گینگ ریپ کے بعد دہلی کے بھرے شہر میں خاتون کو سڑکوں پر پھرایا گیا…اس حیوانیت کی وجہ آخر کیا تھی؟

ویب ڈیسک

نئی دہلی – بھارت میں ایک جوان ماں کے اغوا اور پھر گینگ ریپ کے بعد حیوان نما ملزمان نے اسے دن دہاڑے ملک کے دارالحکومت نئی دہلی کی سڑکوں پر گھمایا.. الزام ہے کہ خاتون کا سر منڈوا کر، چہرے پر سیاہی مل کر اور جوتوں کا ہار پہنا کر سڑک پر تماشا بنایا گیا ہے۔ متاثرہ لڑکی کی عمر اکیس سال بتائی جاتی ہے

انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس سب میں متعدد خواتین بھی شامل تھیں، پولیس نے واقعے کے بعد گیارہ مشتبہ ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے

دہلی پولیس نے بتایا کہ ”ایف آئی آر میں گیارہ لوگوں کو نامزد کیا گیا اور گرفتار ہونے والوں میں نو خواتین بھی شامل ہیں“

اس نئے واقعے کو بھارت میں خواتین کے خلاف انتہائی نوعیت کے جنسی جرائم کی تازہ ترین مثال قرار دیا جا رہا ہے، جس نے بھارت میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے رونگٹے کھڑے کر دینے والے کئی سوالات کو جنم دیا ہے. اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ کسی دور دراز کے پسماندہ علاقے میں نہیں، بلکہ ملک کے دارالحکومت نئی دہلی کی سڑکوں پر کھل عام پیش آیا

نئی دہلی کے خواتین کے لیے کمیشن اور ریاستی وزیر اعلیٰ نے بھی اس جرم کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی شرمناک قرار دیا ہے

اس واقعے کی بھارت میں سوشل میڈیا پر فوٹیج بھی گردش کر رہی ہے، جس میں متاثرہ خاتون کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وڈیو کلپ میں دکھائی دیتا ہے کہ اس جرم کا نشانہ بننے والی خاتون کے چہرے پر سیاہی مل دی گئی تھی اور اس کے بال بھی کاٹ دیے گئے تھے

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اس وڈیو فوٹیج میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اس خاتون کو نئی دہلی کی سڑکوں پر دھکے دیتے ہوئے کئی خواتین اس کی تذلیل کر رہی تھیں اور دیکھنے والے راہ گیروں میں سے بہت سے نہ صرف خوشی کا اظہار کر رہے تھے، بلکہ اپنے اپنے موبائل فونز کے ذریعے اس واقعے کی وڈیوز بھی بنا رہے تھے

بھارت کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسے ملک میں اور کیا توقع کی جا سکتی ہے، جہاں پاکستان سے شکست پر ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی کی نو ماہ کی بچی کو ریپ کی دھمکی دی جائے

نئی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس آر ستیاسندرم نے بتایا کہ یہ واقعہ بدھ چھبیس جنوری کے روز دہلی کے مشرقی حصے کے علاقے شاہدرہ میں پیش آیا، جو چند ہمسایوں کے مابین دشمنی کا نتیجہ تھا

آر ستیاسندرم نے اے ایف پی کو بتایا، ”گیارہ مشتبہ ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن میں کئی خواتین اور دو نابالغ ملزمان بھی شامل ہیں۔ ان سب کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے اور یڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس واقعے کے مرتکب ملزمان میں خواتین ہی پیش پیش تھیں۔“

بھارتی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق متاثرہ خاتون ایک اکیس سالہ شادی شدہ عورت ہے، جس کے ساتھ ایک سولہ سالہ لڑکا تعلقات قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس خاتون کی طرف سے انکار پر اس لڑکے نے مبینہ طور پر ایک چلتی ہوئی ریل گاڑی کے آگے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی تھی

خود کشی کرنے والا سولہ سالہ لڑکا انہی ملزمان کا رشتے دار تھا، جو اس خاتون کے خلاف دو روز قبل کیے جانے والے مبینہ جرائم کے مرتکب ہوئے

اس واقعے کی اکیس سالہ متاثرہ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ اسے اس جرم کا ارتکاب کرنے والے خاندان کے افراد نے پہلے اغوا کیا، پھر کئی مردوں اور نابالغ لڑکوں نے اس کی عصمت دری کی. جب کہ اس دوران اس خاندان کی عورتیں ان مردوں کو اشتعال دلاتی رہی تھیں

خاتون کے بیان کے مطابق، ”بعد ازاں اسے لاٹھیوں سے پیٹا گیا اور پھر نئی دہلی کی سڑکوں پر پھرایا گیا“

متاثرہ خاتون کی بہن نے بتایا کہ اُس لڑکے کے گھر کے لوگ اپنے بیٹے کی موت کا ذمہ دار ان کی بہن کو ٹھہراتے تھے

لڑکی کی چھوٹی بہن نے کہا کہ ان کی بہن کو گزشتہ سال نومبر سے ڈرایا اور ہراساں کیا جا رہا تھا۔ نومبر میں ہی ایک ملزم کے بیٹے نے ریلوے ٹریک پر جا کر خودکشی کر لی تھی جب ان کی بہن نے مبینہ طور پر اسے ٹھکرا دیا تھا

پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق لڑکے کے گھر والوں نے مبینہ طور پر بدلہ لینے کی قسم کھائی تھی

متاثرہ لڑکی کی بہن نے بتایا کہ بدھ کو ان کی بہن انہیں گیہوں دینے آ رہی تھیں اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ کچھ لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ”کچھ کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں اور ایک عورت کے ہاتھ میں قینچی بھی تھی“

انہوں نے بتایا کہ جب وہ ان کے گھر پہنچی اور انہیں باہر سے آواز لگائی تبھی ان کے سامنے ہی ان کی بہن کو زبردستی ایک آٹو رکشا میں اغوا کر لیا گیا

انہوں نے بتایا کہ ’انہوں نے میرا موبائل فون چھین لیا تاکہ میں اس کی اطلاع پولیس کو نہ دے سکوں۔ انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے میری بہن کو اغوا کر لیا۔ گاڑی کے اندر انہوں نے میری بہن کے بال کاٹنا شروع کر دیے۔ انہیں ایک گھر میں لے جا کر اندر سے گھر کو تالا لگا دیا، اس کا سر مونڈ دیا گیا، اسے بری طرح مارا پیٹا گیا اور میری بہن کے ساتھ غلط کام کیا گیا۔“

انہوں نے بتایا کہ ملزمان نے ان کے بھانجے کو بھی اغوا کیا تھا لیکن وہ کسی طرح اسے چھڑانے میں کامیاب ہو گئیں۔ انھوں نے اپنے بھتیجے کو ایک گھر میں چھپا رکھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے

متاثرہ لڑکی کی بہن نے کہا کہ میری بہن کے ساتھ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو کوئی اس کی مدد کے لیے نہیں آیا، خوف کے سبب کوئی پڑوسی اسے بچانے نہیں آیا

پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں نامزد تمام گیارہ ملزمان کا تعلق شراب کے غیر قانونی کاروبار سے ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والوں میں دو نوجوان بھی شامل ہیں، جن پر ریپ کا الزام ہے

متاثرہ لڑکی کی شادی سنہ 2018 میں ہوئی تھی اور وہ اپنے تین سال کے بیٹے کے ساتھ دلی کے آنند وہار علاقے میں کرائے کے مکان میں رہتی ہیں

ان کی بہن کا کہنا تھا کہ ’ہر مرتبہ جب بھی وہ دھمکیاں دیتے تھے، وہ پولیس کو مطلع کرتی تھیں اور یہ معاملہ باہمی رضامندی سے حل ہو جاتا تھا لیکن کسی کو امید نہیں تھی کہ میری بہن پر کھلے عام ایسا حملہ کیا جائے گا۔‘

ان بہنوں کے والد فالج کا شکار ہیں اور اکثر بیمار رہتے ہیں جبکہ والدہ کا انتقال 2020 میں دل کا دورہ پڑنے سے ہو گیا تھا۔ تب سے گھر کی تمام ذمہ داریاں بڑی بہن پر آ گئی تھیں

متاثرہ لڑکی کے والد نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ میری بیٹی کی شادی کے وقت کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا، پچھلے ایک سال سے وہ اسے ہراساں کر رہے تھے، وہ مجھے اور میری بیٹیوں کو دھمکیاں دے رہے تھے لیکن میں کیا کر سکتا تھا۔ بستر پر پڑا ہوا تھا

اس گھناؤنے جرم کا نشانہ بننے والی خاتون ایک بچے کی ماں ہے، جس کی عمر دو سال ہے. اس وقت اس کی نفسیاتی مدد کی جا رہی ہے

یہ واقعہ متعلقہ علاقے میں پولیس کے ایک ایسے بوتھ سے بمشکل پچاس میٹر کی دوری پر پیش آیا، جہاں اس وقت کوئی پولیس اہلکار موجود نہیں تھا

واضح رہے کہ بھارت میں نئی دہلی ہی میں 2012ء میں پیش آنے اور ملک بھر میں وسیع تر عوامی مظاہروں کا سبب بن جانے والے ایک طالبہ کے گینگ ریپ اور پھر قتل کے واقعے کے بعد ریپ سے متعلق ملکی قوانین میں ترامیم کر دی گئی تھیں۔ اس کے باوجود سالانہ بنیادوں پر 2020ء میں بھی وہاں ریپ کے کم از کم اٹھائیس ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے تھے

یہ بھارت میں پولیس کو رپورٹ کیے گئے واقعات کی تعداد ہے، جبکہ ماہرین کے مطابق ایسے بہت سے واقعات پولیس کو اس لیے رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے، کیونکہ متاثرہ خواتین اور ان کے خاندانوں کو اپنی بدنامی کا ڈر ہوتا ہے یا پھر ایسے جرائم کے مرتکب اکثر مجرمان سزاؤں سے بچ جاتے ہیں

ریپ کے لیے سزائے موت متعارف کروائی گئی تھی اور خصوصی فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی گئیں تھیں۔ لیکن کیا ان نئے قوانین سے ریپ کی متاثرین کو انصاف ملنا آسان ہوا؟

بھارت میں ریپ کے واقعات عام ہیں، لیکن بعض ریپ کے واقعات اتنے دل دہلانے والے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر بھی شہ سرخیوں میں رہتے ہیں

دلی میں سنہ 2012 میں پیش آنے والے گینگ ریپ کے بعد قوانین میں سختی کی گئی تھی، لیکن اس کے باوجود تب سے پولیس تھانوں میں درج ہونے والی ریپ کی شکایات میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ جنسی استحصال کے بارے میں اب ماضی کی نسبت زیادہ بات ہوتی ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اس کی وجہ قوانین میں اصلاحات ہیں جس میں حکومت کی جانب سے ریپ کے مجرم کو سزائے موت متعارف کروایا جانا اہم ہے

لیکن بعض کا خیال ہے کہ یہ صرف کاغذی اقدامات ہیں، جن میں خواتین سے متعلق معاشرے میں موجود اصل مسائل کو نظر انداز کیا گیا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close