’ممکن ہے نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل ہی انتخابات کروا دیے جائیں‘ خواجہ آصف

نیوز ڈیسک

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ رواں برس پاکستان کی بری فوج کے نئے سربراہ کی تعیناتی سے قبل ہی ملک میں عام انتخابات کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اُنہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے پہلے ہم الیکشن ہی کروا دیں۔ نومبر سے پہلے۔ تب نگران حکومت ہوگی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے نومبر سے پہلے نگران حکومت چلی جائے اور نئی حکومت آ جائے

اس سوال پر کہ نگران حکومت سے پہلے کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دی جا سکتی ہے؟ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ خود ہی اعلان کر چکے ہیں کہ انہیں مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہیے

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ’میں اس اعلان کو خوش آئند سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے قیاس آرائیوں کے دروازے بند ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے جنرل راحیل شریف نے بھی کبھی مدت ملازمت میں توسیع کا براہ راست یا بالواسطہ مطالبہ نہیں کیا تھا‘

خواجہ آصف کا یہ بھی کہنا تھا ملک میں فوجی سربراہ کی تعیناتی کا طریقہ کار اب ’انسٹی ٹیوشنلائز‘ ہونا چاہیے جیسا کہ عدلیہ میں ہوتا ہے

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے کو زیر بحث لانے کی بجائے طریقہ کار سو فیصد میرٹ پر ہو۔ یہ ایک بڑا اور انتہائی اہم معاملہ ہے، اس کو سیاسی بحث کا موضوع ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔‘

خواجہ آصف نے انٹرویو کے دوران اس تاثر پر بھی بات کی کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہی وہ بنیادی معاملہ تھا جو عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کی وجہ بنا

انھوں نے سابق وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’اگلے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر عمران خان اپنی مرضی کرنا چاہتے تھے‘

تو کیا یہی ’ذاتی مرضی‘ روکنے کے لیے یہ تمام سرگرمی ہوئی؟ اس پر خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ وزیر اعظم کی صوابدید ہے کہ فوج کے بھیجے ناموں میں سے کسی کو منتخب کر لے

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ 2013ع اور پھر 2016ع میں دو آرمی چیفس کی تعیناتی ہوئی۔ اور اس وقت کے وزیر اعظم نے میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کیے اور فوج کی جانب سے ریکمنڈیشن کا مکمل احترام کیا۔

’نواز شریف، جنرل راحیل شریف کو نہیں جانتے تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کے وقت انھیں وزیراعظم اس لیے جانتے تھے کہ وہ راولپنڈی کور کمانڈ کر رہے تھے۔ مگر دونوں مرتبہ ادارے کی تجویز کا احترام کیا گیا۔ اور اسی دائرے میں رہتے ہوئے دونوں سربراہان تعینات کیے گئے۔ اب بھی اسی طرح میرٹ پر تعیناتی ہوگی۔‘

اس سوال پر کہ مسلم لیگ ن لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر الزامات لگاتی رہی ہے، تو کیا اسی جماعت کے وزیراعظم انہیں آرمی چیف کے طور پر تعینات کر سکتے ہیں، خواجہ آصف کا کہنا تھا ’اگر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام سینیارٹی لسٹ میں ہوا تو بالکل غور کیا جائے گا۔ ان سب ناموں پر غور ہوگا، جو کہ اس فہرست میں موجود ہوں گے‘

واضح رہے کہ مسلم لیگ نواز کے رہنما، خصوصاً مریم نواز، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر سیاست میں مداخلت اور عمران خان کی حکومت کی حمایت کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ یہ الزام انہوں نے گذشتہ ہفتے بھی اپنے ایک جلسے کے دوران دہرایا تھا

نون لیگ کے اسی بیانیے سے متعلق جب خواجہ آصف سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاست اس چیز میں گھسیٹی گئی یا ہمارے ماضی کے تجربات میں ریڈ لائنز مکس ہو گئیں

انہوں نے کہا ”لیکن گذشتہ ماہ جو ہوا ہے وہ اس بات کا موقع دیتا ہے کہ ہم اب ایک نئے باب کا آغاز کریں“

انھوں نے مزید کہا کہ ’فوج کا ایک تقدس ہے اور یہ پبلک ڈومین میں موضوع بحث نہیں بننا چاہیے اور وہ پارٹی کی سطح پر یہ کہتے ہیں کہ نام نہ لیے جائیں‘

خیال رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس وقت الیون کور کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں، جبکہ اس سے پہلے وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر تعینات تھے۔ آئی ایس آئی میں اپنی تعیناتی کے دو ادوار کے دوران ان کا نام موضوع بحث رہا اور انہیں خاص طور پر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے ایک متنازع شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا

سابق وزیراعظم عمران خان نے ان کے آئی ایس آئی سے تبادلے کے موقع پر نوٹیفکیشن جاری کرنے سے انکار کیا تھا۔ جی ایچ کیو اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان عمران خان کے دور حکومت کا یہ تنازع عوامی سطح پر بھی زیر بحث آیا. عمران خان نے کچھ ہفتے بعد ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن تو جاری کر دیا، لیکن فوجی قیادت اور عمران خان کے درمیان خلش اور خلیج بڑھتی چلی گئی

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سابق وزیر اعظم عمران کی مقبولیت میں اضافے اور مسلم لیگ ن کی جانب سے عوامی سطح پر ان کا مقابلہ کرنے میں مشکلات پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیانیے کی اس جنگ میں ان کی جماعت کی شکست کا کوئی امکان نہیں

انٹرویو کے دوران خواجہ آصف نے یہ تو تسلیم کیا کہ عمران خان ایک مقبول عوامی لیڈر ہیں لیکن انہوں نے یہ ماننے سے انکار کیا کہ انہوں نے کچھ کارکردگی بھی دکھائی ہے

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ’شرمناک‘ ہے

انہوں نے کہا کہ ”میرے خیال میں عمران خان کا فوج مخالف بیانیہ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا اور خود ہی ختم ہو جائے گا“

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ وہ فوجی ترجمان کے اس بیان سے اتفاق کرتے ہیں کہ فوج پبلک پلیٹ فارمز پر اپنا دفاع خود نہیں کر سکتی

انہوں نے کہا ’میرے خیال میں یہ بالکل درست ہے کہ فوج عوامی، سیاسی پلیٹ فارمز، پارلیمان اور میڈیا میں اپنا دفاع خود نہیں کر سکتی کیونکہ اس ادارے کا اپنا ایک تقدس ہے۔ اور بار بار اس قسم کے بیانات سے اس تقدس اور احترام میں کچھ سمجھوتہ ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ فوج کے لیے کچھ اسرار و احترام کی فضا ہونی چاہے۔‘

خواجہ آصف نے کہا کہ وہ خود بطور سیاسی ورکر اور وزیر دفاع موجودہ فوج اور عدلیہ مخالف بیانیے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا دفاع کر رہے ہیں اور ان کی حکومت بھی ایسا ہی کرے گی

میر جعفر اور میر صادق کے کرداروں کے حوالے سے سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیانات پر ان کے خلاف قانونی کارروائی سے متعلق بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ وہ ایسی کارروائی اور ایسے معاملات میں قانون پر عمل درآمد کے حق میں ہیں

تاہم ساتھ ہی انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اس سے عمران خان ’سیاسی شہید‘ بن جائیں گے

عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کے اعلان کے بعد یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ خود مریم نواز بھی اعلٰی فوجی افسران کا نام لیتے ہوئے ان پر سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام لگاتی ہیں

اس بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ یہ بالکل درست ہے کہ ان کی جماعت کے رہنما ماضی اور حال ہی میں فوجی افسران کا نام لے رہے ہیں تاہم جس طرح عمران خان فوج پر حملے کر رہے ہیں، ایسا پہلے نہیں ہوا

انہوں نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں عمران خان پیرانوئیڈ ہیں۔ اگر وہ سیاسی طور پر اسمبلی میں کمزور ہو گئے، حلیف انہیں چھوڑ گئے تو اس میں فوج کا کیا قصور ہے؟‘

انہوں نے کہا کہ کسی ایک ادارے کو ہی نہیں بلکہ تمام اداروں کو بھی ماضی کے تمام تجربات اور حادثات سے سیکھنا چاہیے

امریکہ، روس اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکز اب علاقائی ممالک ہونے چاہیں اور بھارت کے علاوہ دیگر تمام ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آنی چاہیے

انھوں نے کہا روس اور یوکرین کی جنگ کے معاملے پر پاکستان کا موقف واضح ہے اور حکومت کی تبدیلی سے اس موقف میں تبدیلی نہیں آئی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close