ایودھیا کے ایک سادھو نے بھارت کو ‘ہندو راشٹر’ (ہندو ریاست) قرار دینے کے مقصد کے تحت تاج محل کے اندر دھرم سنسد (ہندو مذہبی اجتماع) کا اعلان کیا ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں نے دعویٰ کیا ہے ہے کہ شہنشاہ شاہ جہاں کا تعمیر کردہ تاج محل دراصل ہندوؤں کا ایک مندر ہے
بھارت میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جس سادھو نے بھارت کو ’ہندو راشٹر‘ قرار دینے کے لیے تاج محل کے اندر ‘دھرم سنسد‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا انہیں عید، یعنی منگل کے روز، تاج محل میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ تاہم حکام نے واضح کیا کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا ہے
پولیس کا کہنا ہے کہ سادھو کو راستے میں ہی روک دیا گیا اور انہیں شہر کے مضافات میں ایک نامعلوم مقام پر لے جایا گیا ہے
بھارتی ذرائع ابلاغ نے ایک مقامی پولیس اہلکار کے حوالے سے بتایا ”ہم نے انہیں حراست میں نہیں لیا ہے۔ ہم نے انہیں تاج محل کی طرف بڑھنے سے روکا کیونکہ انہوں نے وہاں مذہبی سرگرمیاں منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا“
یاد رہے کہ اسی ہفتے ایودھیا سے تعلق رکھنے والی ایک ہندو مذہبی شخصیت جگدگرو پرم ہنس چاریہ کا ایک وڈیو وائرل ہو گیا تھا، جس میں انہوں نے اپنے پیروکاروں سے پانچ مئی کی صبح 10 بجے تاج محل کے مغربی دروازے پر بھگوان شیو کی پوجا کے لیے جمع ہونے کی اپیل کی تھی
انہوں نے دعویٰ کیا کہ تاج محل ‘تیجو مہالیہ’ کے نام سے ایک شیو مندر تھا، جس پر مغلوں نے جھوٹا دعویٰ کر کے اسے تاج محل کے طور پر پیش کیا
واضح رہے کہ بھارت کے قوم پرست اور انتہا پسند ہندو، لال قلعہ، جامع مسجد اور مغلوں کی بہت سی دیگر تعمیر کردہ تاریخی عمارتوں کو، قدیم ہندوؤں کی املاک بتا کر، ان پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں
اس سے قبل مذکورہ سادھو نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ چونکہ انہوں نے گیرواں رنگ کا لباس پہن رکھا تھا اس لیے انہیں تاج محل کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اس پر جب احتجاج ہوا، تو حکام نے، "مجھ سے معذرت کرتے ہوئے تاج محل کا دوبارہ دورہ کرنے کی دعوت دی۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب، "میں 5 مئی کو تاج محل پہنچ کر، وہاں شیو کی مورتی نصب کروں گا اور سناتن دھرم کی سنسد کے دوران بھارت کو ‘ہندو راشٹر‘ قرار دیا جائے گا۔”
انہوں نے کہا ”تمام سرگرمیاں آئین کے دائرہ کار میں ہوں گی‘‘
بھارت کا آئین ایک سیکولر جمہوریت ہونے کا دعوی کرتا ہے، تاہم قوم پرست حکمراں جماعت بی جے پی کی مسلم دشمن موقف رکھنے والی مربی ہندو تنظیم آر ایس ایس بھارت کو ایک ہندو ملک بنانے کی تحریک چلاتی رہی ہے اور بی جے پی بھی اس کی حمایت کرتی ہے
ادھر آگرہ میں محکمہ آثار قدیمہ کے ایک سینیئر افسر راج کمار پٹیل نے سادھو کے وائرل ہونے والی وڈیو میں کیے گئے دعوؤں کی نفی کی ہے اور واضح کیا کہ سادھو کو تاج محل میں داخل ہونے سے اس لیے نہیں روکا گیا تھا کہ انہوں نے زعفرانی رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا
پٹیل نے بتایا کہ سادھو کو دوبارہ تاج محل کا دورہ کرنے کے لیے اس لیے کہا گیا، تاکہ اگر ان کے ساتھ کوئی تفریق برتی گئی ہو، تو اس کا ازالہ کیا جا سکے
ہندو قوم پرستوں کے دعوے
بھارت میں سن 2014 میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارتی تاریخ کو مسخ کرنے کی رفتار تیز ہوئی ہے اور ملک کے بہت سے تاریخی شہروں کے نام تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں آئے دن یہ مطالبات ہوتے رہتے ہیں کہ اکبر روڈ، ہمایوں یا مغلوں کے نام پر دیگر شاہ راہوں کے نام بھی تبدیل کیے جائیں۔ ہندو تنظیمیں مسلم حکمرانوں کو حملہ آور بتا کر انہیں ہندوؤں کا دشمن ثابت کرنے کی کوششیں کرتی رہتی ہیں
اب بہت سے اسکولوں میں تاریخ کے نصاب میں یہ تبدیلی بھی کی جا چکی ہے کہ ہلدی گھٹی کی تاریخی جنگ میں مغل شہنشاہ اکبر نے مہا رانا پرتاپ کو نہیں بلکہ پرتاپ نے اکبر کو شکست دی تھی۔ اس سے پہلے تک یہ تعلیم دی جاتی تھی کہ مغل شہنشاہ اکبر نے اسی فتح کے بعد ایک عظیم ہندوستان کی بنیاد ڈالی تھی
حال ہی میں حکومت نے سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں کے قومی سطح کے، سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن’ (سی بی ایس ای) کے دسویں جماعت کی نصاب سے فیض احمد فیض کے اشعار کو بھی حذف کر دیا ہے
سی بی ایس ای کی دسویں جماعت کے لیے حکومتی ادارہ این سی ای آر ٹی کی طرف سے شائع کردہ سماجیات کی نصابی کتاب میں ”مذہب، فرقہ پرستی اور سیاست‘‘ کے عنوان کے تحت مضمون میں فیض احمد فیض کی دو نظموں کے اشعار اور ان کے انگریزی ترجمے شامل تھے۔ طلبہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہ مضمون پڑھ رہے تھے۔ لیکن نئے تعلیمی نصاب میں ان کو شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے.