‘ادب اور زبان کی اہمیت، افادیت اور ضرورت’ پر معروضات کا آغاز کرتے ہیں زبان سے۔
زبان کی اہمیت ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس پر سوال ہی نہیں اٹھتا، یہ ایسا ہی ہے جیسے سورج کی افادیت اور ہوا کی ضرورت پر بحث کرنا۔ ہاں، اگر زبان سے یہاں مراد اردو لی جائے، تو اسے سرکار تو کجا ہم گھروں پر بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں
البتہ ادب کا معاملہ اور ہے، بدقسمتی سے ہمارے سماج میں ادب کے بارے میں ایک دوسری رائے بھی پائی جاتی ہے، بلکہ عملاً یہی رائے سبقت رکھتی ہے، چنانچہ ادب کی ضرورت پر بات کرنا ناگزیر بھی ہے اور نوجوانوں کو اس کی طرف مائل کرنا ہمارے بہت سے مسائل کا حل بھی
زبان کی بابت میں سمجھتا ہوں کہ یہ انسان کی اہم ترین ایجاد ہے. الفاظ وہ زبردست آلات ہیں، جنہیں وجود میں لاکر ابن آدم نے خود کو اور اپنے اردگرد کو سمجھنے اور دریافت کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ زبان نے ہی سوال کو جنم دیا، اسی نے خیال کو معنی دیے، اور پھر سوال اور خیال کی مدد سے انسان آگ کھوج اور اوزار تراش کر اپنی زندگی آسان بناتا چلا گیا
یہ ایک نکتہ ہی زبان کی افادیت سمجھانے کے لیے کافی ہے، جو ہمارے سامنے یہ حقیقت واضح کردیتا ہے کہ سوچ، تصور، خیال سب لفظوں ہی میں ڈھل کر اپنا وجود پاتے ہیں۔ گویا زبان ہی کے ذریعے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں، ہم کس کیفیت میں مبتلا ہیں، کس تکلیف سے دوچار ہیں، کون سی خوشی یا راحت ہمیں سرشار کیے ہوئے ہے، زبان اور الفاظ کے بغیر ہم کسی خارجی حقیقت تو کیا اپنے آپ کو بھی نہیں سمجھ سکتے
زبان مرئی و غیر مرئی، حاضر اور پوشیدہ، ٹھوس اور لطیف، ہر شے کو ایک نام دیتی ہے۔ لفظوں کے ذریعے اس کی تعریف متعین کرتی ہے، یوں ہم اشیا کی آگاہی کے قابل ہو پاتے ہیں۔ یہ آگاہی مشترکہ الفاظ کی صورت میں ہمیں ایک دوسرے تک اپنی بات پہنچانے میں مدد دیتی ہے۔ چنانچہ ہمارے پاس الفاظ کا جتنا زیادہ ذخیرہ ہوگا، اتنے ہی زیادہ ہم ابلاغ کی قوت سے مالامال ہوں گے، اور الفاظ کی کمی ہمیں اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گی۔ یعنی علم ہو یا مکالمہ، زبان پر دسترس ہی کے ذریعے ہم سمجھنے اور سمجھانے کا سفر طے کرسکتے ہیں
میں نے زبان کے بارے میں اب تک جو کہا وہ تو صرف اس کی افادیت کا بنیادی پہلو ہے، اس سے آگے تو اس کا طلسم شروع ہوتا ہے، جو کبھی خطیب کی زبان پر، کبھی نثرنگار کی سطروں میں اور کہیں شاعر کے مصرعوں میں اپنے ہوش رُبا کرشمے دکھاتا ہے۔ یہ کرشمے شعر و ادب میں ظہور پذیر ہوتے ہیں
ادب کے باب میں بات کرنے سے پہلے چلیے یہ سوال اٹھائیں کہ ادب کیا ہے، اور کیوں ہے؟
اگر خالصتاً نصابی انداز میں بات کروں تو حوالوں اور اقتباسات کی قطار لگا کر میں اپنے مضمون کو طویل اور پڑھنے والوں کو بیزار کرسکتا ہوں، لیکن اس کے نتیجے میں شاید میرے نوجوان قاری یہ سوچ کر ادب سے مزید دُور ہوجائیں گے کہ جب تعریفیں اتنی مشکل ہیں تو ادب کا پڑھنا کس قدر دشوار ہوگا، چنانچہ ایک نسبتاً جامع اور سادہ تعریف بیان کرکے میں بات آگے بڑھاتا ہوں
‘ادب وہ کلام ہے جو کسی موضوع (یعنی خیال، نکتے، احساس، جذبے، تجربے، مشاہدے یا تاثر وغیرہ) کو ایسے تخلیقی یا فنکارانہ انداز میں پیش کرے، جو بیک وقت ذہن (یا فکر) اور دل (یا جذبات) یا جمالیاتی احساسات کو متاثر اور متحرک کرے’
چلیے اس تعریف کو اور آسان کیے دیتے ہیں۔ ہماری زندگی کا محور ہماری ضروریات اور خواہشات ہوتی ہیں۔ ہمارا سارا سفر انہی کا تعاقب ہے۔ تعلیم کا حصول، ملازمت کی جستجو، کاروبار جمانا، کسی شعبے میں جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کرنا لیکن اس ساری تگ و دو کے بیچ بعض اوقات ایک ایسا جذبہ ہماری قوت، راحت اور ہمت بن جاتا ہے، جسے سودوزیاں کی بولی میں صرف بے سود قرار دیا جاتا ہے اور یہ دو اور دو، چار کی بھاشا کی کسی گنتی میں نہیں آتا۔ نام کیا لوں، اس کے ذکر سے اٹھتی خوشبو ہی اس کا تعارف ہے، جی ہاں محبت وہ جذبہ ہے جو ہمیں نکھار سنوار دیتا ہے اور ہمیں جینے کا حوصلہ اور امنگ عطا کرتا ہے، گویا محبت کی افادیت یہ ہے کہ وہ ہمیں ہر ضرورت پوری کرنے اور ہر افادیت کے حصول کے لیے تیار کردیتی ہے
اور ادب تو سرتاپا محبت ہے۔ زبان کی ضرورت سے ماورا ہوکر اس سے عشق، انسان سے پیار، دھرتی سے لگاﺅ جیسے جذبوں سے اس کا خمیر اٹھتا ہے۔ سو یہ دلوں میں محبت پروان چڑھاتا اور انہیں نرم کرتا ہے۔ ادب کا ایک یہ عمل ہی اس کے جواز کے لیے کافی ہے۔ یہاں پھر ایک سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ ادب یہ فریضہ کیسے ادا کرتا ہے اور اس کے پاس کیا گیڈرسنگی ہے کہ یہ دلوں کو موم کرکے رکھ دیتا ہے
دراصل ہم اپنے اردگرد موجود بہت سے انسانوں سے محض اس لیے نفرت کرتے، ان کا مذاق اڑاتے اور ان سے چِڑتے ہیں کہ ہم ان کے ظاہر ہی سے واقف ہوتے ہیں اور سامنے نظر آنے والے کردار اور رویے ہی کی بنیاد پر ان سے اپنے تعلق اور ان کی جانب اپنے طرزِ عمل کا تعین کرتے ہیں، لیکن جب ناولوں اور افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ایسے ہی کرداروں سے سابقہ پڑتا ہے اور ہمارے سامنے ان کے انسانی پہلو آتے ہیں، ہمیں ان کے کردار اور رویوں کے پس منظر سے آشنائی ہوتی ہے، تو ہمارا فہم انہیں بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے اور درمیان سے کم از کم کدورت کے پردے ہٹ جاتے ہیں
آپ سعادت حسن منٹو کے افسانے پڑھتے ہوئے اسی تجربے سے ہمکنار ہوتے ہیں، عورت اور مرد کے بدنام ترین روپ، جن کی پہچان مکر، فریب، لالچ، خود غرضی کے سوا کچھ نہیں، انہیں ہم بڑی حیرت سے ایثار، ہمدردی کرتے اور سچی محبت میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ یوں ہم انسان کو یک رُخا اور ساکت و جامد سمجھنے کے بجائے اس کی پہلودار شخصیت سے واقف ہوتے اور یہ جان پاتے ہیں کہ حالات کے ہاتھوں سیاہی میں لتھڑ جانے والے یہ وجود انسانیت کے دمکتے رنگوں سے محروم نہیں کیے جاسکے۔ اس حقیقت کا ادراک انسان اور انسانیت پر ہمارا اعتماد بڑھاتا ہے
انسان کو سمجھنے کے ساتھ ادب زندگی کی گتھیاں سلجھانے اور اس کے رازوں سے نقاب اٹھانے میں بھی ہماری معاونت کرتا ہے۔ سچا ادب حقیقی زندگی کا عکاس ہوتا ہے، اس کی کہانی، کردار، واقعات، الجھنیں، مسائل، سوالات میں سے کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں ہم سے متعلق ہوجاتا ہے، کوئی افسانہ پڑھتے پڑھتے، کسی ناول کی سطروں کی مسافرت کرتے، کہیں نظم و غزل کے مصرعوں میں ہم اپنے آپ، خود سے سروکار رکھتے واقعات، اپنے اطراف کے حالات اور اپنی ذات کا کوئی رخ پاکر چونک اٹھتے ہیں، اور آس پاس اور اپنی زندگی سے متعلق ہماری تفہیم گہری اور وسیع ہوجاتی ہے
ادب اپنے کینوس پر سیاہ اور سفید تصویریں بنا کر فیصلہ نہیں سناتا، یہ صحیح اور غلط کی بحث میں نہیں پڑتا، اسے نیکی اور بدی کی تفریق سے کچھ لینا دینا نہیں، یہ تو زندگی کی سطح کو چیرتا ہوا اس کی تہہ میں اتر کر یہ خبر لاتا ہے کہ سطح پر بنتے بھنور اور بلبلے کیوں وجود میں آتے ہیں، لیکن یہ سب بیان کرنے کے لیے وہ نہ کسی سائنسدان کی طرح مقالے کی صورت میں ڈھلتا ہے نہ ہی نیشنل جیوگرافک کی کمنٹری کی شکل اختیار کرتا ہے
وہ مناظر کو جوں کا توں ان کے سارے محرکات سمیت آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ ادیب زندگی کی پیچیدگیوں، الجھنوں، ناہمواریوں اور بے قاعدگیوں کو موضوع بناتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ الجھاوے اور پیچیدگیاں کسی جنگجو، کسی عاشق یا کسی کٹھنائیاں جھیلتے شخص کے پیچ دار روز و شب سے اخذ کیے گئے ہوں، ایک سادہ سی زندگی بسر کرتے اور صبح 9 بجے دفتر پہنچ کر شام 5 بجے لوٹ آنے، گھر آکر ٹی وی کے سامنے دھر جانے اور ہر اتوار کو سجی سنوری بیوی کے ساتھ پورے جوش و خروش سے سسرال جانے والے شخص کے ماجرے میں بھی کوئی ایسی ان ہونی ہوسکتی ہے جو اسے کہانی کر ڈالے
کرشن چندر نے تو اس کالو بھنگی کے سپاٹ جیون میں بھی انوکھاپن تلاش کرلیا، جو بے چارہ ٹی وی اور بیوی سے بھی محروم تھا۔ میں اس تحریر میں صرف اردو کے ادیبوں کی مثالیں دے رہا ہوں، آپ چاہیں تو اسے میرا غیر ملکی ادب سے نابلد ہونا قرار دے لیں، لیکن درحقیقت یہ نوجوانوں کو اردو ادب کے قریب لانے کی میری گہری سازش ہے
تو صاحب! زندگی کی کہانیاں سامنے لانے کی دُھن اور جستجو میں ادیب انسانی نفسیات کے کونوں کھدروں میں بھی جاگھستا ہے اور انسانی شخصیت اور کردار کی اندھیری گلیوں میں بھی جانکلتا ہے۔ بحیثیت قاری ہم اس کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ان گوشوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں، اس طرح ہمارے شعور کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے اور ہماری نظر زندگی کی بہت سی باریکیوں کو دیکھنے کے قابل ہوتی جاتی ہے
تاریخ سے ناآشنائی یا اسے فراموش کردینے کی مذمت میں ہم بہت سی وعیدیں اور ڈراوے سُنتے ہیں، لیکن بعض اوقات تاریخ کا مطالعہ ہمیں نفرت، انتقام، جانب داری کی طرف مائل کردیتا ہے، کبھی یوں ہوتا ہے کہ رِستے گھاﺅ سی حقیقتوں کو لفظوں کی جادوگری سے یوں خوش نما بنایا جاتا ہے کہ بھڑکتی آگ چنار کا خوبصورت جنگل بن جاتی ہے ‘عصمتوں کی قربانی’ اور ‘شہدا کے لہو سے گلزار ہوتی زمین’ جیسے فقرے، محاورے اور اصطلاحات اسی معصومانہ سفاکی کی مثالیں ہیں، مگر ادب حقائق سے یہ کھلواڑ نہیں کرتا۔ وہ ہولناک واقعات کو پوری سچائی اور اس درد کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ پڑھنے والا ان کے دہرائے جانے کے تصور سے بھی کانپ اٹھتا ہے
منٹو کے ‘سیاہ حاشیے’ اور شہاب کے ‘یاخدا’ میں ہمیں کسی تبصرے کے بغیر اسی درد کی لہر ملتی ہے، جو ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ دوسری طرف ادب ان زیریں لہروں کے سکوت اور مدوجزر کو تصویر کرتا ہے جن کا تذکرہ تواریخ کے حاشیوں میں بھی نہیں ہوتا، حالانکہ تاریخ کے نتیجہ خیز واقعات انہی لہروں کے اتار چڑھاﺅ سے جنم لیتے ہیں۔ یہ ادب کی وہ جہت ہے جو ہمیں ماضی کی کھوئی ہوئی یا چھپا دی جانے والی کڑیوں کو جوڑ کر تاریخ کی زیادہ واضح تصویر بنانے میں مدد دیتی ہے
چونکہ ‘آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا’ اس لیے ہم آدم زادوں کو انسان بننے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اس مقصد کے لیے والدین اور اساتذہ ہی کافی نہیں، بلکہ کبھی کبھی تو ہم جو کچھ ان سے سیکھتے ہیں وہ ہمارے انسان بننے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ادب کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ ہماری تہذیب کرتا ہے، ہماری نظر اور دل کو وسعت دیتا ہے، ہمارے رویوں کو معتدل بناتا ہے، ہماری روح اور فکر کو بالیدگی عطا کرتا ہے۔ گویا ادب کا مطالعہ ہمیں آدمی سے انسان، اور انسان سے ایک بہتر انسان میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ ہمیں سوچنے اور سوال اٹھانے کا خوگر بناتا ہے، یہ ہمیں کالے اور سفید کے درمیان سرمئی رنگ دیکھنے کی صلاحیت دیتا ہے
ہمارے مسائل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بقول جون ایلیا، ‘بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سُنی گئی’۔ جب ذخیرہ الفاظ محدود اور اپنی بات کہنے کا ڈھنگ نہ ہو تو نہ کہہ پانے کا کرب اشتعال کا عفریت بن کر خود کو بھی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی چباتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آپ گالیاں دیتے سیاستدانوں، دہشت ہی کو ذریعہ ابلاغ سمجھنے والوں اور اپنے مافی الضمیر کی تلاش میں ہکلاتے عام سے افراد میں ایک ہی قدر مشترک پائیں گے، یہ کتاب اور ادب سے کوسوں دُور ہیں۔ یہ ادب کی قربت ہے جو ہمیں اظہار کا سلیقہ دیتی ہے، ہمارے دامن لفظوں سے بھر دیتی ہے اور ہم الفاظ کو صحیح جگہ اور صحیح طور پر برتنے کا گُر سیکھ جاتے ہیں
یہ نکتہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ زبان ادب کی گِرہیں کھولتی ہے اور ادب زبان کے اسرار و رموز کے در وا کرتا ہے
ادب کی ساری افادیت اپنی جگہ، مگر یہ حقیقت جان لیجیے کہ اس سے صرف فائدے کے لیے تعلق جوڑ کر ہم کچھ حاصل نہیں کرپاتے، ادب سے ناتا تو عشق کی طرح ہونا چاہیے، جو بن مانگے اور بن چاہے ہمیں جانے کیا کچھ دان کر دیتا ہے.
بشکریہ: ڈان نیوز