برطانوی کاؤنٹی واروک شائر کے علاقے اپر ٹائیسو سے تعلق رکھنے والے ایک سابق آرکیٹکٹ نے ان لمحات کی کہانی سنائی ہے، جب وہ گھر میں لگی آگ بجھانے کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے، بقول ان کے، پانچ منٹ کے لیے ’مر گئے تھے‘
چونسٹھ سالہ اسٹیو ٹیلر اور ان کی تریپن برس کی بیگم جو 14 جنوری کو رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ گھر کے اطراف سے دھواں اٹھنے لگا
اسٹیو ٹیلر نے خبر رساں ادارے پی اے میڈیا کو بتایا ”ہم جو کے اَسی سالہ والدین کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہے تھے، جب چھت میں لائیٹس کی فٹنگز سے سے اچانک دھواں اٹھنے لگا اور الارم بجنا شروع ہو گیا”
اس کے بعد سٹیو ٹیلر اپنے پانچ بچوں سمیت خاندان کو مکان سے باہر لے گئے، جب انہوں نے دیکھا کہ آگ مکان کے پہلو اور چھت کو لپیٹ میں لے چکی ہے
”میں نے سب کو عمارت سے باہر نکالا اور یہ دیکھنے کے لیے واپس اندر گیا کہ دھواں کہاں سے اٹھ رہا ہے؟“
انہوں نے کہا ”چوں کہ املاک میں ان کا ہالیڈے ہوم بھی شامل ہے، اس لیے اس کے ارد گرد آگ بجھانے والے دس آلات موجود تھے، جنہیں انہوں نے امدادی عملے کی آمد سے پہلے آگ بجھانے کی کوشش میں استعمال کیا“
ٹیلر کا کہنا تھا ”میں بالائی منزل کی چھت میں سوراخ کر رہا تھا اور آگ بجھانے کی کوشش میں آگ بجھانے والے آلات کی مدد سے شہتیروں پر چھڑکاؤ کر رہا تھا۔ لیکن آگ ہر جگہ تھی۔ گھر کے اندر بیس مقامات پر آگ ایک ساتھ بھڑکی تھی اور میں اسے اتنی جلدی نہیں بجھا سکا۔ آگ بجھانے والے عملے کو پہنچنے میں آٹھ منٹ لگے۔ ایسا لگا کہ ایک زمانہ بیت گیا ہے۔ جب وہ یہاں پہنچے تو میں عین اس وقت آگ بجھانے والا آخری آلہ استعمال کر چکا تھا“
ٹیلر نے کہا ”جیسے ہی فائر فائٹرز نے ذمہ داری سنبھالی انہوں نے محسوس کیا کہ ان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا ہے“
”اختتام تک آگ سرخ ہو چکی تھی اور میں دھوئیں کی وجہ چہرے کے سامنے اپنا ہاتھ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی اور مجھے پسینہ آ رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں مکان کے بیرونی احاطے میں برے حال میں بیٹھا تھا۔ میرا دل ٹرین کے انجن کی طرح چل رہا تھا اوراس کی دھڑکنے کی رفتار کم نہیں ہو رہی تھی“
وہ بتاتے ہیں ”مجھے دس سال پہلے دل کا دورہ پڑا تھا اس لیے میں جانتا ہوں کہ یہ کیسا محسوس ہوتا ہے“
ٹیلر کہتے ہیں ”تب میں نے آگ بجھانے والے عملے کے ایک رکن کو بتایا کہ مجھے دل کا دورہ پڑ رہا ہے اور اس سے پہلے کہ’سب کچھ تاریک ہو جاتا‘ میں اسپرین کی گولی کھانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔“
’پہلے انہوں نے میرے سینے کو ہاتھوں سے دبایا جس سے میری چھ پسلیاں ٹوٹ گئیں لیکن بات نہ بن سکی۔ ایک فائر فائٹر جن کا نام پِپ بلیئر تھا اور وہ طبی عملے کی رکن رہ چکے تھیں، انہوں نے میرے سینے پر برقی جھٹکے دینے والی مشین استعمال کی۔ میرے دل نے پانچ منٹ کے لیے کام کرنا بند کر دیا اور انہوں نے سوچا کہ میں مرنے والا ہوں‘
انہوں نے مزید کہا: ’تکنیکی اعتبار سے میں پانچ منٹ کے لیے لازمی طور پر مر چکا تھا اور یہ عجیب احساس تھا۔ میں ایسی جگہ چلا گیا جو واقعی اندھیرا، سردی اور خاموشی تھی‘
ٹیلر کا کہنا تھا پہلی چیز جو اس کے پاس واپس آئی وہ اس کا لمس کا احساس تھا۔ انہیں بلیئر کے بازو کو چھونا یاد ہے
’میں یہاں نہ ہوتا اگر پپ نہ ہوتی اور میرے پانچ بچے والد سے محروم ہو چکے ہوتے۔ وہ بالکل جانتی تھی کہ وہ کیا کر رہی ہے۔‘
بعد میں ٹیلر کو آکسفرڈ میں جان ریڈکلف ہسپتال لے جایا گیا، جہاں انہوں نے ساڑھے تین ہفتے گزارے۔ وہ اب گھر پر صحت یاب ہو رہے ہیں جب کہ آگ سے ہونے والے نقصان کے بعد گھر کی مرمت کی جا رہی ہے
ٹیلر کہتے ہیں کہ انہوں نے بلیئر کے ساتھ دوستی کر لی جس نے ان کی جان بچائی تھی
ٹیلر کے بقول: ’میں دوبارہ پپ سے ملنے اور اس کا شکریہ ادا کرنے کے قابل ہو گیا ہم اچھے دوست بن گئے۔ جب ہم نے اس واقعے کے بارے میں بات کی تو اس نے مجھے بتایا کہ صرف 10 سے 12 فیصد لوگ برقی جھٹکے والی مشین کے استعمال سے دوبارہ زندہ ہو جاتے ہیں اور اگر پہلی دو کوششیں ناکام ہو جائیں تو زیادہ تر لوگ ایسا نہیں کر پاتے۔‘