روسی ڈوما (پارلیمنٹ) کے رکن اور ایک مشہور ٹی وی میزبان یوگنی پوپو نے کوئی دو ہفتے قبل بی بی سی یوکرین کاسٹ سے 19 اپریل کو بات کرتے ہوئے کہا تھا ”یوکرین اور اس کے اتحادی، بشمول لندن، ایک ہزار سال سے روس کو دھمکیاں دے رہے ہیں، نیٹو کو ہماری سرحدوں تک لانے، ہماری ثقافت کو مٹانے کی بات کر رہے ہیں، وہ کئی سالوں سے بدمعاشی کر رہے ہیں“
انہوں نے کہا ”یقیناً یوکرین کے لیے نیٹو کا منصوبہ روس کے شہریوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے“
کریملن کی جانب سے بیان کردہ سرکاری بیانیے کے مقابلے میں ان کے یہ خیالات کافی حیران کن ہیں، خصوصاً اس تناظر میں جس طرح مغرب اس تنازعے کو دیکھ رہا ہے
اگرچہ یورپی اور مغربی کانوں کے لیے یوگنی پوپو کے یہ الفاظ ناقابل یقین ہیں، لیکن یہ اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو روس کے حمایتی ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر کے کئی حصوں میں پائی جاتی ہے
جی ہاں دنیا کے کئی ممالک… اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روس کے 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے بعد جب اقوام متحدہ میں ایک ایمرجنسی ووٹ ہوا، تو اس میں ایک ہفتے بعد 193 میں سے 141 ملکوں نے اس حملے کی مذمت کی۔ لیکن چین، پاکستان، بھارت اور جنوبی افریقہ سمیت کئی اہم ممالک نے اس ووٹ سے اجتناب کیا
اس لیے مغربی رہنماؤں کا یہ سوچنا حماقت ہوگی کہ پوری دنیا نیٹو کے اس موقف کی حامی ہے کہ اس جنگ کی ساری ذمہ داری روس پر عائد ہوتی ہے، کیوں کہ ساری دنیا ایسا نہیں سوچتی
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے معاملے پر بہت سے ممالک اب تک غیر جانب دار ہیں؟
اس کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں معاشی اور دفاعی مفادات سے لے کر یورپ کے نو آبادیاتی ماضی پر مغرب کے دوغلے پن کے الزامات شامل ہیں
روس کی کھل کر مذمت نا کرنے یا صدر ولادیمیر پیوٹن کو ناراض نا کرنے کی، ہر ملک کے پاس اپنی اپنی وجہ ہے
’وہ تعاون جس کی کوئی حد نہیں‘
چین سے بات شروع کرتے ہیں جو دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے
یوکرین جنگ شروع ہونے سے قبل چین میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کی تقریب میں ایک ہائی پروفائل مہمان کی آمد ہوئی، یہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن تھے۔ ان کی آمد کے بعد جاری ہونے والے سرکاری چینی اعلامیے میں کہا گیا کہ ’دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی کوئی حد نہیں۔‘
تو کیا پیوٹن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کو یوکرین پر حملے کی پیشگی اطلاع دے دی تھی؟ چین کہتا ہے کہ ایسا بلکل نہیں، لیکن یہ سوچنا مشکل ہے کہ اتنے اہم ہمسائے نے کوئی اشارہ تک نہ دیا ہو
چین اور روس شاید کسی دن ایک دوسرے کے مخالف بن جائیں لیکن آج وہ شراکت دار ہیں اور نیٹو، مغرب اور مغربی جمہوریت کے تصور کے خلاف ایک جیسی ناپسندیدگی رکھتے ہیں، جو تقریباً دشمنی جیسی ہے
چین اور امریکہ کے درمیان جنوبی چین کے سمندر میں پہلے ہی تنازع چل رہا ہے، جب کہ چین کی اویغر آبادی سے سلوک پر مغرب کی تنقید، ہانگ کانگ میں جمہوریت کے خلاف اقدامات اور تائیوان کو واپس چین میں شامل کرنے کے معاملات بھی چین اور مغرب کے درمیان کشیدگی کا باعث ہیں
چین اور روس کے درمیان نیٹو اور مغربی حکومتوں کی مشترکہ دشمنی کا بیانیہ دونوں ملکوں کی عوام تک مقبولیت رکھتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت مغرب کی جانب سے یوکرین پر حملے کے خلاف بیانات اور مبینہ جنگی جرائم کے الزامات پر یقین نہیں رکھتی
دوسری جانب بھارت اور پاکستان کی بھی روس کو ناراض نا کرنے کی اپنی اپنی وجوہات ہیں۔ بھارت کو زیادہ تر اسلحہ روس سے ملتا ہے اور حال ہی میں چین سے لڑائی کے بعد بھارت جانتا ہے کہ اس کو کسی نا کسی دن روس کی حمایت اور تحفظ کی ضرورت پڑے گی
جبکہ پاکستان کے حال ہی میں ہٹائے جانے والے وزیر اعظم عمران خان مغربی دوغلے پن کے بڑے ناقد رہے ہیں اور وہ کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، خصوصاً امریکہ کی منافقانہ پالیسیوں کے خلاف
پاکستان بھی روس سے اسلحہ خریدتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی کے لیے بھی اسے روس کے تعاون کی ضرورت ہے
عمران خان نے بطور وزیر اعظم 24 فروری کو روس کے طے شدہ دورے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا، جب کہ اسی دن روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا تھا۔ بھارت اور پاکستان دونوں نے ہی اقوام متحدہ میں روس کے حملے کی مذمت پر ہونے والے ووٹ میں حصہ لینے سے اجتناب کیا تھا
دوغلہ پن اور دہرا معیار
اس کے علاوہ مسلم اکثریتی ممالک میں خصوصاً ایک الزام یہ بھی ہے کہ امریکہ کی قیادت میں مغرب دوغلے پن اور دہرے معیار کا ارتکاب کرتا ہے۔ 2003ع میں امریکہ اور برطانیہ نے اقوام متحدہ اور عالمی رائے کو اس وقت بلکل اہمیت نہیں دی تھی، جب کمزور بنیادوں پر عراق پر حملے کا فیصلہ کیا گیا، جب کہ بعد ازاں عراق پر حملے کے کمزور بنیادوں پر کھڑے یہ جواز جھوٹ پر مبنی بھی ثابت ہوئے
ادھر افریقہ کے کئی ملکوں کے لیے کئی تاریخی وجوہات ہیں۔ سوویت یونین کے دور میں ماسکو نے امریکہ اور مغربی اثرورسوخ کے خلاف افریقہ میں بے پناہ اسلحہ فراہم کیا۔ افریقہ کے کئی ممالک میں آج تک یورپی نو آبادیاتی نظام کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے
فرانس، جس نے 2013 میں القاعدہ کی حکومت الٹنے کی کوشش کو روکنے کے لیے مالی میں فوج بھیجی تھی، بھی اپنی سابقہ کالونی میں بری شہرت رکھتا ہے۔ فرانسیسی فوجیوں کے انخلا کے بعد اب مالی میں روسی حمایت یافتہ ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجی موجود ہیں
عرب دنیا کہاں کھڑی ہے؟
اس سارے معاملے میں مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کہاں کھڑی ہے؟ یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ شام نے شمالی کوریا، بیلاروس اور اریٹیریا کے ساتھ روس کے حملے کی حمایت کی ہے۔ 2015 میں شام میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے جنگجووں کے خطرے کے پیش نظر صدر بشار الاسد نے اپنی بقا کے لیے روس پر منحصر تھے
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک، جن کو مغرب کے اہم اتحادی سمجھا جاتا ہے، نے اگرچہ اقوام متحدہ میں روس کے خلاف ووٹ دیا لیکن روس کی تنقید کے معاملے میں خاموش ہی رہے ہیں۔ یو اے ای کے رہنما شہزادہ محمد بن زید کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ان کے سابق سفیر صدر پیوٹن کے ساتھ شکار پر بھی جاتے رہے ہیں
سعودی عرب کے حمکران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا بھی امریکی صرر جو بائیڈن کے ساتھ تقریباً نا ہونے کے برابر سا تعلق ہے۔ ایک دوسرے کے لیے ان کی نا پسندیدگی ایسی ہے کہ اطلاعات کے مطابق انہوں نے ایک دوسرے کا فون سننے سے انکار کر دیا تھا
2018ع میں شہزادہ محمد بن سلمان پر صحافی جمال خشوگجی کے قتل کے الزامات لگنے کے چند ہی ہفتے بعد جب عالمی رہنما جی ٹوئنٹی سمٹ کے لیے بیونس آئرس میں اکھٹے ہوئے تھے تو زیادہ تر رہنماؤں نے سعودی ولی عہد کو نظر انداز کرنا پسند کیا تھا۔ ان کے مقابلے میں روسی صدر پیوٹن محمد بن سلمان سے بہت گرم جوشی سے ملے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جو سعودی رہنما بہت جلد بھولنے والے ہیں
ان حالات میں مغرب کو اس بات کا اندازہ ضرور ہو جانا چاہیے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر کیوں دنیا میں مغرب کے روس اور پیوٹن سے متعلق بیانیے، پابندیوں کی حمایت موجود نہیں اور کیوں مغرب کی طرح کھل کر روس کی مذمت نہیں کی جا رہی.