سیاحت اور سیاحتی اخلاقیات

امر گل

سوشل میڈیا کے ڈجیٹل صفحات پر ارضِ پاک کے خوبصورت مناظر کی دلفریب تصاویر دیکھ کر کیسا لگتا ہے آپ کو…؟

یقیناً آپ ایسے احساسات سے سرشار ہو جاتے ہونگے، جنہیں شاید الفاظ میں بیان کرنا ہی ممکن نہ ہو.. لیکن ان مقامات پر جا کر جب آپ جا بہ جا سیاحوں کی طرف سے پھینکے گئے کچرے کے ڈھیر دیکھتے ہیں، تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ بلکل ایسے ہی ہے، جیسے آپ بازار سے بصد شوق اپنی پسند کا لباس خریدنے کے بعد، گھر پہنچ کر جب اسے پہنتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں تو ٹاٹ کے پیوند لگے ہوئے ہیں….. اور شو منی قسمت، اسی لمحے آپ کو یاد آتا ہے دکان پر لگا وہ بورڈ، جس پر لکھا تھا "خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا.” سوچیں تو، اس وقت آپ کس کرب سے دوچار ہونگے؟

یقین جانیے، قدرت کے خوبصورت مناظر میں، جا بہ جا پھیلے کچروں کے یہ ڈھیر، فطرت سے محبت کرنے والوں کو اس سے کہیں زیادہ اذیت پہنچاتے ہیں!

اس اذیتناک صورتحال کے پیدا ہونے کی بڑی وجہ ہم میں بحیثیت شہری، سوِک سینس اور سیاحتی اخلاقیات کی عدم موجودگی ہے، جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے.. ہم وہ لوگ ہیں جنہیں سیاحتی مقامات پر جاتے ہوئے مشروبات سے بھری بوتلیں اور کھانے سے بھرے تھیلے اور شاپر بھاری نہیں لگتے، لیکن جب وہ بوتلیں اور شاپر خالی ہو جاتے ہیں، تو ہم سے وہ اٹھائے نہیں اٹھتے..

ہم نے کچرا کیا ڈبوں میں پھینکنا ہے، ہم تو اپنے اس قبیح اور منفی رویے کی وجہ سے بذات خود کوڑے دان میں پھینک دیے جانے کے قابل ہیں..

مجھے یاد ہے دو سال قبل میں اپنے دو دوستوں کے ساتھ جھیل سیف الملوک پر گیا.. ایک جمِ غفیر تھا وہاں، لوگ کھلے عام خالی شاپر، ریپر اور بوتلیں پھینک رہے تھے.. بہت افسوس ہوا، دل تو بہت کیا کہ انہیں اس حرکت سے بصد ادب روک لیں، لیکن ہم دل کے کہے پر اچھی بات کی تلقین کے جواب میں قوالیاں سننے کے  تجربات سے بارہا گزر چکے تھے، سو "دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے” کے مصداق، چپ ہو رہے…

لیکن پھر ہم تینوں دوستوں نے بزبانِ عمل بات کرنے کی ٹھانی.. لوگ ریپر پھینکتے تو ہم ان کے سامنے ہی اسے اٹھا لیتے، بوتلیں پھینکتے تو ہم اٹھا کر جمع کرتے اور قریبی ڈسٹ بن میں ڈال دیتے… کئی لوگوں نے دیکھا ان دیکھا کر کے اجنبیت دکھائی، کچھ نے ہنسی اڑائی، کچھ ڈھیٹ کے ڈھیٹ رہے، کچھ شرمسار سے لگے اور بہت تھوڑوں نے تھوڑی سی پیروی کی..

مانگنے والی کچھ غریب بچیاں، جو قریب کھڑی تھیں، انہیں بھی ہم نے بلا لیا اور کہا کہ ہمارے ساتھ مل کر یہ مزدوری کر لو، وہ بھی جت گئیں، جنہیں ہم نے خیرات کی بجائے بعد ازاں اس مزدوری کی تھوڑی سی اجرت بھی دے دی…

اس تذکرے کا مقصد یہ ہے کہ ہم صرف اپنے مثبت انفرادی رویے سے ہی اجتماعی طور پر ایک مثبت تاثر قائم کرنے کی وجہ بن سکتے ہیں، اور یہی تاثر آگے چل کر مثبت اجتماعی عمل کا روپ دھار لیتا ہے، نتائج اگرچہ صبر آزما انتظار کے بعد برآمد ہوتے ہیں، لیکن انر ڈسپلن اور اندرونی تحریک پر مبنی ہونے کی وجہ سے پائدار ہوتے ہیں..

یہاں میں ایک بہت خوبصورت مثال آپ کے ساتھ شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں. سویڈن کے ایک شہری ”ایرک ایلسٹروم“  نے صفائی کے حوالے سے اپنے ملک میں ایک منفرد کام کا آغاز کیا ہے۔

وہ صبح سویرے گھر کے پاس باغ میں جب ٹہلنے کے لیے نکلتا ہے تو راستے میں پڑا ہوا کچرا بھی اٹھاتا ہے اور اسے کوڑا دان میں ڈال دیتا ہے، اس طرح سیر کے ساتھ ساتھ وہ صفائی بھی کرتا جاتا ہے.  اس ٹہلنے اور صفائی کے عمل کو اس نے "پلاگنگ” کا نام دیا ہے. اس کی دیکھا دیکھی “پلاگنگ” کا یہ عمل پورے سویڈن میں پھیلتا جا رہا ہے اور جو بھی سیر و تفریح کے لیے جاتا ہے، اس عمل کی بدولت صفائی کا خاص خیال رکھتا ہے. یہ ہمارے لیے ایک قابلِ عمل مثال ہے.

آج کل سیاحت کے حوالے سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر کئی گروپس بنے ہوئے ہیں، جن کا مقصد نہ صرف خوبصورت مقامات کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے، بلکہ لوگوں میں سیاحت کے شوق کو ابھارنا بھی ہوتا ہے

ایسے گروپس میں اکثر دیکھا ہے کہ کئی لوگ مختلف مقامات پر جانے کے لیے رہنمائی حاصل کرنے کی غرض سے سوالات پوسٹ کرتے ہیں، ان میں غالب اکثریت ایسے دوستوں کی ہے، جنہیں ان سوشل میڈیا گروپس کے باعث سیاحت کا شوق پیدا ہوا..

تو ذرا سوچیے، اگر ایسے گروپس/پیجز کے ذریعے لوگوں میں سیاحت کا شوق پیدا کیا جا سکتا ہے، تو پھر سیاحتی اور تمام مقامات پر صفائی ستھرائی قائم رکھنے کا شعور اور سیاحتی اخلاقیات کو کیوں نہیں بیدار کیا جا سکتا!؟

لیکن اس شعور میں صرف ماحولیاتی پہلو ہی شامل نہیں، بلکہ سماجی اور معاشرتی پہلو کو بھی اہمیت حاصل ہے. ہر علاقے اور وہاں رہنے والے لوگوں کی اپنی روایات ہوتی ہیں، ایسے علاقوں میں جاتے ہوئے ہمیں ان لوگوں کی روایات کا احترام کرنا بھی سیکھنا ہوگا

ہمارے اچھے یا برے رویے سے لوگوں کی ہمارے بارے میں رائے قائم ہوتی ہے۔ سیاحتی اخلاقیات کے تحت ہمیں سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مقامی لوگوں یا ماحول کو ہماری وجہ سے کسی بھی قسم کی تکلیف یا نقصان نہ پہنچے۔ سیاحتی مقامات میں گند پھیلانا، بغیر اجازت مقامی افراد کی تصاویر یا وڈیوز بنانا، علاقے کے حوالے سے من گھڑت معلومات فراہم کرنا یا وہاں کی ثقافت یا تہذیب کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کرنا اخلاقی اور قانونی جرم ہے

سیاحت کے دوران ہمیں مختلف نظریات، روایات اور عقیدوں کے شہری ملتے ہیں، اور یہی تکثیریت کی خوبصورتی ہے کہ ہم نئے لوگوں اور مختلف نظریات کے حامل ذہنوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم مختلف اقدار اور روایات کا خیال رکھیں اور ان کا احترام کریں

اس ضمن میں آگہی اور شعور بیدار کرنے کے لیے اب مربوط اور مسلسل مہم کی ضرورت ہے! آئیے اپنے آپ سے ابتدا کرتے ہیں..

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close