معروف وکیل و سماجی کارکن جبران ناصر کو کراچی سے ’اٹھا لیا گیا‘، اہلیہ

ویب ڈیسک

سندھ کے دارالحکومت اور ساحلی شہر کراچی میں وکیل اور انسان حقوق اور سماجی کارکن جبران ناصر کو نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے ہیں

جبران ناصر کی اہلیہ اداکارہ منشا پاشا کا جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات کو جاری ایک وڈیو پیغام میں کہنا تھا کہ کچھ لوگ ان کے شوہر جبران ناصر کو زبردستی اٹھا کر لے گئے ہیں

منشا پاشا نے بتایا کہ وہ جمعرات کی شب تقریباً گیارہ بجے رات کے کھانے کے بعد گھر آ رہے تھے، جب انہیں روکا گیا

ایک وڈیو پیغام میں منشاء پاشا نے کہا ”ایک وائٹ ویگو نے ہماری گاڑی کو سامنے سے آ کر روکا، تقریباً ٹکر مار کے۔ پستولوں کے ساتھ تقریباً 15 لوگ تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ’زبردستی میرے شوہر کو لے کر چلے گئے ہیں۔ میں چاہوں گی کہ آپ سب اس پر آواز اٹھائیں اور دعا بھی کریں۔‘

منشا پاشا نے مزید کہا کہ وہ ہمیں کار سے باہر نکالنے کے لیے صرف چیختے رہے اور کوئی وضاحت پیش نہیں کی

اپنی تحریری شکایت میں انہوں نے کہا کہ ایک سفید رنگ کی ٹویوٹا ہیلکس/ویگو نے جس کا نمبر بی ایف-4356 رجسٹرڈ تھا، نے بائیں جانب سے ہماری کار کو ٹکر ماری اور ہمیں 26ویں اسٹریٹ، ڈیفنس فیز 5، کراچی پر آئیڈیل بیکری کے قریب رکنے پر مجبور کیا

انہوں نے مزید کہا ”سلور رنگ کی کرولا نے ہماری گاڑی کو پیچھے سے اس طرح بلاک کیا کہ ہم گِھر گئے، ان گاڑیوں میں سے تقریباً پندرہ افراد، جن کے ہاتھوں میں پسٹلز تھیں، اترے اور میرے شوہر کو کار سے نکلنے پر مجبور کیا ان کے ساتھ زبردستی کرتے ہوئے انہیں اپنی گاڑی کی طرف لے کر گئے اور پھر اغوا کر کے لے گئے، ان کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات نہیں ہے“

منشا پاشا نے جبران ناصر کی رہائی کے لیے فوری کارروائی اور انہیں اغوا کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کامطالبہ کیا ہے

جبران ناصر سماجی و ملکی مسائل پر بے دھڑک بات کرنے اور پاکستانیوں کے آئینی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں میں ایک توانا آواز سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھا

واضح رہے کہ حال ہی میں وہ پی ٹی آئی کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر فسادات میں حصہ لینے والے افراد کےخلاف قانونی کارروائی کے طریقے پر بھی تنقید کرتے رہے ہیں

انہوں نے گذشتہ دنوں ٹوئٹر پر ’اسٹیبلشمنٹ‘ پر تنقید کرتے ہوئے کچھ پیغامات جاری کیے تھے۔ 31 مئی کو جاری کردہ اپنے پیغام میں جبران نے کہا تھا ’اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ عمران کو اگلے انتخابات سے باہر رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن عمران خان کے بیانیے کو نہیں۔ پانامہ ہو یا 9 مئی، اسٹیبلشمنٹ یہ سیکھنے سے انکاری ہے کہ وہ ووٹروں میں اپنا بیانیہ زبردستی مقبول نہیں کر سکتی۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ ’معلق پارلیمنٹ سیاسی داؤ پیچ کے لیے اسٹیبلشمنٹ پر زیادہ انحصار کو یقینی بنا دیتی ہے۔‘ جبران نے ٹوئٹر پر سابق اور موجودہ آرمی چیفس کی ایک حالیہ تصویر بھی شیئر کی تھی اور اس پر لکھا تھا کہ ’بگاڑ کر بنائے جا، ابھار کر مٹائے جا، کہ میں تیرا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا۔‘

انہیں 2013 میں فارن پالیسی میگزین نے فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف متاثر کن کام کرنے والے تین پاکستانیوں میں شامل کیا تھا

گزشتہ ہفتے سینئر صحافی سمیع ابراہیم کو اسلام آباد میں نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے اور چھ روز بعد گھر واپس آئے

دریں اثنا، اینکر پرسن عمران ریاض خان، جنہیں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے بعد نفرت انگیز تقریر کے الزام میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 11 مئی کو سیالکوٹ کے ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا اور پھر ’نامعلوم افراد‘ کے ہاتھوں اٹھا لیا گیا تھا، ابھی تک غائب ہیں

جیسے ہی جبران ناصر کو ’اٹھائے جانے‘ کی خبر پھیلی، سول سوسائٹی کے اراکین کے ساتھ ساتھ حقوق کی تنظیموں نے ان کی خیریت پر تشویش کا اظہار کیا اور ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا

انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے ایک بیان میں کہا ”ہمیں ان اطلاعات پر گہری تشویش ہے کہ وکیل اور کارکن جبران ناصر کو کراچی میں نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کر لیا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں فوری طور پر بحفاظت بازیاب کیا جائے اور ان کے اغوا کاروں کو قانون کے تحت جوابدہ بنایا جائے“

مائیکل کوگلمین نے کہا کہ جبران کئی برسوں سے طاقتور کے سامنے سچ بول رہے ہیں

تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ نے بھی جبران کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے ”پاکستان میں جنگل کا قانون نہیں چلنے دیا جانا چاہیے“

وزیراعظم کے اسٹریٹیجک ریفارم سیل کے سربراہ سلمان صوفی نے کہا ”جبران ناصر کے اغوا کی خبر سننا انتہائی تشویشناک ہے. امید ہے کہ سندھ پولیس ان کے خاندان کی مدد کرے گی اور انہیں فوری طور پر تلاش کرے گی، جبران نے ہمیشہ پرتشدد انتہا پسندی اور فسادات کے خلاف بات کی ہے، ان کی محفوظ اور فوری واپسی کی امید کر رہا ہوں“

سماجی کارکن جبران ناصر کی اہلیہ نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اہل خانہ کی کوششوں کے باوجود اب تک پولیس نے اس واقعے پر مقدمہ تک درج نہیں کیا ہے

سماجی کارکن عمار علی جان نے کہا کہ جبران ناصر اغوا اور فوجی عدالتوں کے خلاف کھڑے ہونے کی قیمت چکا رہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ جب ریاست کسی بھی شہری کو نشانہ بنانے کے لیے قانونی فریم ورک سے آگے بڑھ جاتی ہے تو ہر کوئی برہنہ غنڈہ گردی کا شکار ہو جاتا ہے، یہ کریک ڈاؤن بند ہونا چاہیے اور تمام قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہیے

معروف وکیل ریما عمر نے لکھا ’حد سے زیادہ ہولناک اور قابل مذمت‘

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اغوا جبر کا ایک آلہ اور دہشت گردی کی ایک تکنیک ہیں، جسے ریاست، خاص طور پر سیکیورٹی/ انٹیلیجنس ایجنسیاں، آزادی اظہار کے استعمال اور جمہوریت کا مطالبہ کرنے والے جائز سول معاملات کے جواب میں استعمال کرتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close