی عوامل سے جڑی ہوئی ہیں

ماحولیاتی آلودگی کے اسباب میں پلاسٹک کا بھی ایک اہم کردار ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالیہ سیلاب میں سیلاب متاثرین کی مدد کے حوالے سے لوگوں کا جذبہ یقیناً قابل قدر ہے لیکن سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سامان کے ساتھ پلاسٹک بیگ اور پانی کی بوتلوں سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا خطرہ بھی بڑھتا جا رہا ہے

موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات پر کام کرنے والے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کے ساتھ آنے والے پلاسٹک بیگ اور پانی کی بوتلیں مستقبل میں پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے مستقل حل کی ضرورت ہے

اس مسئلے کو کچھ حد تک حل کرنے کے لیے پنجاب حکومت سرگرم ہے اور صوبے میں کام کرنے والی صاف پانی اتھارٹی کے تحت ان علاقوں میں ہینڈ پمپ اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جا رہے ہیں، جو گندے پانی کو پینے کے قابل بناتے ہیں

اس اقدام سے پانی کی بوتلوں پر انحصار نہ صرف کافی حد تک کم ہو جائے گا بلکہ یہ پینے کے پانی کے فقدان کا مستقل حل بھی ثابت ہوگا

ماہرین کہتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں لوگوں کی جانیں بچانا ترجیح ہے جبکہ بحالی کے دوسرے مرحلے میں جو امداد آرہی ہے، اس میں سے مستقل واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کا کام ممکن ہے

پلاسٹک سے ماحولیاتی آلودگی کا خطرہ

موسمی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والے ماہر رافع عالم کا کہنا ہے ”پہلے مرحلے میں تو انسانی جانیں بچانا ضروری ہے، اس کے لیے کسی طریقے سے بھی امداد پہنچنی چاہیے۔ چاہے پلاسٹک بیگز اور پلاسٹک بوتلوں میں ہی جائے مگر جتنی بڑی تعداد میں ان علاقوں میں پلاسٹک بوتلیں اور شاپر جا رہے ہیں یہ یقینی طور پر ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنیں گے“

رافع عالم کہتے ہیں ”جس طرح موسمی تبدیلیوں سے سیلاب جیسی آفات میں شدت آ رہی ہے اور آنے والے دنوں میں یہ خطرہ بڑھ رہا ہے اسی طرح ماحولیاتی آلودگی بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے، جو فی الحال سنائی نہیں دے رہی“

پلاسٹک کی آلودگی اور حکومت کا کردار

ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے حکومت نے حالیہ برسوں میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی عائد کی تھی اور پلاسٹک کی اشیا کے کم از کم استعمال کی مہم بھی چلائی تھی، لیکن ان حکومتی اقدامات پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے

ان دنوں سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سامان کے ساتھ سب سے زیادہ پانی کی بوتلیں بھجوائی جا رہی ہیں، جن سے آلودگی میں غیر معمولی اضافے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے

حکومت پنجاب کی جانب سے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے آب پاک اتھارٹی قائم کی گئی تھی، جو سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بھی کوشاں ہے

ترجمان آب پاک اتھارٹی فرحان بیلا نے بتایا کہ پنجاب بھر میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا کر شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے ایک ہزار واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جا رہے ہیں

انہوں نے بتایا کہ آب پاک اتھارٹی نے ایسے علاقوں کے لیے جدید ہینڈ پمپ بھی منگوائے ہیں، جہاں بجلی نہیں ہے

فرحان بیلا کے مطابق: ’ان تیس پمپوں میں سے گیارہ سیلاب زدہ علاقوں میں لگائے جارہے ہیں۔ یہ پمپ سیلاب کے پانی کو ٹریٹ کر کے پینے کے قابل بناتے ہیں، جس سے متاثرین کو پینے کا پانی اپنے کیمپوں میں ہی دستیاب ہو رہا ہے“

انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کی بوتلیں لوگ اپنے طور پر پہنچا رہے ہیں، جو ہر فرد کو پانی پلانے کا آسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے

ساتھ ہی انہوں نے کہا ’جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں مستقل بنیادوں پر بھی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کی تیاری ہو رہی ہے اور جیسے ہی بحالی کا کام شروع ہوگا، ہم ان علاقوں میں مستقل پلانٹ لگانے کی بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘

ماحولیاتی آلودگی کے خطرات کو سمجھنا کیوں ضروری ہے؟

معروف طبی جریدے ’دی لانسٹ‘ میں 2017 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کئی دہائیوں سےآلودگی اور لوگوں کی صحت، ماحولیات اور کرہ ارض پر اس کے مضر اثرات کو حکومتوں اور بین الاقوامی ترقیاتی ایجنڈے دونوں نے نظرانداز کیا ہے

یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں بیماریوں اور موت کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہے، جو ایک اندازے کے مطابق نوے لاکھ قبل از وقت اموات کی ذمہ دار ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close