وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور رہنما پیپلز پارٹی شیری رحمٰن نے ایک طرف دریائے سندھ میں 60 فیصد پانی کی قلت کو ’انتہائی خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے صوبائی آبادی، زراعت اور مویشیوں کو خطرے میں ڈالنے کے متعلق بات کی ہے تو دوسری طرف سندھ کے بیراجوں کو پانی کی شدید قلت کے باوجود انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے پنجاب میں دو متنازع نہروں کو کھولنے کی اجازت دے دی ہے
عام طور پر سی جی لنک کینال کے نام سے مشہور پنجاب میں چشمہ جہلم کینال (نہر) کو منگل کے روز 9 سو 58 کیوسک پانی کے بہاؤ کے ساتھ کھولا گیا اور بدھ کے روز اس کو 2 ہزار کیوسک پانی فراہم کیا گیا ہے، سی جی لنک کینال کی نگرانی واپڈا کرتا ہے
دوسرا کینال تونسہ پنجند (ٹی پی) لنک کینال ہے، جسے کھولا گیا اور اس کے بہاؤ کے لیے 2 ہزار 404 کیوسک پانی کی اجازت دی گئی ہے اور یہ کینال محکمہ آب پاشی پنجاب کی زیر نگرانی میں ہے
محکمہ آب پاشی کے ایک عہدیدار کے مطابق ارسا چیئرمین زاہد جونیجو سی جی کینال کو کھولنے کے خلاف تھے جس کے لیے انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ یہ کینال اس وقت نہیں کھولی جاسکتی کیونکہ تربیلا ڈیم میں پانی ناکافی ہے اور سندھ کی پانی کی ضروریات تاحال مکمل نہیں ہوئیں
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کوٹری بیراج کا بہاؤ بھی سفر کے قریب رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ سی جی لنک کینال کو کھولنے کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ سے اجازت نہیں لی گئی
انہوں نے ارسا چیئرمین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سی جی بین الصوبائی کینال ہے اور اس طرح اس کو نہیں کھولا جا سکتا، یہ کینال اس وقت کھولی جاسکتی ہے جب سندھ کو ضرورت کے مطابق پانی ملے اور سسٹم میں پانی زیادہ ہو جائے
خیال رہے کہ مذکورہ دونوں کینال ہمیشہ سندھ اور ارسا کے درمیان تنازع کی جڑ رہی ہیں، موجودہ صورتحال میں دریائے سندھ میں پانی کے ناکافی بہاؤ کی وجہ سے سندھ کے بیراجوں میں پانی کی شدید قلت ہے، ابتدائی طور پر اور اب بڑی سطح پر خریف کی فصلوں کو صوبے بھر میں بری طرح سے نقصان پہنچا ہے، جس کی وجہ سے کاشتکاری تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے شروع کردیے ہیں
سکھر بیراج کے کنٹرول روم انچارج عزیز سومرو کا کہنا ہے کہ اس وقت سندھ کے تینوں بیراجوں کو 62 فیصد پانی کی قلت کا سامنا ہے، یہ بیراج اپنی سات بڑی نہروں کے ذریعے سندھ کے دائیں اور بائیں کنارے کو پانی فراہم کرتے ہیں
پانی کی تقسیم کے معاہدے 1991 کے مطابق سکھر بیراج کو 39 ہزار 500 کیوسک پانی دینا ہے لیکن اس کے برعکس سکھر بیراج کو 18 ہزار 516 کیوسک پانی مل رہا ہے، جس کی وجہ سے وہاں 53.12 فیصد پانی کی قلت ہے
اسی طرح کوٹڑی بیراج کو بھی اس معاہدے کے تحت 15 ہزار 700 کیوسک پانی فراہم کرنا ہوگا لیکن اس وقت کوٹڑی بیراج کو 4 ہزار 805 کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کوٹڑی بیراج کو 69.4 فیصد پانی کی قلت کا سامنا ہے جبکہ گدو بیراج سے نکلنے والی نہریں تاحال بند ہیں
بدھ کے روز سکھر بیراج کی اہم نہر روہڑی کینال کو 41.6 فیصد پانی کی قلت ریکارڈ ہوئی ہے، شمالی مغربی کینال کو 46.4 فیصد، اور نارا کینال کو 33.6 فیصد پانی کی قلت کا سامنا رہا ہے، اسی طرح کوٹڑی بیراج سے نکلنے والی نہر اکرام واھ کو نیو پھلیلی کے قریب 76.6 ،اولڈ پھلیلی پر 69 فیصد اور کلری بھڑ فیڈر پر 27.5 فیصد پانی کی قلت ہے، یہ قلت مزید اس وقت بڑھے گی جب اولڈ پھلیلی کو پانی کی فراہمی کے لیے 6ماہ تک کھولا جائے گا
محکمہ آبپاشی کے عہدیدار نے کہا ہے کہ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ پنجاب کے محکمہ آپباشی کے ایک انجنیئر ان دنوں گدو بیراج پر موجود ہیں اور وہ اس بات کے ضامن ہوں گے کہ وہاں پانی پہنچ رہا ہے
انہوں نے کہا کہ پانی کے بہاؤ میں ایک اور پریشان کن رجحان یہ ہے 5 مئی کو گدو بیراج میں پانی کا بہاؤ 6 ہزار کیوسک تھا، جو 6 مئی تک تجاوز کرکے 47 ہزار 532 کیوسک اخراج تک پہنچ گیا
ان کے مطابق کہ تونسہ کے نیچے بہاؤ کے چار دن بعد گدو بیراج کے اپ اسٹریم کے بہاؤ میں ہمیشہ بہتری آتی ہے
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں بیراجوں کے درمیان سفر کے اس وقت کو دیکھتے ہوئے، تونسہ بیراج کے نیچے کی طرف بڑھتا ہوا رجحان 8 مئی سے گدو بیراج کے اپ اسٹریم پر ظاہر نہیں ہو رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ 6 اور 11 مئی کے درمیان تونسہ کے نیچے کی طرف 13 ہزار کیوسک سے زیادہ بہاؤ چھوڑا گیا تھا جو کہیں اور چلا گیا ہے کیونکہ 4 مئی سے نیچے کی طرف میں ابتدائی طور پر کمی کے بعد مسلسل اضافہ ہوا ہے
تاہم محکمہ آبپاشی سندھ کے سیکریٹری سہیل قریشی نے بتایا ہے کہ دونوں کینالوں کو کھولنے کا معاملہ قومی اسمبلی کی آبی وسائل پر قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بھی زیر بحث رہا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ سندھ کے محکمہ آبپاشی کے وزیر جام خان شورو نے ان بنیادوں پر اٹھایا تھا کہ جب صوبے میں پانی کا عام بہاؤ نہیں آ رہا تو دونوں کینال کو کھولنے کی اجازت کیوں دی جائے تاہم یہ اجلاس آج بھی جاری رہے گا.