تین مشہور جاپانی بندروں کی کہانی تو آپ نے سنی ہوگی۔ نہیں سنی تو تصویر ضرور دیکھی ہوگی۔ ایک بندر نے منھ پر، دوسرے نے کانوں پر اور تیسرے نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی نہ بُرا کہو، نہ بُرا سنو، نہ بُرا دیکھو
جب بھی میں کوئی ملّی نغمہ سنتا یا دیکھتا ہوں تو مجھے یہ تینوں یاد آ جاتے ہیں
کسان کھیتوں میں جھک سفید کپڑے پہنے ناچ رہا ہے، مزدور سلیقے سے بال سنوارے خوشی خوشی خراد مشین چلا رہا ہے، کلکاریاں مارتے بچے تالاب میں چھلانگ لگا رہے ہیں، بچیاں کڑک یونیفارم پہنے ترو تازہ چہرے لیے گاؤں کے نویں نکور اسکول میں داخل ہو رہی ہیں
جیل کے صدر دروازے پر قومی جھنڈا لہرا رہا ہے اور قیدی قطار میں کھڑے جانے کس خوشی میں ٹھمک رہے ہیں۔ چاق و چوبند دستے مارچ پاسٹ کر رہے ہیں۔ ایک منظم ہجوم کے ہاتھ میں سوائے قومی پرچم کے کچھ نہیں
پنکھے چل رہے ہیں، ٹیوب ویل سے موٹی موٹی دھاریں نکل رہی ہیں، پائلٹ ہنستے ہنستے جہاز کو ایڑ لگا رہے ہیں، راہگیر کیمرے کی جانب دیکھتے ہوئے چمکتی بتیسی نکوس رہے ہیں۔ اور اس بیچ نجات دھندہ کا دمکتا چہرہ بھی بار بار درشا رہا ہے
سونے جیسی زمین، چاندی جیسے لوگ، چاروں طرف خوشحالی اور مسرتوں کا سیلاب۔ یہ ہے اصلی وطن…
میں جب بھی ایسے ملّی نغمات سنتا یا دیکھتا ہوں تو مجھے ہر اس دانشور، سیاست داں، لکھاری، ٹی وی چینل، اخبار، صحافی، اینکر اور تجزیہ نگار سے بیزاری سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ جس کے خیال میں کچھ اچھا نہیں ہو رہا
وہ ہمیں بس یہی بتا رہا ہے کہ جیلوں کی حالت بری ہے، عدالتیں کچھوا چھوڑ گونگھے کی رفتار سے بھی نہیں چل پا رہیں، جس کے پاس اثر و رسوخ یا پیسہ ہے قانون اس کا غلام ہے، آئین خود بے آئین ہے
مہنگائی سے عام آدمی پس رہا ہے، بے روزگاروں کی فوج بولائی بولائی پھر رہی ہے، سڑکیں ادھڑی ہوئی ہیں، نالیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، اسکولوں کی چھت جھک چکی ہے، ہسپتال میں مریض برآمدوں میں پڑے ہیں، سگنلز پر بھکاریوں کی فوج ہے، بچیاں چھوڑ اب تو لاشیں بھی ریپ سے محفوظ نہیں
نوجوان ملک چھوڑنا چاہ رہے ہیں، رشوت کے نرخ بڑھ گئے ہیں، ہر دوکان دار کی اپنی بادشاہت اور اپنا پاکستان ہے۔شہری دن دھاڑے غائب ہو جاتے ہیں اور ان میں سے بہت کم صحیح سلامت چہرے کے ساتھ لوٹتے ہیں وغیرہ وغیرہ…
کیا فائدہ یہ سب جھوٹ پھیلانے کا۔ ایسا کچھ بھی تو نہیں۔ یہ سب ڈیپ فیک ہے۔ سچائی دیکھنی ہے تو ملی نغمے کے مناظر دیکھیے تاکہ آپ کو حقیقی باتصویر رنگین پاکستان دیکھنا نصیب ہو۔ مٹھی بھر قنوطیوں کی صحبت میں بیٹھنے، انھیں سننے اور پڑھنے سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی صرف رجسٹرڈ گیت کاروں کے تصدیق شدہ ملی نغمے دیکھے اور گنگنائے
خود بھی خوش رہے اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرے۔ اس تناظر میں مجھے شہزاد رائے کا نیا ملی وائرل گیت ’واجا‘ بہت پسند آیا۔ اس کے بول بہت ہی امید بھرے اور شاندار ہیں
دیکھ کہ کالی رات ختم،
تجھ کو بھٹکانے والے حالات ختم
کیا تیری کیا میری، اس دھرتی کی خاطر ہر ذات ختم
جس بات پے تو ناراض ہے، آج کر دیں وہ بات ختم
امبر کو چھونے چلا میرا بلوچستان
یہ میرا پاکستان ہے، یہ تیرا بلوچستان
آن بان جان شان…
اگر کراچی سے جیونی تک کی ساحلی سڑک پر ٹھنڈی گاڑی میں ایک سو بیس کی اسپیڈ پر سبز سمندر سے اٹھکیلیاں کرتے کرتے سینڈوچ کھاتے کھاتے راہ میں رکے بغیر گوادر پہنچ جائیں تو بصارت و بصیرت کو ملنے والی تراوٹ ویسے ہی حسین نغمے میں ڈھل جاتی ہے
جس کے فریم میں ہر بلوچستانی بساط بھر مسکرا رہا ہے۔ یہی سچ ہے باقی جھوٹ ہے، پروپیگنڈہ ہے، سازش ہے…
میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں،
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہو گئی
بے شعور لوگ ہیں،
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
جن کو تھا زباں پے ناز
چپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید لوگ تیرے راج میں
تیرے ہی وجود سے ملک کی نجات ہے
تو ہے مہرِ صبحِ نو
تیرے بعد رات ہے
(حبیب جالب)
بشکریہ: بی بی سی اردو