تیس ہزار بیوائیں اور اَسی ہزار یتیم بچے.. شانگلہ کے کان کنوں کی لرزہ خیز داستان

ویب ڈیسک

یوم مزدور آیا اور گزر گیا.. اس روز ہر سال سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے، ٹی وی پر کوئی ایک آدھ پروگرام نشر ہوتا ہے اور قیامت کی گرمی میں خون پسینہ بہا کر کام کرنے والے مزدوروں کے حوالے سے کسی ٹھنڈے ٹھار آڈیٹوریم میں کوئی ایک آدھ سیمینار بھی منعقد ہوتا ہے

لیکن بندہ مزدور کے بہت تلخ اوقات مزید اور مزید تر تلخ ہوتے جاتے ہیں. ایسا ہی کچھ صوبہ خیبرپختونخوا کے پسماندہ ضلع شانگلہ میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا بھی حال ہے، جن کا کوئی پرسان حال نہیں

ضلع شانگلہ سوات کے شہرمینگورہ سے چالیس کلومیٹر دور واقع ہے۔ پانچ تحصیلوں پر مشتمل ضلع شانگلہ کی آبادی ساڑھے سات لاکھ ہے، جہاں کے بیشتر لوگوں کا روزگار کوئلے کی کان کنی سے جڑا ہے

یہاں ہر کان کن مزدور کے ساتھ بے بسی، دکھ، تکلیف اور کرب کی ایک داستان جڑی ہوئی ہے. انہی میں سے پینتیس سالہ حسین علی بھی ہے، کوئلے کی کان میں کام کرنے کے دوران جن کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے سے وہ عمر بھر کے لیے معزور ہو گئے ہیں

حسین نے بتایا کہ انہوں نے میٹرک میں تعلیم چھوڑ کر کوئلے کی کان میں کام کرنا شروع کیا. 2016ع میں کام کے دوران کان میں سلائیڈنگ کی زد میں آ کر ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ، جس کے بعد وہ ویل چیئر تک محدود ہو گئے

انہوں نے کہا کہ ضلع شانگلہ میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ اس جان لیوا کام سے وابستہ ہیں

حسین نے دعویٰ کیا کہ شانگلہ میں کوئلے کی کان میں اسپائنل کارڈ ٹوٹنے کی وجہ سے معذور ہونے والے نوجوانوں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے جبکہ کئی مزدور ہاتھ پاؤں سے محروم یا نابینا ہو چکے ہیں

ان کہا کہ تھا کہ اکثر مزدور پھیپھڑوں کی بیماری میں بھی مبتلا ہیں

انہوں نے بتایا کہ وہ مخیر حضرات اور غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے کئی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے سے معذور مزدوروں کے لیے ویل چیئرز کا بندوبست کر چکے ہیں

حسین نے بتایا کہ معذور ہونے کے بعد انہوں نے گاؤں میں ایک دکان کھول لی ہے اور فارغ وقت میں وہ مقامی بچیوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ آج کل زیادہ تر حادثات درہ آدم خیل کی کوئلے کی کانوں میں پیش آتے ہیں کیونکہ یہ کانیں نئی نئی شروع ہوئی ہیں اور ان میں حفاظتی اقدامات کا فقدان ہے

ضلع شانگلہ میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی آگاہی اور حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیم شانگلہ کوئل مائینز ورکررز ویلفئیر ایسوسی ایشن (سموا) کے جنرل سیکرٹری عابد یار نے بتایا ضلع شانگلہ کے 75فیصد تک مزدور کوئلے کی کان کنی سے وابستہ ہیں

ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جتنی بھی کوئلے کی کانیں ہیں، ان میں شانگلہ کے مزدور کام کرتے ہیں

عابد یار نے کہا کہ شانگلہ کے کان کن مزدوروں کی پہلے کوئی تفصیل موجود نہیں تھی لیکن ان کی تنظیم نے 2017ع سے اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کر دیا ہے

سموا کے جنرل سیکرٹری نے کہا کہ شانگلہ میں اوسطاً سالانہ تین سو مزدور کوئلے کی کانوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور پچاس تک مستقل معذور ہو جاتے ہیں، جس میں اسپائنل کارڈ انجری، گردن کی ہڈی ٹوٹنا ہے

’اس طرح سو تک وہ مزدور شامل ہوتے جن کے ہاتھ یا پاؤں کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ کان کنی سے وابستہ مزدور پچاس سال تک کی عمرمیں ناکارہ ہو جاتے ہیں کیونکہ مائنز میں گیسز اور گرد سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات نہ ہونے سے ان کے پھیپھڑے اور گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

سموا کے جنرل سیکرٹری عابد یار نے کہا کہ شانگلہ زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں پچھلے ستر، اسی سالوں سے لوگ کان کنی سے وابستہ ہیں

انہوں نے کہا کہ شانگلہ کے لوگ پہاڑی اور سخت جان ہوتے ہیں۔ ’کانوں میں کام کرنے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے یہاں تک کہ اسکول کی چٹھیوں میں نوعمر لڑکے بھی یہی کام کرنے لگتے ہیں۔

انہوں نے کہا دو ہفتے پہلے بھی اورکزئی کی کان میں دھماکے سے شانگلے کی تین نوجوان مر گئے تھے، جن میں ایک میٹرک کا طالب علم تھا

عابد یار نے کہا کہ بدقسمتی سے کسی منرل ڈپارٹمنٹ یا لیبر ڈپارٹمنٹ نے شانگلہ کے مرنے والے اور معذور مزدوروں کا ڈیٹا جمع کیا اور نہ ہی کوئی مالی مدد کی

انہوں نے کہا کہ 2020 کی 196 مزدور مر گئے جبکہ 2021 میں 230 مزدور کوئلے کی کان میں ہلاک ہوئے

انہوں نے کہا ’شانگلہ میں مزدوروں کی 30 ہزار سے زائد بیوائیں جبکہ 80 ہزار کے قریب یتیم بچے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اگر کام کے دوران مزدور مر جائے تو کان کا مالک پانچ لاکھ روپے دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاق کے پاس 26.5 ارب روپے ورکرز ویلفیئر فنڈ، جو ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں کوئلے کے فی ٹن کے حساب سے جمع ہوتا ہے، وہ بھی مزدوروں پر خرچ نہیں کیا جاتا

مقامی صحافی فضل ربی نے بتایا کہ کوئلے کی کانوں کے مزدور حادثوں کے علاوہ صوبہ بلوچستان اورسابقہ فاٹا میں اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے علاوہ مائنز تنازعات کا بھی شکار ہوتے ہیں

انہوں نے کہا دیکھا جائے تو اوسطاً ہر مہینے چار سے پانچ مزدوروں کی لاشیں ضلع شانگلہ لائی جاتی ہیں

فضل ربی نے کہا کہ ایک مزدور کو 1500 روپے یومیہ ملتے ہیں

فضل ربی کے مطابق شانگلہ کی یونین کونسل پیر آباد میں سب سے زیادہ مزدور متاثر ہوئے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close