نان ٹیکس گاڑیوں کا نیٹ ورک: گاڑیاں ٹیکس فری زون سے باہر کیسے نکلتی ہیں؟

ویب ڈیسک

صوبہ خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن کا علاقہ خوب صورت نظاروں کے علاوہ سستی گاڑیوں کےحوالے سے بھی مشہور ہے. جن گاڑیوں کی قیمت کروڑوں روپوں میں ہوتی ہے وہ مالاکنڈ میں لاکھوں روپے میں مل جاتی ہیں

تین لاکھ روپے میں آلٹو جبکہ چار سے پانچ لاکھ روپے میں وٹز اور کرولا گاڑی مل جاتی ہے۔ لکسیل، بی ایم ڈبلیو جیسی کئی قیمتی گاڑیاں یہاں چند لاکھ روپے میں مل جاتی ہیں

اس حوالے سے گاڑیوں کے مقامی ڈیلر شیریں حیات خان کہتے ہیں امپورٹڈ گاڑیاں جو دبئی سے اسمگل ہو کر افغانستان کے راستے پاکستان پہنچتی ہیں، وہ ملک کے دوسرے علاقوں میں ملنے والی گاڑیوں سے کئی گنا سستی اور معیار میں بہترین ہیں

انہوں نے بتایا ’یہ گاڑیاں نان کسٹم پیڈ ہوتی ہیں۔ جو گاڑی ملک کے دیگر علاقوں سے بیس لاکھ روپے میں ملتی ہے وہ ان مقامات پر چھ لاکھ روپے تک مل جاتی ہے۔‘

مالاکنڈ میں گاڑیاں سستی کیوں ہیں اور ان پر ٹیکس کیوں نہیں لگتا؟

مالاکنڈ ڈویژن میں گاڑیوں کے سستا ہونے کی بنیادی وجہ ان پر کسٹم ڈیوٹی لاگو نہ ہونا ہے جو کہ وفاقی حکومت نے ایک خصوصی بندوبست کے تحت یہاں پر معاف کیا ہوا ہے

ماہر قانون فرہاد آفریدی نے اس حوالے سے بتایا کہ ’ریاست سوات نے 25 جولائی 1969 کو پاکستان کے ساتھ الحاق کے وقت اس علاقے کو ٹیکس فری زون بنانے کی شرط عائد کی تھی۔‘

’اس کے تحت اس وقت کے والئی سوات اور حکومت پاکستان میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں یہاں ایک سو سال تک کسی بھی قسم کا ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔‘

انہوں نے بتایا ’مالاکنڈ ڈویژن کے علاوہ گلگت بلتستان، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں بھی آرٹیکل 247 کے تحت انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکسٹ میں رعایت حاصل ہے۔‘

’اس رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علاقوں کے تاجر افغانستان سے اچھی حالت میں گاڑیاں کم قیمت پر خرید کر لے آتے ہیں اور پھر مقامی مارکیٹ میں بغیر کسٹم ڈیوٹی ادا کیے ان گاڑیوں کا کاروبار کرتے ہیں۔‘

محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ترجمان مجاہد مہمند کے مطابق ’ایسی گاڑیوں کا پاکستان کے دوسرے علاقوں جہاں کسٹم ڈیوٹی کا نفاذ ہوتا ہے، میں لے جانا غیر قانونی ہے اور یہ گاڑیاں صرف اسی صورت میں وہاں پر فروخت کی جا سکتی ہیں جب ان کی باقاعدہ رجسٹریشن ہو اور تمام ٹیکس ادا کیے جائیں۔‘

نان کسٹم گاڑیاں پاکستان کیسے پہنچتی ہیں؟

جمید خان بھی گزشتہ پندرہ برسوں سےنان کسٹم گاڑیوں کا کاروبار کررہے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر پراڈو، ویگو وی 8، لکسیل اور بی ایم ڈبلیو جیسی بڑی گاڑیوں کی خریدو فروخت کرتے ہیں

ان نے بتایا کہ یہ گاڑیاں جاپان سے دبئی آتی ہیں اور پھر انہیں افغانستان لے آیا جاتا ہے۔
’ان گاڑیوں کا مرکز دبئی ہوتا ہے، وہاں پر جاپان سے گاڑیاں لائی جاتی ہیں، دبئی سے کنٹینرز کے ذریعے ایران اور پھر افغانستان بھجوائی جاتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں چمن کے قریب ویش اور طورخم میں جبکہ پاکستان کے شمالی وزیرستان کا صدر مقام میران شاہ ان گاڑیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، جہاں پر ہزاروں کی تعداد میں تقریباً ہر قسم کی نئی اور پرانی گاڑیاں دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ ری کنڈیشنڈ گاڑیاں بھی یہاں مل جاتی ہیں

شیریں حیات خان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں گاڑیاں خریدنے کے بعد وہاں پر موجود کچھ افراد کو انہیں پاکستان پہنچانے کے لیے کرایہ ادا کیا جاتا ہے جو اپنے رسک پر سرحد کے اطراف مخصوص راستے اور ذرائع استعمال کرتے ہوئے انہیں پاکستان لے آتے ہیں

وہ کہتے ہیں ’ان گاڑیوں کو کرائے پر افغانستان سے ملاکنڈ تک پہنچاتے ہیں، دو تین لاکھ روپے میں چھوٹی گاڑیوں کا کرایہ جن میں آلٹو، وٹز، ایکوا، کرولا لائی جاتی ہیں جبکہ بڑی گاڑیوں کا کرایہ چار سے سات لاکھ ہوتا ہے۔‘

جبکہ ہر گاڑی کا کرایہ اس کی قیمت کے حساب سے ہوتا ہے، جتنی مہنگی گاڑی ہوتی ہے اتنا ہی زیادہ اس کا کرایہ ہوتا ہے

نان کسٹم گاڑیاں ٹیکس فری زون سے باہر کیسے نکلتی ہیں؟

جمید خان کے مطابق اگرچہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ملاکنڈ، قبائلی علاقوں اور دوسرے ٹیکس فری مقامات سے باہر نکلنے پر پابندی ہے اور اس کے لیے بہت سی چیک پوسٹیں بھی قائم کی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں پہنچ جاتی ہیں

’کئی دولت مند، اثر ورسوخ رکھنے والے بااختیار افراد یہ گاڑیاں یہاں سے سستے داموں خرید کر دوسرے شہروں میں لے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ رشوت کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے شہر پہنچ کر وہ کسی دوسری گاڑی کی نمبر پلیٹ لگا کر اسے چلاتے رہتے ہیں۔‘

جمید خان کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے بہت سے تاجر بھی گاڑیاں دوسرے شہروں کے رہائشی گاہکوں کے گھروں تک پہنچانے کی خدمات انجام دیتے ہیں

’قبائلی علاقوں میں ان گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے کئی تاجر یہ گاڑی پاکستان کے کسی بھی کونے میں خریدار کے گھر تک پہنچانے کی ذمہ داری معمولی سے رقم کے عوض لیتے ہیں۔ خریدار کو صرف گاڑی پسند کرنا اور ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ گاڑی چند روز میں ان کے مکان کے باہر کھڑی ملتی ہے۔‘

نان ڈیوٹی گاڑیوں پر ایمنسٹی اسکیم

جمید خان نے بتایا کہ حکومت نے 2012 میں ’نان کسٹم پیڈ‘ گاڑیوں کے لیے ایمنسٹی سکیم شروع کی تھی جس کے تحت 90 ہزار گاڑیوں کی رجسٹریشن کروائی گئی تھی۔
’حال ہی میں ایسی ہی ایک اور سکیم کی اطلاعات آئی ہیں جس کے تحت ہزاروں گاڑیوں کو ریگولرائز کیا جائے گا تاہم ابھی تک اس سکیم کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘

ضم شدہ اضلاع میں ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ

ایڈووکیٹ فرہاد آفریدی نے بتایا کہ 31 مئی 2018 کو وفاق نے آئین میں ترمیم کرکے قبائلی اضلاع کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کردیا جس کے بعد ان اضلاع پر بھی پاکستان کے باقی اضلاع کے قوانین لاگو ہوگئے ہیں

وفاقی حکومت نے مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں خبیر پختونخوا میں ضم ہونے والے نئے اضلاع میں زیر تکمیل اور دیگر ترقیاتی اخراجات کے لیے 152 ارب روپے فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا

ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے انضمام شدہ اضلاع میں سپلائز کے حوالے سے چھوٹ میں پانچ برس کی توسیع دی گئی تھی تاکہ معاشی سرگرمیاں بڑھیں۔
اس نوٹی فیکیشن میں صنعتی خام مال اور پلانٹ و مشینری کی درآمد پر بھی ٹیکس میں چھوٹ کو ان علاقوں تک وسعت دی گئی تھی

اسی طرح این سی پی گاڑیوں کو بھی پانچ سال تک چھوٹ دی گئی۔ یہ مدت پوری ہونے کے بعد ان علاقوں پر بھی وہ تمام ٹیکس اور قوانین لاگو ہوں گے جو پاکستان کے دوسرے علاقوں میں لاگو ہوتے ہیں

فرہاد آفریدی کہتے ہیں ”یہ چھوٹ 30 جون 2023 کو ختم ہو رہی ہے، جس کے بعد یہاں ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کا تعین ہوگا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close