بھارت کے سائنسی محققین نے پنجاب کے اجنالہ قصبے کے ایک کنویں سے آٹھ برس قبل دریافت ہونے والی انسانی باقیات کا سراغ ڈھونڈ لیا ہے
ڈی این اے پر مبنی تازہ ترین شواہد سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بھارتی پنجاب کے ضلع امرتسر کے قصبے اجنالہ میں ایک کنویں میں پھینکی گئی انسانی باقیات ان دو سو چھیالیس نوجوان ہندوستانی فوجیوں کی ہیں، جنہیں 1857ع کی بغاوت کے دوران انگریزوں نے بے دردی سے قتل کیا تھا
بھارتی اخبار دی انڈین ایکسپریس میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محققین کے مطابق ان ہلاک کیے گئے فوجیوں کا تعلق دریائے گنگا کے میدانی علاقوں سے تھا، جو 17.2 کروڑ ایکڑ پر مشتمل زرخیز زمین کی پٹی ہے، جو موجودہ بھارت کے شمال، پاکستان اور بنگلہ دیش میں واقع ہے
اس مطالعے کے مطابق یہ فوجی برطانوی انڈین آرمی کی چھبیسویں بنگال نیٹیو انفینٹری رجمنٹ کے تھے اور ان کا تعلق اترپردیش، بہار، بنگال اور اڑیسہ سے تھا
جریدے ’فرنٹیئرز ان جینیٹکس‘ میں جمعرات کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں ان افراد کی باقیات کی نشاندہی کی گئی ہے، جو برطانوی راج میں ہندوستانی فوج کی چھبیسویں مقامی بنگال انفنٹری رجمنٹ کے سپاہیوں کی ہیں
آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس جگہ کو 1857ع کی بغاوت کے دوران کسی ایک واقعہ میں سب سے زیادہ ہلاک کیے گئے افراد کی باقیات قرار دیا ہے
واضح رہے کہ پنجاب کے اس قصبے میں پیش آنے والے اس واقعے کا ایک برطانوی اہلکار کی تصنیف کردہ کتاب میں تفصیلی ذکر بھی ملتا ہے
1857ع میں امرتسر کے اس وقت کے حاضر سروس ڈپٹی کمشنر کی اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح برطانوی افسروں کی جانب سے ہندوستانی فوج کے ہندو اور مسلمان سپاہیوں کو گائے کے گوشت اور خنزیر کی چربی سے گریس شدہ کارتوسوں کے استعمال پر مجبور کیا گیا، جس کے ردعمل میں میاں میر چھاؤنی (موجودہ پاکستان کے شہر لاہور) میں تعینات ہندوستانی فوجیوں نے اس کی شدید مخالفت کی
رپورٹ کے مطابق کچھ برطانوی افسران کو قتل کرنے کے بعد چند سو ہندوستانی سپاہی مشرقی پنجاب (موجودہ بھارتی پنجاب) کی طرف فرار ہو گئے لیکن آخر کار انہیں گرفتار کر کے قید کر دیا گیا اور بعد میں اجنالہ کے قریب بے دردی سے ان کا قتل عام کیا گیا۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اس واقعے میں دو سو بیاسی ہندوستانی فوجی مارے گئے تھے
دی انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 1857ع میں اجتماعی قتل ایک انتہائی حساس مسئلہ تھا، جس کے باعث سماجی و سیاسی کشیدگی کے جنم لینے کا خطرہ بھی موجود تھا، اس لیے متعلقہ برطانوی افسران نے ان لاشوں کو فوری طور پر اجنالہ کے کنویں میں پھینک کر ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا
1857ع کے اس اجتماعی قتل کے بعد کئی سالوں تک کسی نے اس واقعے پر کبھی زیادہ توجہ نہیں دی حالانکہ یہ 1919ع کے جلیانوالہ باغ کے قتل عام جیسے واقعات سے پہلے پیش آیا تھا
یہ کتاب سامنے نہیں آ سکی تھی لیکن پنجاب کے ایک مؤرخ نے اسے ڈھونڈ نکالا تھا. اس کتاب میں دی گئی تفصیلات کی روشنی میں آثار قدیمہ کے بعض مقامی ماہرین نے اپنے طور پر اس کنویں کی تلاش شروع کی اور بالآخر اسے تلاش کر لیا
بعد میں کچھ مورخین نے یہ قیاس کیا کہ اجنالہ کنویں میں موجود یہ باقیات 1947ع میں بھارت اور پاکستان کی تقسیم کے بعد پھوٹنے والے دنگوں کے دوران مارے گئے افراد کی لاشیں تھیں
مقامی ماہرین آثار قدیمہ کے ایک شوقیہ گروپ نے کچھ باقیات کو غیر سائنسی طور پر نکالا، جس کے بعد 2014ع میں مرنے والوں کی اصلیت کا پتہ لگانے میں کچھ دلچسپی پیدا ہوئی۔ اسی سال بھارتی حکومت نے پنجاب یونیورسٹی کے ماہر بشریات جے ایس سہراوت کی سربراہی میں ایک گروپ کو اس معاملے کی سائنسی تحقیق کرنے کا کام سونپا
شواہد کیسے جمع ہوئے؟
کنویں سے نو ہزار سے زائد دانتوں کے ساتھ ساتھ جسم کی مختلف ہڈیاں، زیورات اور تمغے ملے۔ تقریباً 9646 دانتوں کے نمونوں میں سے اب تک چار ہزار سے زیادہ کا تجزیہ کیا جا چکا ہے
ان باقیات کا جینیاتی مطالعہ کرنے والوں میں بنارس ہندو یونیورسٹی کے پروفیسر گیانیشور چوبے بھی شامل تھے۔
انھوں نے بتایا کہ جن لوگوں نے کنویں سے انسانی ڈھانچوں کی باقیات نکالی تھیں وہ اس کے ماہر نہیں تھے جس کے سبب ڈیڑھ سو برس پرانی ہڈیوں اور دانت کے نمونے کافی حد تک خراب ہو گئے تھے اور ان کا تجزیہ کرنا بہت مشکل کام تھا۔ ‘ہم نے پہلے پنجاب کے لوگوں کے سینکڑوں ڈی این اے کے نمونے لیے پھر ہم نے پٹھانوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا۔‘
ہڈیاں وافر تعداد میں تھیں مگر 165 سال پرانی ہونے کی وجہ سے حالت اچھی نہیں تھی اس لیے محقیقن نے سائنسی مطالعے کے لیے دانتوں کا مطالعہ کرنے کو ترجیح دی
بہتر حالت میں موجود پچاس دانتوں میں سے ڈی این اے کو نکالا گیا۔ حیاتیاتی نمونوں سے جینیاتی ماخذ کا تعین کرنے کے لیے مائٹوکونڈریل ڈی این اے (mtDNA) کا تجزیہ کیا گیا، جبکہ پچاسی دانتوں کے نمونوں کو آکسیجن آئیسوٹوپ تجزیے سے گزارا گیا
بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کے شعبہ زولوجی کے شریک محقق گیانیشور چوبے کے مطابق ہماری غذا میں شامل اجزا دانتوں کی بیرونی تہہ پر کچھ ذخائر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے اس طرح ملنے والے دانتوں کے نمونوں سے نباتیات اور گوشت والے کھانوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے
انہوں نے بتایا کہ موجودہ مطالعے میں پھلیوں اور دالوں جیسی غذا کے آثار پائے گئے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان ہلاک ہونے والے فوجیوں کا مسکن گنگا کے میدانی علاقے تھے
ان باقیات کے بارے میں مانا جاتا تھا کہ یہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب میں بسنے والے لوگوں کی تھیں، تاہم اس تحقیق نے ڈی این اے کی بنیاد پر اسے غلط ثابت کیا
دا پرنٹ کے مطابق جے ایس سہراوت نے کہا کہ اس تحقیق کے نتائج تاریخی ثبوتوں سے ملتے ہیں کہ چھبیسویں نیٹیو بنگال انفنٹرے بٹالین میں مشرقی بنگال، اودیشہ، بہار اور اتر پردیش سے لوگ شامل تھے
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ماہر بشریات جے ایس سہراوت نے کہا: ’ٹریس ایلیمنٹس اور قدیم ڈی این اے کے تجزیہ کی بنیاد پر فوجیوں کی اوسط عمر تینتیس سال تھی اور ان میں اکیس سے انچاس سال عمر کے درمیان کے لوگ موجود تھے
یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ دو سو چھیالیس ہندوستانی سپاہی تھے، ماہرین نے دانتوں کے پیتھالوجی کا تفصیلی تجزیہ بھی کیا۔ دانتوں کے نمونوں کا موازنہ اسی عمر کے جرمن فوجیوں کی باقیات کے موجودہ ڈیٹا سیٹ سے کیا گیا، جو دوسری عالمی جنگ کے دوران مارے گئے تھے
ماہر بشریات جے ایس سہراوت نے کہا کہ ان کی مجموعی صحت انہیں فوجی ثابت کرتی ہے کیونکہ فوج کا حصہ ہونے کی وجہ سے انہیں حفظان صحت کی سہولیات حاصل ہوں گی
اس کے علاوہ انسانی باقیات کے ساتھ ماہرین آثار قدیمہ نے کچھ زیورات، تمغے اور سکے بھی برآمد کیے جن پر ملکہ وکٹوریہ کی شاہی مہر اور 1799ع، 1806ع، 1841ع اور 1853ع سال کندہ تھے۔ یہ غیر حیاتیاتی باقیات فوجیوں کی ملکیت ہوتی تھیں
ہڈیوں کے تجزیے سے ہندوستانی فوجیوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کا بھی پتہ چلا ہے۔ چھیاسی درست حالت میں برآمد شدہ کھوپڑیوں میں سے ہر ایک کی بھنووں کے درمیان چوٹ کے نشان موجود تھے
سہراوت کے مطابق یہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ انہیں قریب سے گولیاں ماری گئیں
کھدائی کرنے والوں نے پتھر کی گولیاں بھی برآمد کیں، جو عام طور پر انیسویں صدی میں قیدیوں کو مارنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں
ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے ایک جیسے پیٹرن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گولی مار کر ہلاک کرنے سے پہلے ہندوستانی سپاہیوں پر جسمانی تشدد کیا گیا تھا
سہراوت نے کہا: ’باقیات کی حالت کو دیکھ کر اب ہم یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ لاشوں کو قبروں میں دفنانے کے بجائے ایک خاص اونچائی سے کنویں میں پھینکا گیا تھا۔‘
بیربل ساہنی انسٹیٹیوٹ آف پیلیو سائنسز لکھنؤ سے وابستہ اس تحقیق کے سرکردہ محقق نیرج رائے نے کہا ہے کہ ٹیم کی یہ سائنسی تحقیق ہندوستانی تاریخ کو مزید شواہد کی روشنی میں دیکھنے میں مدد فراہم کرے گی
ماہرین آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ اجنالہ کا یہ کنواں سنہ 1857 کی بغاوت کے دوران کسی بھی واقعے میں ہلاک ہونے افراد کے باقیات کا سب سے بڑا مدفن ہے.