’لوگ سمجھتے ہیں زمیندار ہیں، اچھی زندگی گزار رہے ہوں گے مگر انہیں کیا معلوم کہ اتنی اراضی ہونے کے باوجود بھی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، زمین کو سیراب کرنا تو دور کی بات ہم تو اپنی پیاس بھی نہیں بجھا سکتے‘
راجا نوہڑیو کی آواز بھرا گئی، جذبات پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے انہوں نے پھر بات کرنا شروع کی
”زیر زمین پانی مکمل طور پر نمکین ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ٹیوب ویل بھی نہیں لگا سکتے، پینے کا پانی بھرنے کے لیے بھی کوسوں دور جانا پڑتا ہے، میرا گاؤں جس میں تقریباً دو سو گھر ہیں اور سب کے پاس اپنی اچھی خاصی زمینیں ہیں مگر ہر گھر میں سے نوجوان روزگار کی تلاش میں کراچی اور حیدرآباد میں مقیم ہے، نہ ان کی تعلیم مکمل ہوئی نہ زمینیں آباد ہو سکیں اور اس تمام صورتحال کی وجہ پانی کی قلت ہے۔“
راجا نوہڑیو بدین کی تحصیل گولاڑچی کے مقامی زمیندار ہیں جو چالیس ایکڑ وسیع زمین کے مالک ہونے کے باوجود مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو برس کے دوران پانی کی قلت نے سنگین صورتحال اختیار کرلی ہے
پانی کی اہمیت مسلمہ، ہر جاندار کی حیات اس سے جُڑی ہے، اس کی کمیابی زمینوں کو بنجر اور جانداروں کو پنجر میں تبدیل کر دیتی ہے
پاکستان کو کئی برسوں سے پانی کی قلت کا سامنا ہے، گزشتہ کچھ دنوں سے سندھ بھر میں نہری پانی کی قلت کے باعث صورت حال خطرناک ہوتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف زراعت کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ گھریلو زندگی بھی شدید متاثر ہونے لگی ہے
دریائے سندھ میں پانی کی قلت ’انتہائی خطرناک‘ صورتحال ہے، جس نے صوبے کی آبادی، زراعت، مویشیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے
سندھ حکومت کے محکمہ آب پاشی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سندھ میں نہری پانی کی قلت 34 ہزار 262 کیوسک کے حساب سے 53 فیصد ہے اور آنے والے دنوں میں یہ قلت مزید بڑھنے کا امکان ہے
گزشتہ تین برس سے سندھ بھر میں پانی کی قلت نے سندھ کی زراعت، زیر زمین پانی جس کو مقامی زبان مین ’جر‘ کہتے ہیں، آب و ہوا اور ماحولیات پر بھی بہت ناقص اثرات چھوڑے ہیں
واضح رہے کہ سال 1991 میں چاروں صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کی پانی تقسیم پر ایک معاہدہ تشکیل دیا گیا تھا اس معاہدے کے تحت سندھ کو ربیع اور خریف کی موسم میں 48.76 فیصد پانی دیا جائے گا مگر کافی برسوں سے اس معاہدے پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے سندھ میں قحط کی صورتحال پیدا ہونے لگی ہے اور سندھ میں 52.3 فیصد پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس نے کاشتکاروں اور کسانوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کردیا ہے
سندھ میں پانی کی فراہمی کے لیے سکھر بیراج، گدو بیراج، کوٹڑی بیراج شہ رگ کا کام کرتی ہیں، مگر موجودہ صورتحال میں وہاں پانی نہ ہونے کے برابر ہے
واضح رہے کہ وفاقی وزارت برائے آبی وسائل کی طرف سے تشکیل دی گئی مشترکہ ٹیم نے گزشتہ ہفتے گدو اور سکھر بیراجوں کی پیمائش مکمل کرنے کے بعد یہ واضح کیا ہے کہ تونسہ ڈاؤن اسٹریم اور گدو اپ اسٹریم کے درمیان پانی کا بہاؤ ’ کم ‘ ہونے کا سندھ کا دعویٰ درست ہے
پانی کے معاملے پر مسلسل رپورٹنگ کرنے والے سینیر صحافی ممتاز بخاری کا کہنا ہے کہ اس وقت سندھ میں پانی کی قلت سنگین صورتحال اختیار کر گئی ہے اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو سندھ میں خریف اور موسم گرما میں ہونے والا فصل جس میں کپاس، چاول، لیموں شامل ہیں وہ سخت متاثر ہونے کا خدشہ ہے
ممتاز بخاری کا کہنا ہے کہ سندھ میں پانی کا ایک اہم ذریعہ کابل ندی ہے جس میں اس وقت پانی کچھ بہتر ہوا ہے مگر وہاں سے آنے والا پانی بھی تاحال سندھ میں نہیں پہنچا اور سندھ کا ارسا سے یہ اعتراض ہے کہ وہ چشمہ جہلم کینال سے دو ہزار کیوسک پانی پنجاب کو منگلا ڈیم میں ذخیرہ کرنے کے لیے دے رہی ہے
سندھ میں پانی کے بحران سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ممتاز بخاری نے کہا کہ اب سندھ میں خریف کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، جس کی وجہ سے کپاس، چاول، گنے، کیلے اور لیموں کے کاشتکاروں کو پریشانی کا سامنا ہے
سندھ کے مخلتف شہروں میں اس وقت پانی کی قلت کے خلاف احتجاجی تحریکوں میں بھی تیزی آ گئی ہے. ضلع نوابشاه، جو کہ سابق صدر آصف علی زرداری کا آبائی علاقہ ہے، کی تحصیل سکرنڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایاز پرھیاڑ نے بتایا کہ بحیثیت ویٹرنری ڈاکٹر میں پوری تحصیل میں گھومتا رہتا ہوں اور جس علاقے میں بھی جاتا ہوں وہاں لوگ پانی کے بحران پر غم و غصہ میں ہوتے ہیں اور وہ کسی بڑی تحریک کا انتظار کرتے ہیں، ایاز پرھیار نے بتایا کہ اب لوگوں میں پانی پر بے چینی پیدا ہونے لگی ہے
سیہون جو کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا شہر ہے، سے تعلق رکھنے والے نوجوان سجاد ڈیتھو نے بتایا کہ ایشیا کی تازہ پانی کی بڑی جھیلوں میں شمار ہونے والی منچھر جھیل میں پانی کی سطح نہایت کم ہوچکی ہے، سجاد نے کہا کہ مقامی لوگ میٹھے پانی کی تلاش میں کوسوں دور جاتے ہیں اور اب پانی کی موجودہ صورتحال سے حالات مزید بگڑنے لگے ہیں
پانی کے معاملات پر تحقیقی کام کرنے والے اور کالاباغ ڈیم پر کتاب لکھنے والے ماہر آب ادریس راجپوت کا کہنا ہے کہ اس وقت واپڈا اپنے ایک پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے گزشتہ تین مہینوں سے تربیلا ڈیم میں پانی جمع کیا ہے جس کی وجہ سے دریائے سندھ میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشیں کم ہو رہی ہیں اس لیے پانی کا بحران سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے
صوبائی دارالحکومت کراچی کیسے متاثر ہوگا؟
ہر دن کراچی میں ملک کے بیشتر علاقوں سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں جس کی وجہ سے کراچی میں آبادی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، آبادی بڑھنے سے کراچی میں بجلی، پانی اور گیس کی طلب میں بھی اضافہ ہورہا ہے
کراچی میں پانی کی قلت کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی رہا ہے لیکن جب سے ٹینکر مافیا نے زور پکڑا ہے، تب سے کراچی میں پینے کے پانی کی قلت خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے
کراچی میں یومیہ پانی کی طلب 1.2 بلین گیلن ہے مگر اس کے برعکس کراچی کو صرف 60 کروڑ گیلن یومیہ پانی ملتا ہے لیکن وہ بھی پانی کی خراب لائنوں، ٹینکر مافیا کی ملی بھگت کی وجہ سے منصفانہ بنیادوں پر کراچی کے شہریوں تک نہیں پہنچتا
کراچی کو پانی دھابیجی جھیل، کینجھر جھیل اور حب ڈیم سے ملتا ہے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تعلقات عامہ کے افسر عبدالقادر شیخ کا کہنا ہے کہ اس وقت کراچی میں یومیہ ایک سو کروڑ گیلن پانی کی طلب ہے مگر حاصل ہونے والا پانی 58 کروڑ گیلن ہے
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کراچی میں پانی کی قلت نہیں ہے مگر آبادی بڑھنے کی وجہ سے مشکلات پیش آ رہی ہیں، جس میں دھابیجی جھیل کے ذریعے کینجھر جھیل سے 48 کروڑ گیلن یومیہ پانی آتا ہے جبکہ حب ڈیم سے ایک سو کروڑ گیلن یومیہ پانی ملتا ہے، مگر اس وقت جب سندھ بھر میں پانی کی قلت سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے تو کراچی میں بھی پانی کی قلت بڑھنے کا خطرہ سامنے آیا ہے
کینجھر جھیل کے اسسٹنٹ انجنیئر نے بتایا کہ جھیل میں پانی کی سطح ڈیڈلیول کے قریب پہنچ گئی، جھیل میں پانی کی سطح 56 سے کم ہوکر 48 فٹ پر آگئی ہے اور پانی کا لیول 42 فٹ ہونے پر کراچی کو پانی کی فراہمی بند ہوجائے گی جبکہ سندھ حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کینجھر جھیل میں 47 فٹ پانی موجود ہے.
(اس رپورٹ کی تیاری کے لیے میر کیریو کے ڈان اخبار میں شائع ہونے والے فیچر سے مدد لی گئی)