اکیس ہزار روپے سے بزنس ایمپائر کھڑا کرنے والے جمشید جی ٹاٹا۔۔ خواب اور تعبیر کی کہانی

ویب ڈیسک

گذشتہ دنوں یہ خبر سامنے آئی ہے کہ ٹاٹا گروپ آف کمپنیز کی کل مالیت 365 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جو کہ اسے انڈیا کی سب سے طاقتور کمپنی تو بناتی ہی ہے ساتھ ساتھ اس کی مالیت پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) سے کہیں زیادہ ہے۔

ٹیٹلی چائے سے لے کر جیگوار لینڈ روور کار اور نمک بنانے سے لے کر طیارہ اڑانے اور ہوٹلوں کا گروپ قائم کرنے تک زندگی کے مختلف شعبوں میں ٹاٹا کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ اور اس جلوہ گری کی بنیاد جس شخص نے رکھی تھی، ان کا نام ہے جمشید جی ٹاٹا

جمشید جی ٹاٹا آج سے تقریباً 185 سال قبل سنہ 1839 میں ہندوستان کے علاقے گجرات کے نوساری میں ایک پارسی خاندان میں پیدا ہوئے، جنہوں نے آگے چل کر صرف اکیس ہزار روپے کے سرمائے کے ساتھ ایک تجارتی کمپنی شروع کی اور پھر ایک ایسا بزنس ایمپائر کھڑا کیا، جس کی مالیت آج پاکستان کی جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے

انہوں نے کپاس، چائے، تانبے، پیتل اور افیون (جس کا کاروبار اُس وقت غیر قانونی نہیں تھا) میں خوب پیسہ بنایا۔

وہ ایک جہاں گرد شخص تھے اور نئی ایجادات سے کافی متاثر ہوتے تھے۔

برطانیہ کے ایک دورے کے دوران لنکاشائر میں کپاس کی مِلوں کے مشاہدے سے انہیں یہ احساس ہوا کہ ہندوستان اس کاروبار میں اپنے نوآبادیاتی آقاؤں کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے۔

جمشید جی ٹاٹا نہ صرف شہر جمشید پور اور شرہ آفاق کمپنی ٹاٹا اسٹیل کے بانی تھے بلکہ وہ پہلے ہندوستانی تھے، جنہوں نے اقتصادیات کی دنیا میں ہندوستان کو عالمی نقشے میں باوقار مقام دلایا۔

انہیں ’فادر آف انڈین انڈسٹری‘ کے طور پر جانا جاتا ہے اور وہ صنعت کی دنیا میں اتنے بااثر تھے کہ انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے انہیں ’ون مین پلاننگ کمیشن‘ کہا تھا، اس کے ساتھ انہوں نے جمشید جی کو ’ہمت اور وژن کا ایک نادر مرکب‘ کے الفاظ سے بھی نوازا تھا۔ نہرو نے ان کی عظیم خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے برملا کہا تھا کہ انہیں نہایت عقیدت و احترام سے یاد کرنا چاہئے کیونکہ وہ بجا طورپر جدید ہندوستان کے بے حد عظیم معمار تھے۔

آج ان کے نام پر نہ صرف درجنوں کمپنیاں ہیں، بلکہ ان کے نام پر ایک شہر بھی ہے، جس کا خواب انہوں نے دیکھا تھا لیکن اس کو شرمندہ تعبیر ان کے بیٹے نے کیا۔

وہ کئی معاملوں میں ہندوستان میں روح رواں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ہندوستان کو پہلی دیسی ہوائی سروس دی بلکہ اسٹیل اور کپڑے بنانے کے کارخانے بھی دیے اور تاج محل ہوٹل کا ایک سلسلہ دیا جو انڈیا سمیت دنیا کے تقریبا ایک درجن ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔

ٹاٹا گروپ آف انڈسٹریز کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی کمپنی دنیا کی مخیر ترین کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے، اور فلاحی اور تعلیمی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔

اپنے والد کے ساتھ تقریباً نو سال کام کرنے کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد انتیس سال کی عمر میں جمشید جی ٹاٹا نے اکیس ہزار روپے کے سرمائے کے ساتھ ایک تجارتی کمپنی شروع کی جو رفتہ رفتہ بڑھتی گئی، جسے آج ٹاٹا گروپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جمشید جی ٹاٹا 3 مارچ 1839 کو ایک مذہبی پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اور ان سے پہلے کے لوگ پارسی مذہب کے عالم تھے اور اپنے مذہب کی خدمات میں لگے ہوئے تھے۔ ان کا خاندان غربت کا شکار تھا اور شاید اسی لیے جمشید جی کے والد نوشیرواں جی ٹاٹا نے تجارت کے میدان میں قدم رکھا۔ بعد ازاں وہ تجارت کے سلسلے میں بمبئی (اب ممبئی) آ گئے

جمشید جی چودہ سال کی عمر میں والد کے ساتھ ممبئی آئے تھے۔ سترہ سال کی عمر میں انہوں نے ایلفنسٹن کالج ممبئی میں داخلہ لیا۔ دو سال بعد 1858 میں گرین اسکالر (گریجویٹ سطح کی ڈگری کے حامل) بن گئے۔ ان کی زندگی کے بڑے اہداف میں ایک اسٹیل کمپنی کھولنا، دنیا کا مشہورا سٹڈی سینٹر قائم کرنا، ایک منفرد ہوٹل کھولنا اور ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ لگانا شامل تھا

سنہ 1869ع میں انہوں نے بمبئی کے چنچپوکلی میں ایک دیوالیہ آئل مل کو خریدا اور اسے کاٹن مل میں تبدیل کر دیا اور اس کا نام تبدیل کر کے ’الیگزینڈرا مل‘ رکھا، لیکن دو سال بعد مل کو اچھے خاصے منافع کے ساتھ بیچ دیا۔
1874 میں انہوں نے ڈیڑھ لاکھ روپے کی لاگت سے سینٹرل انڈیا سپننگ، ویونگ اینڈ مینوفیکچرنگ کمپنی کے نام سے ایک نیا کاروبار شروع کیا۔

تین سال بعد یکم جنوری 1877 کو جمشید جی نے ’مہارانی ملز‘ کے نام سے ملک کی پہلی ٹیکسٹائل مل کھولی۔ مہارانی مل کا افتتاح اسی روز ہوا جس دن ملکہ وکٹوریا کی ہندوستان میں ملکہ کے طور پر تاج پوشی ہوئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ انیسویں صدی کے آخر میں ٹاٹا کے بانی جمشید جی ٹاٹا کو ممبئی کے ایک مہنگے ہوٹل میں ان کی رنگت کی وجہ سے داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

جمشید جی پر اس واقعے کا بہت گہرا اثر ہوا اور انہوں نے تہیہ کیا کہ وہ اس ہوٹل سے بہتر ہوٹل بنائیں گے، جس میں ہندوستانی شہریوں کو بھی آنے کی اجازت ہوگی

اس طرح سنہ 1903 میں ممبئی کے ساحل پر 4 اعشاریہ 21 کروڑ روپے سے تاج ہوٹل کا قیام عمل میں آیا۔ یہ شہر کی پہلی عمارت تھی، جس میں بجلی، امریکن پنکھے اور جرمن لفٹوں جیسی سہولیات فراہم کی گئی تھیں اور اس میں انگریز خانسامے کام کرتے تھے۔ اب اس کی شاخیں انڈیا، امریکہ اور برطانیہ سمیت نو ممالک میں ہیں۔

ان کی زندگی کی کتاب کے ورق الٹیں تو کئی دلچسپ واقعات سامنے آتے ہیں۔ 1901ء میں جشمید جی نے اپنے لئے ایک موٹر کار خریدی اور تب ممبئی میں پہلی بار لوگوں نے موٹر کار دیھکی تھی۔ جمشید جی بڑے شوق سے اپنے دوستوں کو کار کی سواری کرنے کے لئے مدعو کرتے تھے اور انہیں اپنی کار میں شہر کی سیر کراتے تھے ایسے میں لوگ سڑکوں کے کنارے کھڑے ہو کر جادوئی سواری کا بڑی حیرت سے نظارہ کرتے تھے۔ جشمید پور میں ان کی کار کا حیرت ناک اور مسرت آگیں نظارہ کے لئے بہار، بنگال اور اڑیسہ تک سے لوگ بڑے ذوق و شوق سے سفر کی صعوبتیں جھیل کر آتے تھے اور واپسی پر لوگوں کو کار کی کہانی مزے لے لے کر سناتے تھے۔

جمشید جی کا سب سے بڑا خواب اسٹیل کا کارخانہ بنانا تھا لیکن وہ اس خواب کی تعبیر سے پہلے ہی وفات پا گئے۔۔ پھر ان کے بیٹے دوراب جی نے ان کی وفات کے بعد اپنے والد کا خواب پورا کیا اور 1907 میں ملک کی پہلی اسٹیل کمپنی ٹاٹا اسٹیل اینڈ آئرن کمپنی (ٹسکو) کھولی۔ اس طرح ہندوستان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا، جہاں اسٹیل کا کارخانہ تھا۔

اس کے لیے ایک شہر آباد کیا گیا، جو پہلے صوبہ بِہار میں تھا لیکن اب یہ جھارکھنڈ میں ہے۔ اس کا نام ٹاٹا بزنس گروپ کے بانی جمشید جی کے نام پر ’جمشید پور‘ رکھا گیا۔ یہ ہندوستان کا پہلا منصوبہ بند شہر تھا، جس کی سڑکیں کشادہ تھیں اور طبی سہولیات کے ساتھ تعلیمی ادارے اور مذہبی عمارتیں بھی بنائی گئیں۔

دراصل جمشید جی نے اپنے بیٹے دوراب کو خط کے ذریعے ایک صنعتی شہر آباد کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے لکھا تھا ”اس شہر کی سڑکیں کشادہ ہونی چاہییں، اس میں درخت، کھیلوں کے میدان، پارک اور مذہبی عبادت گاہوں کے لیے بھی جگہ مخصوص ہونی چاہیے۔“

یہ اُس وقت ہندوستان کی واحد کمپنی تھی، جس نے اپنے ملازمین کو پنشن، رہائش، طبی سہولیات اور دیگر بہت سی سہولیات فراہم کیں۔ ٹاٹا نے کسی قانونی پابندی کے بغیر خود ہی اپنے ملازمین کی بہبود کے لیے پالیسیاں متعارف کرائیں جن میں 1877 میں پینشن، 1912 میں آٹھ گھنٹے کام کے اوقات اور 1921 میں ماں بنے والی خواتین کے لیے مراعات شامل ہیں۔

آج انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس یعنی بنگلور کا آئی آئی ایس سی دنیا کے مشہور اداروں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے ہی اس کے قیام کا خواب دیکھا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے اپنی آدھی سے زیادہ جائیداد عطیہ کی، جس میں ممبئی میں چودہ عمارتیں اور چار جائیدادیں شامل تھیں۔

کینسر کے مریضوں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ٹاٹا میموریل ہسپتال ممبئی میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں انگنت تعلیمی اداروں اور کھیل کے شعبے میں ٹاٹا کی امداد شامل ہے۔

1892 میں انہوں نے جے این ٹاٹا انڈومنٹ قائم کیا، جس نے ہندوستانی طلبہ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ دراصل جب پہلی بار ہندوستانی سول سروس خدمات کے دروازے ہندوستانیوں کے لئے کھولے گئے، جمشید جی نے باصلاحیت ہندوستانی نوجوانوں کی شناخت کر کے انہیں اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لئے سمندر پار بیرونی ممالک بھیجنے کے لئے ایک خصوص فنڈ قائم کیا تھا۔ اس فنڈ نے پہلی بار کسی ہندوستانی کو انجینئر، فزیشن، سرجن، بیرسٹر اور ماہر تعلیم بننے میں مدد دی۔ اب اسی فنڈ کی مدد سے ہندوستان کے شہری بھی آئی ایس کے لئے کوالیفائی کر سکتے تھے۔ اس میں کچھ وقت تو لگا لیکن بالآخر اس عظیم ہستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ 1924ء تک ایک اندازہ کے مطابق ہندوستانی سول سروس میں شامل 5 ہندوستانیوں میں سے ایک ٹاٹا اسکالر تھا۔

اگرچہ جمشید جی باصلاحیت افراد کی مدد کرتے تھے، لیکن وہ خیرات دینے پر یقین نہیں رکھتے تھے، اس کی جگہ پر وہ طالب علموں کو قرض فراہم کرتے تھے (بلاسودی) جسے وہ ’قابل‘ ہونے کے بعد اپنی سہولت کے مطابق بے حد آسان قسطوں میں چکا سکتے تھے۔ اس طرح جمشید جی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ آنے والے پیڑھیاں باشعور اور ترقی یافتہ ہوں۔

8 فروری سنہ 1911 میں لوناوالا ڈیم کا سنگ بنیاد ڈالتے ہوئے اس وقت کے ٹاٹا گروپ کے سربراہ سر دوراب جی ٹاٹا نے اپنے والد جمشید جی ٹاٹا کے نظریات کے بارے میں بات کی تھی، جنہوں نے سنہ 1868 میں اس کمپنی کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ اب دس ورٹیکلز کے ساتھ 30 کمپنیوں کا گروپ ہے اور چھ بر اعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہے۔

دوراب جی ٹاٹا نے کہا تھا: ”میرے والد کے لیے دولت کا حصول صرف ایک ثانوی چیز تھی۔ وہ اس ملک کے لوگوں کی صنعتی اور فکری حالت کو بہتر بنانے کو اولیت دیتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں وقتاً فوقتاً جن مختلف اداروں کو شروع کیا، ان کا بنیادی مقصد ہندوستان کی ان اہم پہلوؤں میں ترقی تھا۔“

کمپنی کی ویب سائٹ پر ان کے مشن کے طور پر یہ درج ہے کہ ان کمپنیوں کا قیام دنیا بھر میں ’مختلف برادریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔‘

ہندستٹمیں پہلی ہوائی کمپنی کا سہرا بھی ٹاٹا گروپ کے سر جاتا ہے۔ دراصل ٹاٹا خاندان کے ایک اور فرد جہانگیر ٹاٹا سنہ 1938 میں 34 سال کی عمر میں کمپنی کے چیئرمین بنے اور تقریبا نصف صدی تک اس عہدے پر فائز رہے۔

انہیں صنعت کار بننے سے زیادہ پائلٹ بننے کا شوق تھا جو انھیں ’لوئیس بلو رائٹ‘ سے ملنے کے بعد پیدا ہوا تھا جو رودبارِ انگلستان کے اس پار پرواز کرنے والے پہلے پائلٹ تھے۔

جے آر ڈی ممبئی فلائنگ کلب سے ہندوستان میں پائلٹ کی تربیت مکمل کرنے والے پہلے شخص تھے۔ ان کے ہوائی لائسنس کا نمبر 1 تھا جس پر ان کو بہت فخر تھا۔

انہوں نے ہندوستان کی پہلی ہوائی ڈاک سروس شروع کی اور اکثر ڈاک کے ساتھ مسافر کو بھی لے جاتے تھے۔

بعد میں یہ ہی ڈاک سروس انڈیا کی پہلی ایئر لائن ’ٹاٹا ایئرلائن‘ بن گئی جس کا کچھ عرصے بعد نام بدل کر ’ایئر انڈیا‘ کر دیا گیا۔

لیکن ایک بار پھر اس نے اس کمپنی کو حکومت سے خرید لیا ہے۔ ایئر انڈیا کے حصول کے بعد اب ’ٹاٹا سنز‘ کے پاس تین ایئر لائنز ہیں۔ ’ایئر وسٹارا‘ جس میں ان کی ’سنگاپور ایئر لائنز‘ کے ساتھ شراکت ہے اور وہ ’ایئر ایشیا‘ میں ملائیشیا کے ساتھ شراکت دار ہیں۔

آج ’ٹاٹا سنز‘ ٹاٹا کمپنیوں کی بنیادی سرمایہ کاری ہولڈنگ کمپنی اور پروموٹر ہے۔ ٹاٹا سنز کے ایکویٹی شیئر کیپٹل کا 66 فیصد مخیر حضرات کے پاس ہے جو تعلیم، صحت، ذریعہ معاش پیدا کرنے اور فن و ثقافت کو سپورٹ کرتے ہیں۔

جمشید جی کے ہندوستان کی ترقی کے لیے نظریے کو ہندی لفظ ’سودیشی‘ سے سمجھا جا سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ’اپنے ملک میں بنا ہوا‘ ہے اور یہی خیال انیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا حصہ تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’کسی قوم کی ترقی کے لیے کمزور ترین اور سب سے زیادہ بے بس لوگوں کو سہارا دینے کے بجائے ضروری ہے کہ سب سے زیادہ لائق اور خداداد قابلیت کے حامل لوگوں کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے ملک کی خدمت کر سکیں۔

جمشید جی نے ہیرا بائی ڈابو سے شادی کی تھی، جن سے دو بچے دوراب جی اور رتن جی پیدا ہوئے، جو بعد میں ٹاٹا گروپ آف کمپنیز کے چيئرمین بنے۔ وہ 19 مئی 1904 میں جرمنی کے شہر بیڈ نوہیم میں وفات پا گئے لیکن انہیں انگلینڈ کے پارسی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

ہندوستان کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین نے ٹاٹا کے بارے میں کہا: ”جہاں بہت سے لوگوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور آزادی کی صبح کی طرف مارچ کو تیز کرنے پر کام کیا، وہیں ٹاٹا نے آزادی کے بعد کی زندگی کے لیے خواب دیکھا اور کام کیا۔ ٹاٹا نے بہتر زندگی اور معاشی آزادی کے لیے کام کیا۔“

یہاں تک کہ انگریز وائسرائے لارڈ کَرزن نے کہا ”موجودہ نسل کے کسی ہندوستانی نے ہندوستان کی تجارت اور صنعت کے لیے ان سے زیادہ کام نہیں کیا“ اور آج زندگی کے مختلف شعبے میں جمشید جی اور نوشیرواں جی ٹاٹا کے خوابوں کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔

ٹائمز آف انڈیا نے ان کی رحلت پر خصوصی ضمیمہ میں لکھا، ”وہ ایسے انسان نہیں تھے، جسے لوگوں کے صلہ و ستائش کی تمنا ہو۔ وہ عوامی تقریبات سے پرہیز کرتے تھے۔ وہ لمبی چوڑی تقریر پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کی بے حد سادہ لیکن پروقار شخصیت، کسی کو بھی چاہے وہ کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو ان کی چاپلوسی کی اجازت نہیں دینا تھا کیونکہ وہ خود ہی اتنے بڑے اور اتنے عظیم تھے۔ لوگوں نے انہیں جتنا جانا ہے، اس سے بھی کہیں بڑے اور عظیم تھے۔ انہیں کسی طرح کے اعزاز اور شہرت کی بھوک نہیں تھی۔ وہ کسی سہولت کے طلبگار نہیں تھے لیکن ہندوستان اور ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کی ترقی اور ان کے لئے ایک باعزت مقام کی خواہش رکھتے تھے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close