درجہ حرارت میں اضافے کے باعث ایشیا میں ہیٹ ویو کا خدشہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہندو کش ہمالیہ میں گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے کے خدشات میں بھی بڑھ رہے ہیں
اکیسویں صدی کے وسط تک امو دریا، گنگا اور دریائے سندھ میں موسمی تبدیلی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پانی کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اور گلوبل وارمنگ کے باعث اس صدی کے آخر تک ایشیائی ممالک میں خشک سالی میں پانچ سے بیس فیصد اضافہ ہو سکتا ہے
موسمياتی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافہ اور اس کے ساتھ گرمی میں اضافے سے خوراک کی فراہمی میں کمی اور قیمتوں اضافہ ہوگا اور اس وجہ سے جنوبی اور جنوب مشرق ایشیا میں انڈر نورشمنٹ (ضرورت سے کم غذا) کے رجحان میں اضافہ ہوگا، جبکہ گرمی کے اضافے سے ایشیائی ممالک میں توانائی کی طلب بڑھے گی
ایشیا میں 13 ممالک ایسے ہیں جہاں توانائی کا استعمال بہت زیادہ ہے اور ان 13 ممالک میں سے 11 ایسے ممالک ہیں، جہاں توانائی کا عدم تحفظ اور صنعتی نظام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
یہ تمام حقائق اقوام متحدہ کے ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمنٹ چینج (آئی پی سی سی) کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتائے گئے ہیں
آئی پی سی سی کے مطابق گلوبل وارمنگ اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ ہم ایک اعشاریہ پانچ ڈگری کے درجہ حرارت میں اضافے کی حد کو 2030 تک عبور کر جائیں گے۔ اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ حد ہم 2040 تک پار کریں گے
2019 میں ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گذشتہ 20 لاکھوں سالوں سے زیادہ تھی اور گذشتہ 50 سالوں میں درجہ حرارت میں اتنی تیزی سے اصافہ ہوا ہے جو گذشتہ کم از کم دو ہزار سال میں نہیں دیکھا گیا
اور اس سب کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم سب ہیں۔
دنیا میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور موسمی تبدیلی کے منفی اثرات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ چند ہی دہائیوں قبل جس دنیا میں ہم رہ رہے تھے، ماحولیات اور موسم کے اعتبار سے وہ دنیا کافی مختلف تھی
سائنسدان ڈاکٹر ڈیبرا بروسنن کا کہنا ہے کہ ہمارا سیارہ بیس سال پہلے والا نہیں رہا ہے اور موسمی تبدیلی کے باعث اس میں تیزی سے ماحولیاتی تغیرات رونما ہو رہے ہیں
موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور ایک بار جب یہ اثرات نمایاں ہونے شروع ہو جائیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اب ہمیں دیر ہو چکی ہے
ماحولیات پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈین بلسٹین کہتے ہیں ”موسمی تبدیلی بوتل کے جن کی مانند ہے کہ ایک بار جب یہ باہر آ گیا تو واپس بوتل میں نہیں ڈالا جا سکتا“
ان کا کہنا ہے کہ اگر آج ہی سے پوری دنیا میں کاربن کے اخراج کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے تب بھی جو کاربن پہلے ہی ہمارے ماحول میں ہے اس کے اثرات کافی سالوں تک رہیں گے
آئی پی سی سی کا کہنا ہے کہ ہمیں کاربن کے اخراج پر اگلے آٹھ سال میں قابو پانا ہے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو سنہ 2030 میں موسم کی تبدیلی کے ایسے واقعات پیش آئیں گے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے
آج کل کے شدید موسمی واقعات کو دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں کیا ہوگا
پاکستان اور بھارت کے بیشتر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں اور سندھ کے شہر جیکب آباد میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیئس تک پہنچنے کا امکان ہے۔ پاکستان میں 2015ع میں آنے والی شدید ہیٹ ویو کے نتیجے میں بارہ سو سے زائد افراد چل بسے تھے۔ اسی طرح 2010 کے بعد سے بھارت میں بھی ساڑھے چھ ہزار سے زیادہ افراد ہیٹ ویو کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں
پاکستانی محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ اس سال مارچ کا مہینہ 1961 کے بعد گرم ترین مارچ ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح بھارت میں بھی رواں برس مارچ کا مہینہ گذشتہ ایک سو بائیس سالوں میں سب سے زیادہ گرم ریکارڈ کیا گیا تھا
اور اسی لیے سائنس دان اس سال کو ”بہار کے بغیر کا سال“ کہہ رہے ہیں
عالمی ادارے برائے صحت کے مطابق ہیٹ ویو ایک چھپا ہوا شدید موسم ہوتا ہے اور اس کو اکثر اتنی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ ہیٹ ویو ہزاروں جانیں لے سکتی ہے
وقت کے ساتھ ساتھ ہیٹ ویو میں زیادہ شدت آتی جائے گی اور اس کا دورانیہ بھی لمبا ہوتا جائے گا، جس سے پاکستانیوں کی جانوں کو، ان کے روزگار معاشی ترقی کو خطرہ ہے
سخت گرمی مزدوروں پر جسمانی اور ذہنی طور پر اثر انداز ہوتی ہے جس کے باعث ان کے کام کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 33 ڈگری سیلسیئس میں لوگوں کی کام کرنے کی صلاحیت 50 فیصد کم ہو جاتی ہے۔ اور اگر موسمی تبدیلی کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو 2030 تک دنیا بھر میں آٹھ کروڑ فل ٹائم نوکریاں ہیٹ ویو کے بھینٹ چڑھ جائیں گی
پاکستان کے جی ڈی پی میں زراعت کا 50 فیصد ہے اور 42 فیصد لیبر فورس زراعت کے ساتھ منسلک ہے۔ ہیٹ ویو جیسے شدید موسم سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ جیسے 2019 میں پاکستان بھر میں کپاس کی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی جب سندھ میں صرف دو تہائی کپاس کی فصل ہو سکی تھی
ماہرین کہتے ہیں ”ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی بھی ہے اور سائنس بھی۔ مسئلہ سائنس کے نہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خلوص نیت اور قوت ارادی کی کمی کا ہے“