باسل ڈی اولیورا: نسلی تعصب کا تنازع، جس نے جنوبی افریقہ پر کرکٹ کے دروازے بند کر دیے۔۔

عبدالرشید شکور

یہ ایک ایسے ٹیسٹ کرکٹر کی کہانی ہے، جنہیں اُن کے اپنے ملک نے صرف اس لیے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اُن کی رنگت سفید نہیں تھی۔ اور معاملہ صرف یہیں تک محدود نہ رہا جب اسی کرکٹر نے کسی اور ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے آبائی ملک میں آ کر کھیلنا چاہا، تب بھی انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی اور یہی وہ موقع تھا، جب نسلی تعصب کا یہ معاملہ کرکٹ سے ہٹ کر سیاسی رنگ اختیار کر گیا

نسلی تعصب کے اس بہت بڑے تنازع کا شکار کرکٹر کو دنیا باسل ڈی اولیورا کے نام سے جانتی ہے

تنازع کا پسِ منظر کیا تھا؟

یہ سنہ 1968 کے انگلش سیزن کا ذکر ہے، جب انگلینڈ کی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف روایتی ایشیز سیریز میں مصروف تھی۔ اس سیریز کے بعد انگلینڈ کی ٹیم کو جنوبی افریقہ کا دورہ کرنا تھا

انگلینڈ کی ٹیم میں شامل دائیں ہاتھ سے بیٹنگ اور میڈیم پیس بولنگ کرنے والے باسل ڈی اولیورا نے آسٹریلیا کے خلاف اولڈ ٹریفرڈ ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ناقابل شکست 87 رنز بنائے تھے، لیکن انہیں لارڈز کے اگلے ٹیسٹ سے ڈراپ کر دیا گیا

اُس وقت باسل ڈی اولیورا یہی سوچ رہے تھے کہ اگر اس سیریز کے باقی ماندہ ٹیسٹ میچوں میں ان کی واپسی نہ ہو سکی تو پھر جنوبی افریقہ کے دورے کے لیے اعلان کردہ ٹیم میں بھی ان کے لیے جگہ بنانا ممکن نہ ہو سکے گا

باسل ڈی اولیورا کو اوول کے آخری ٹیسٹ کے لیے دوبارہ ٹیم میں شامل کر لیا گیا اور انہوں نے اس میچ میں شاندار 158 رنز بنا ڈالے۔ اُس وقت ہر کسی کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کا نام جنوبی افریقہ کے دورے پر جانے والی ٹیم میں ضرور شامل ہو گا لیکن پس پردہ صورتحال کچھ اور ہی تھی

جب ٹیم کا اعلان ہوا تو ڈی اولیورا اس میں شامل نہیں تھے۔ چیف سلیکٹر ڈگ انسول نے یہ منطق بتائی کہ ڈی اولیورا کو ’میرٹ‘ پر منتخب نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اس وقت انگلینڈ میں جو 16 بہترین کھلاڑی موجود ہیں ان میں ڈی اولیورا کی جگہ نہیں بنتی

ڈی اولیورا انگلینڈ کی ٹیم میں اپنا نام نہ پا کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے۔ انھیں ٹیم میں شامل نہ کیے جانے کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ ایم سی سی کے متعدد ارکان نے احتجاجاً استعفی دے دیا اور اس معاملے کی بازگشت پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی اور ہر طرف ڈی اولیورا کی حمایت میں آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں

خود ڈی اولیورا کو صرف چار روز میں تقریباً دو ہزار ایسے خطوط موصول ہوئے جن میں ان کی حمایت کا اظہار کیا گیا تھا

قسمت نے خوب پلٹا کھایا اور چند روز بعد فاسٹ بولر ٹام کاٹ رائٹ نے اعلان کر دیا کہ وہ اَن فِٹ ہیں اور جنوبی افریقہ جانے سے قاصر ہیں، لہٰذا ان کی جگہ ڈی اولیورا کو ٹیم میں شامل کر لیا گیا لیکن ناخوشگوار واقعات کی ایک کے بعد ایک لہر ابھی آنا باقی تھی اور اس تکلیف دہ صورتحال کا سامنا ڈی اولیورا کو کرنا تھا

سیاست کھیل پر غالب آ گئی

ایسا دکھائی دیتا تھا کہ نہ صرف جنوبی افریقہ بلکہ خود انگلینڈ کرکٹ میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے، جو ڈی اولیورا کو جنوبی افریقہ جانے والی انگلینڈ کی ٹیم میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے

جب ڈی اولیورا کا نام انگلینڈ کی ٹیم میں نہیں آیا تھا تو انکوں نے جنوبی افریقہ کے دورے میں مبصر اور تجزیہ کار کے طور پر کام کرنے کے لیے ’نیوز آف دی ورلڈ‘ سے معاہدہ کر لیا لیکن جنوبی افریقہ کی حکومت نے اس پر بھی اعتراض کر دیا

جب ڈی اولیورا کو ان فٹ ٹام کاٹ رائٹ کی جگہ ٹیم میں شامل کرنے کا اعلان ہوا تو نسلی امتیاز کی پالیسی رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت اور اس کے ہم خیال افراد تیزی سے متحرک ہو گئے اور ڈی اولیورا کو اس دورے سے روکنے کی کوششیں شروع ہو گئیں

باسل ڈی اولیورا کو مختلف ذرائع سے بہت پہلے ہی یہ پیشکشیں ہوئی تھیں کہ اگر وہ جنوبی افریقہ کے دورے کے لیے اپنی عدم دستیابی کا اعلان کر دیں تو اس کے بدلے انہیں مالی فوائد مل سکتے تھے، مثلاً تمباکو کی ایک کمپنی کے نمائندے نے اوول ٹیسٹ سے قبل انہیں گھر، کار اور چالیس ہزار پاؤنڈ کی پیشکش کی تھی، جسے ڈی اولیورا نے غصے سے ٹھکرا دیا تھا

ایم سی سی کے ایک سابق صدر لارڈ کوبہیم نے جنوبی افریقہ کے وزیراعظم جان فوسٹر سے ملاقات کے بعد اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ جنوبی افریقہ کی حکومت نے ڈی اولیورا کی انگلینڈ کی ٹیم میں شمولیت کی صورت میں دورہ منسوخ کرنے کا سوچ رکھا تھا

انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے ایک اعلیٰ افسر نے بھی یہ کوشش کر کے دیکھ لی تھی کہ ڈی اولیورا خود کو جنوبی افریقہ کے دورے سے دستبردار کر لیں، مگر ظاہر ہے وہ اس کے لیے تیار نہ تھے

اس تمام قضیے کا انجام یہ سامنے آیا کہ ایم سی سی نے انگلینڈ کی ٹیم کے دورۂ جنوبی افریقہ کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا کیونکہ جنوبی افریقہ کے وزیراعظم جان فوسٹر کسی صورت میں ڈی اولیورا کو انگلینڈ کی ٹیم میں دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھے

جنوبی افریقہ تنہا رہ گیا

باسل ڈی اولیورا کے واقعے کے بعد جنوبی افریقہ کرکٹ کی دنیا میں تنہا رہ گیا

سنہ 1970 میں جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم کو انگلینڈ کا دورہ کرنا تھا لیکن برطانوی حکومت کے کہنے پر انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے اس دورے کی منسوخی کا اعلان کر دیا اور اس کی جگہ ریسٹ آف دی ورلڈ الیون نے انگلینڈ کی ٹیم کے ساتھ سیریز کھیلی

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ٹیم میں جنوبی افریقہ کے پانچ کرکٹرز بیری رچرڈز، ایڈی بارلو، مائیک پراکٹر، پیٹرپولاک اور گریم پولاک بھی شامل تھے

جنوبی افریقہ کو اپنی نسلی امتیاز کی پالیسی کی بھاری قیمت چکانی پڑی کیونکہ سنہ 1969 میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے بعد اس پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اس دوران اس کے کئی ورلڈ کلاس کرکٹرز انٹرنیشنل کرکٹ سے دور ہو گئے اور ان کی کرکٹ صرف انگلش کاؤنٹی تک محدود ہوگئی تھی

باسل ڈی اولیورا کون تھے؟

باسل ڈی اولیورا نے چار اکتوبر 1931 کو کیپ ٹاؤن میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ سفید فام نہیں بلکہ کیپ کلرڈ تھے۔ ہوش سنبھالتے ہی انہیں بھی اسی کرب کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس سے جنوبی افریقہ میں رہنے والے لاکھوں غیر سفید فام لوگ گزر رہے تھے

باسل ڈی اولیورا کے لیے کرکٹ کھیل سے بڑھ کر ایک جنون تھا۔ وہ جب سفید فام کرکٹرز اور غیرسفید فام کرکٹرز کی کرکٹ دیکھتے تو اس سوچ میں مبتلا ہو جاتے کہ یہ فرق کیوں؟ انہوں نے اپنے والد کے کلب سینٹ آگسٹائن میں کرکٹ کھیلی لیکن اس کرکٹ کے لیے ایک ایسا میدان میسر تھا، جہاں کم وبیش پچیس ٹیمیں آ کر کھیلا کرتی تھیں

باسل ڈی اولیورا ٹاٹ کی بنی ہوئی میٹنگ وکٹ نصب کرنے اور اسے کھیل کے قابل بنانے کے لیے گھر سے اس میدان تک دس میل پیدل جایا کرتے تھے

باسل ڈی اولیورا کو وہ دن بھی اچھی طرح یاد تھے، جب وہ اپنے علاقے سگنل ہل کی سڑکوں پر پریکٹس کیا کرتے تھے لیکن سڑک پر اگر کوئی لڑکا کھیلتا ہوا پکڑا جاتا تو پولیس والے اسے سیدھے جیل لے جا کر چھوڑتے تھے، لیکن انہی سڑکوں پر باسل ڈی اولیورا نے ٹینس کی گیند سے فاسٹ بولنگ کھیلنے کی خوب پریکٹس کر کے اپنا دفاع مضبط بنا لیا تھا

سفید فام کرکٹرز کو حسرت سے دیکھنا

باسل ڈی اولیورا کے والد نے کبوتر پال رکھے تھے۔ باسل ڈی اولیورا کو صرف اس بات سے دلچسپی تھی کہ جب ان کے والد انہیں ان کبوتروں کے ڈربے کی صفائی کا کہتے تھے تو اس کے بدلے انہیں ایک شلنگ مل جاتا تھا اور وہ خوشی خوشی سات میل پیدل چل کر کیپ ٹاؤن کے مشہور نیولینڈز گراؤنڈ کا رخ کرتے اور ٹکٹ خرید کر ایک الگ تھلگ جگہ پر بیٹھ کر میچ دیکھا کرتے

اُس وقت اُن کے ذہن میں یہ سوال ہرگز نہیں ہوتا تھا کہ وہ آخر سفید فام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ میچ کیوں نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ ان کی توجہ میدان میں موجود ٹیسٹ کرکٹ کے بڑے ناموں پر مرکوز ہوا کرتی تھی کیونکہ وہ ان سے بہت سیکھنا چاہتے تھے

باسل ڈی اولیورا نے اپنی کتاب ’ٹائم ٹو ڈکلیئر‘ میں لکھا ہے کہ ’میں نے ہمیشہ مہمان ٹیم کو سپورٹ کیا کیونکہ اس نے مجھے اس خوبصورت اسٹیڈیم میں کھیلنے سے محروم نہیں کیا تھا لیکن میں نے کبھی بھی سفید فام کرکٹرز سے نفرت کا اظہار نہیں کیا۔‘

باسل ڈی اولیورا نے نیولینڈزگراؤنڈ میں پیٹر مے، کالن کاؤڈرے اور ڈینس کامپٹن کو کھیلتے دیکھا تو انہیں ُدکھ کا احساس ضرور تھا کہ غیرسفید فام ہونے کی وجہ سے وہ کبھی بھی نیولینڈز گراؤنڈ میں نہیں کھیل پائیں گے

جان آرلٹ کا احسان

باسل ڈی اولیورا کا کریئر انگلینڈ کے مشہور کمنٹیٹر جان آرلٹ کے تذکرے کے بغیر اُدھورا ہے۔ ڈی اولیورا نے انہیں خطوط لکھے تھے، جن میں انہوں نے جنوبی افریقہ کے مشکل حالات کے سبب انگلینڈ میں لیگ کرکٹ کھیلنے کی خواہش ظاہر کی تھی

جان آرلٹ دو سال کی کوششوں کے نتیجے میں باسل ڈی اولیورا کے لیے انگلینڈ میں لیگ کرکٹ کھیلنے کا موقع تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے

باسل ڈی اولیورا کو انگلینڈ جانے کے لیے ساڑھے چار سو پاؤنڈز درکار تھے، جو ان کے انڈین، کیپ کلرڈ اور مسلمان دوستوں نے جمع کر کے دیے تھے، جس سے وہ انگلینڈ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے

باسل ڈی اولیورا نے انگلینڈ میں ووسٹر شائر کاؤنٹی کی نمائندگی کی اور پھر انگلینڈ کی طرف سے 44 ٹیسٹ میچ کھیلتے ہوئے پانچ سنچریوں اور پندرہ نصف سنچریوں کی مدد سے 2484 رنز بنائے اور47 وکٹیں بھی حاصل کیں

عمر کے آخری حصے میں باسل ڈی اولیورا پارکنسن کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے اور ان کی وفات 80 برس کی عمر میں ہوئی۔ اُن کے بیٹے ڈیمئن اور پوتے بریٹ نے بھی ووسٹر شائر کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہے۔

بشکریہ: بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close