چین نے کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے باہر ایک روز قبل ہونے والے خودکش حملے پر سخت مذمت اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی شہریوں کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وین تین چینی اساتذہ کو لے کر کنفیوشس انسٹیٹیوٹ میں داخل ہونے والی تھی، سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک برقع پوش خاتون کو کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے داخلی دروازے کے باہر کھڑا دکھایا گیا جنہوں نے وین کے انسٹیٹیوٹ کے دروازے پر پہنچتے ہی خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ بعد ازاں بلوچستان لبریشن آرمی کے مجید برگیڈ نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی
چینی ترجمان نے کہا کہ چینی وزیر نے کال پر گفتگو کے دوران واقعے پر ’شدید تشویش‘ کا اظہار اور پاکستان سے فوری طور پر مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ وزیر نے مزید مطالبہ کیا کہ حملے کے ذمہ داروں کو پکڑ کر قانون کے مطابق سزا دی جائے اور پاکستان میں چینی شہریوں کے تحفظ کا یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے
ان کا کہنا تھا کہ چینی عوام کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے اور اس واقعے میں ملوث عناصر کو یقیناً اس کی قیمت چکانی پڑے گی
دوسری جانب کراچی یونیورسٹی میں گزشتہ روز ہونے والے خودکش دھماکے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جس کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے
نوٹیفکیشن کے مطابق ڈی آئی جی پی سی آئی اے تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہیں، ایس ایس پی ایسٹ، ایس ایس پی ملیر اور ایس ایس پی اینٹی وائلنٹ اینڈ سیل بھی ٹیم میں شامل ہیں۔
ٹیم تحقیقات مکمل کر کے حکام بالا کو آگاہ کرے گی، کیس پر سی ٹی ڈی اور رینجرز کی ٹیمیں بھی کام کر رہی ہے
کراچی یونیورسٹی کے اندر سے تقریباً تحقیقات مکمل کرلی گئی ہیں جبکہ یونیورسٹی کے اطراف شواہد اکٹھے کرنے کا سلسلہ جاری ہے
صوبہ بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں چینی باشندوں پر حملوں میں مجید بریگیڈ نامی ایک گروہ کا نام سامنے آرہا ہے اور اسی گروہ نے منگل کو کراچی میں چینی باشندوں کی وین پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے
اس حملے میں نئی بات خود کش حملہ آور کی جنس ہے۔ اس حملے کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر غیر قانونی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی مجید بریگیڈ کا دعوی سامنے آیا ہے کہ یہ ان کی خاتون فدائی شاری بلوچ عرف برمش نے کیا ہے
پاکستان کے دیگر شہروں اور بلوچستان میں اس وقت چینی باشندوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں
ان منصوبوں میں سی پیک کے تحت مختلف منصوبے اور بلوچستان کے ضلع چاغی میں سیندک کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
مجید بریگیڈ کیا ہے؟
اس حوالے سے بلوچستان ست تعلق رکھنے والے والے سینیٹر صحافی ہزار خان بلوچ اپنی ایک رپورٹ میں بتاتے ہیں ”یہ 17 مارچ 2010 کا واقعہ ہے کہ نامہ نگار کے مکان سےآدھے گھنٹے کے فاصلے پر کلی شاہوزئی کے قریب بروری روڈ پر رات کو فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں جن کی آوازیں قریب رہنے والے لوگ تمام رات سنتے رہے۔ جبکہ اس روڈ پر فورسز کی بھاری نفری بھی دکھائی دی۔“
صبح سکیورٹی فورسز نے دعوی کیا کہ انہوں نے کالعدم بی ایل اے کے ایک اہم رکن مجید کو فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک کر دیا ہے، جس کی تصویر بھی شائع ہوئی جس میں لاش کے سینے پر کلاشنکوف رکھی ہوئی تھی۔
یہ مجید جونیئر تھا۔ اسی روز یعنی 17مارچ 2010 کو ذرائع بلاغ میں ایک خبر جاری ہوئی جس میں اسلم بلوچ نامی شخص نے بی ایل اے کے نئے دھڑے مجید بریگیڈ کے قیام کا اعلان کیا تھا جس کو مجید جونیئر کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔
مجید نام کے ایک اور نوجوان نے 2 اگست 1974 کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر اس وقت حملہ کرنے کی کوشش کی جب وہ ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اس نوجوان کے پاس دیسی ساخت کا بم تھا جو بھٹو تک پہنچنے سے پہلے پھٹ گیا تھا۔ یہ نوجوان مجید سینیئر تھا جس کا چھوٹا بھائی 2010 میں کوئٹہ میں مارا گیا تھا
اس کے بعد تنظٰیم کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا اور پھر 30 دسمبر 2011 کو کوئٹہ کے علاقے ارباب کرم خان روڈ پر واقع ایک مکان پر حملہ ہوا جس کے بارے میں اگلے روز خبریں شائع ہوئیں کہ یہ خود کش حملہ تھا
یہ حملہ انتہائی شدید تھا اور دو کلومیٹر سے زیادہ علاقے میں اس کی آواز اور شدت کے اثرات محسوس کیے گئے تھے
اس حملے کے بعد علاقہ مکینوں نے بتایا تھا کہ ان کے مکانات میں کوئی بھی شیشے یا کانچ کی چیز ثابت نہیں رہی
یہ مکان سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کا تھا جسے حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں وہ خود تو محفوظ رہے ان کے کئی ساتھی اس میں مارے گئے تھے۔
شفیق مینگل پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ خضدار اور وڈھ کے علاقے میں ڈیتھ سکواڈ چلاتے تھے جو لوگوں کے اغوا اور قتل میں ملوث تھا لیکن وہ اس کی تردید کرتے رہے ہیں
اس کے بعد پھر ایک طویل خاموشی رہی اور مجید بریگیڈ کی کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی
پھر 11 اگست 2018 کو ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں سیندک پراجیکٹ میں کام کرنے والے چینی انجینئروں کی بس پر حملہ ہوا۔ یہ بھی خودکش حملہ تھا
اس حملے کے حوالے سے مجید بریگیڈ کی طرف سے بیان جاری ہوا کہ یہ ان کے رکن ریحان اسلم نے کیا تھا جو تنظیم کے سربراہ اسلم بلوچ کے صاحبزادے تھے
اس حملے کے بعد 23 نومبر 2018 کو کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ ہوا اور اس فدائی حملے کی ذمہ داری بھی اسی گروہ نے قبول کی تھی
کراچی حملے کے بعد 25 دسمبر 2018 کو کالعدم بی ایل اے کے سربراہ اور مجید بریگیڈ کے خالق اسلم بلوچ اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ ایک خودکش حملے میں مارے گئے تھے
اسلم بلوچ کے ہلاکت کے حوالے سے کئی بار دعوے کیے جاتے رہے اور اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی متعدد بار نیوز کانفرنسز میں دعویٰ کرتے رہے کہ اسلم بلوچ کو کارروائی میں مار دیا گیا تھا لیکن بعد میں یہ دعویٰ غلط ثابت ہوتا تھا
اسلم بلوچ کے مارے جانےکے بعد بھی مجید بریگیڈ زیرزمین کام کرتا رہا اور اس کا نتیجہ 11 مئی 2019 کو گوادر میں پی سی ہوٹل (پرل کانٹینینٹل ہوٹل) پر حملے کی صورت میں سامنے آیا جو ایک بڑا حملہ تھا اور اس میں ایک محفوظ ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا تھا
بی ایل اے مجید بریگیڈ کی طرف سے دعوی کیا گیا تھا کہ ان کے خودکش حملہ آور چوبیس گھنٹے تک ہوٹل پر قابض رہے جس میں انہوں نے کئی چینی اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا
پھر اس سے اگلے سال 29 جون 2020 کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کراچی پر چار خودکش حملہ آوروں نے یلغار کی جو بعد میں فورسز کے جوابی کارروائی میں ہلاک ہوگئے تھے
اطلاعات کے مطابق اس وقت مجید بریگیڈ کی کمان حمل ریحان بلوچ کر رہا تھا۔وہ ایک طویل عرصے تک گمنام رہا
اس گروپ کی طرف سے رواں سال فروری میں نوشکی اور پنجگور میں فرنٹیئر کور کے کیمپوں پر حملے کیے گئے۔ یہ حملے جدید اسلحے اور دیگر آلات کے ساتھ کیے گئے تھے
مجید بریگیڈ نے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حملہ آور کیمپ کے اندر تک چلے گئے تھے لیکن سکیورٹی فوسز کا کہنا تھا کہ انہیں داخل ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا
نوشکی میں حملہ آور جلد مارے گئے تاہم پنجگور میں طویل آپریشن کے بعد فورسز نے حملہ آوروں کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس دوران ٹیلی گرام ایپ اور سوشل میڈیا پر حملہ آورں کے آڈیو پیغامات بھی چلتے رہے جس میں وہ کارروائی کے بارے میں اپنے کمانڈر کو صورت حال سے آگاہ کرتے رہے
اسلم بلوچ کے بارے میں شائع ایک مضمون میں بتایا گیا کہ وہ کوئٹہ کے علاقے ٹین ٹاؤن کا رہائشی تھا ۔ اس کا تعلق دہوار قبیلے سے تھا
ادھر مجید بریگیڈ کے کمانڈر کی طرف سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ جس میں ایک شخص جس نے چہرہ ڈھانپا ہوا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ ان کے حملے واضح پیغام ہے کہ پاکستان اور چین یہاں سے نکل جائیں۔ اس مختصر ویڈیو کو کب ریکارڈ کیا گیا یہ واضح نہیں ہوسکا ہے لیکن کچھ لوگوں کے خیال ہے کہ پرانی ہے اور کراچی حملے سے قبل کی ہے
فوجی وردی میں کمانڈر اچھی انگریزی زبان میں کہتا ہے کہ ان کے قائد جنرل اسلم بلوچ نے بھی یہی پیغام دیا تھا۔ ’ہم بھی اسی کو دہراتے ہیں کہ گوادر اور سارا بلوچستان بلوچوں کی ملکیت ہے۔ ’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی سرزمین کی حفاظت کریں۔ ہماری کارروائیاں جاری ہیں۔ ہم اپنے ساحل کی حفاظت کر رہے ہیں۔ چین کو کہتے ہیں کہ وہ ہماری منشا کے بغیر یہاں آیا ہے اور ہماری دشمنوں کی مدد کر رہا ہے۔‘
دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے امور کے سینیئر تجزیہ کار محمد عامر رانا سمجھتے ہیں کہ چین کے باشندوں پر حالیہ حملے کے بعد پاکستان اور اس کی حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا
عامر رانا نے کا، کہنا ہے کہ ’حالیہ واقعات چیلنجنگ ہیں، جب سی پیک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے تو اس وقت ایسے حملے کے انتہائی منفی اثرات مرتب کریں گے۔‘
انہوں نے ایک خاتون کے خودکش حملہ کرنے کے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’یہ خوفناک رجحان ہے۔ دنیا میں بہت سے مقامات پر خواتین ایسے واقعات میں ملوث رہی ہیں اور داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں خواتین کا استعمال کرتی رہی ہیں۔ تاہم پاکستان میں ایسا بہت کم ہوا ہے۔ اگر بی ایل اے نے یہ کیا ہے تو یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔‘
عامر رانا نے کہا کہ حالیہ واقعے کے بعد فورسز پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ جب کہ جو بات چیت کے لیے کوششیں کی جا رہی تھیں وہ سلسلہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ نئی حکومت کے لیے بھی یہ چیلنج ہے کہ وہ کس طرح اس سے باہر نکلے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ نئی تکنیک اور طریقہ خطرناک ہے۔ جس سے بہت سے نوجوان بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ جس کے بعد تشدد کے واقعات میں نوجوان بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جو آگے چل کر ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔‘
خودکش حملہ آور خاتون کون؟
کراچی یونیورسٹی میں مبینہ طور پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون شاری بلوچ کے قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ شاری بلوچ عرف برمش سرکاری اسکول میں استانی اور دو بچوں کی ماں تھیں
انڈپینڈنٹ میں شائع ہونے والی سینیئر صحافی امر گرڑو کی ایک رپورٹ کے مطابق بیرون ملک مقیم شاری بلوچ کے ایک نزدیکی رشتہ دار نے تصدیق کی ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں خودکش دھماکہ کرنے والی خاتون ان کی رشتہ دار شاری بلوچ عرف برمش ہی تھیں۔
رشتے دار کے مطابق ’خاندان والے سکیورٹی خدشات کے باعث میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں جنہیں ’واقعے کے بارے میں میڈیا اور سوشل میڈیا سے پتہ چلا۔‘
واضح رہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے افسر راجہ عمر خطاب نے تصدیق کی تھی کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہونے والا دھماکہ ایک خود کش حملہ تھا، جو ایک سیاہ رنگ کی برقع پوش نوجوان خاتون نے گاڑی کے انتہائی قریب کیا
راجہ عمر خطاب کے مطابق اس دھماکے کے لیے آر ڈی ایکس یا سی فور کا استعمال کیا گیا تھا
دھماکے کے بعد پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون سڑک کنارے کھڑی انتظار کر رہی ہیں اور جیسے ہی وین نزدیک آتی ہے تو ایک دھماکہ ہو جاتا ہے۔
حملے کے بعد بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ نے ٹوئٹر پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’ایک خاتون کی مدد سے یہ خودکش دھماکہ کیا گیا۔‘
بعد میں مبینہ طور پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون کا نام شاری بلوچ بتایا گیا اور اس کی دو تصاویر بھی جاری کی گئیں۔ ان میں سے ایک تصویر میں شاری بلوچ کو دو بچوں کے ساتھ دکھایا گیا
شاری بلوچ کے رشتہ دار نے بتایا کہ ’شاری کی عمر تقریباً 30 سال تھی۔ انہوں نے 2014 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم ایڈ کیا اور 2015 میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے زولوجی میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔‘
شاری بلوچ کے رشتہ دار نے مزید بتایا کہ ’2019 میں انہیں (شاری بلوچ) محکمہ تعلیم بلوچستان میں سرکاری ملازمت مل گئی اور وہ آخری وقت تک بلوچستان کے شہر تربت سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کلاتک یونین کونسل کے ایک سرکاری اسکول گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول میں استاد کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔‘ تاہم اسکول سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے
انہوں نے بتایا کہ ’شاری بلوچ دو بچوں کی ماں تھیں، جن میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔‘
ترجمان بی ایل اے کا کہنا ہے کہ ’شاری نے دو سال قبل مجید بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی تھی
شاری بلوچ کے رشتہ دار کے مطابق: ’سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ شاری بلوچ کے خاندان میں کچھ افراد لاپتہ ہو گئے تھے اس لیے انہوں نے انتقام لینے کے لیے ایسا قدم اٹھایا لیکن ان کے خاندان میں آج تک کوئی ایک فرد بھی لاپتہ نہیں ہوا
وہ بتاتے ہیں کہ ’خاندان میں سب پڑھے لکھے اور بیورکرسی کا حصہ ہیں، اور ان کے شوہر ڈاکٹر ہیں
انہوں نے شاری بلوچ کے حوالے سے کہا کہ ’وہ کالج دور سے بی ایس او آزاد کے ساتھ رہیں۔ بعد میں انہوں نے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ کو جوائن کرلیا۔‘
ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ان کا کے تعارف کرایا گیا اور ان ایجوکیشن کیریئر کے بارے میں بتایا گیا، جس پر سوشل میڈیا کے کچھ صارفین نے دعویٰ کیا کہ وہ کراچی یونیورسٹی کی طالبہ رہی ہیں
تاہم اس حوالے سے کراچی یونیورسٹی کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایسی باتیں ہونے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے شعبہ داخلہ شعبے کے عملے کو چھٹی کے بعد واپس بلا کر ریکارڈ چیک کرنے کا کہا تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ کیا وہ کراچی یونیورسٹی کی طالبہ تو نہیں تھیں
ترجمان کے مطابق شاری بلوچ کے نام سے ایک اور طالبہ کا ریکارڈ تو موجود ہے مگر ان کا ریکارڈ نہیں مل سکا ہے۔ اس طالبہ کی ولدیت مختلف بتائی جا رہے ہے
اس سلسلے میں پولیس افسران کے مطابق تحقیقات انتہائی ابتدائی مراحل میں ہیں اور ان کی تفتیش ابھی جاری ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا.