باجوڑ: زیتون کا معیار اٹلی اور اسپین سے بھی بہتر

ویب ڈیسک

پاکستان کے ضم شدہ اضلاع میں اگرچہ ایک جانب اب بھی بہت سارے مسائل حل طلب ہیں، لیکن باوجود اس کے ایک خوش آئند امر یہ ہے کہ سابقہ حکومت نے پورے پاکستان اور خصوصاً ضم شدہ اضلاع کے لئے پانچ ارب روپے کی لاگت سے ایک ایسا منصوبہ تشکیل دیا ہے، جو مستقبل میں ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے

اس منصوبے کے تحت موسمی لحاظ سے موزوں علاقوں میں بڑے پیمانے پر زیتون کی کاشت کا عمل شروع کیا جائے گا، جس میں سے ضم شدہ علاقوں کے لئے پائلٹ پروگرام کے تحت اسی کروڑ روپے کئے جا چکے ہیں

منصوبے کے مطابق سات ضم شدہ اضلاع اور چھ سب ڈویژنز میں زیتون کی کاشت پر خطیر سرمایہ کاری کی جائے گی، جس کے پہلے فیز میں باجوڑ، تیراہ اور دیگر کئی علاقوں میں کام شروع کیا جا چکا ہے۔ پہلے مرحلے میں ان علاقوں میں سیڈز ڈپارٹمنٹ کی ٹیموں کی نگرانی میں علاقے کے کاشتکاروں اور زمینداروں کو بنیادی تربیت دی جائے گی. ساتھ ہی یہاں کے باسیوں کو زیتون کی افادیت کے علاوہ اس کی بوائی، رکھوالی اور دیگر بنیادی طریقوں سے بھی آگاہ کیا جائے گا

وادی تیراہ کے جنگلات میں پہلے سے موجود جنگلی زیتون میں گرافٹنگ کر کے قابل منافع فصل بنانے کی سعی بھی اس منصوبے کا اہم حصہ ہے، جبکہ ایک ایکڑ کی زیتون کی کاشت جس میں سے کم از کم سو سے لے کر ایک سو دس پودے اگائے جا سکتے ہیں، جو مالک جائیداد کو دو سے ڈھائی لاکھ کا منافع دے سکتی ہے

سیڈز ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ عہدیداروں کے مطابق زیتون کم پانی والے علاقوں میں بہتر نتائج دیتا ہے، جبکہ زیتون کے ساتھ ہم مزید فصلیں بھی اگائی جا سکتی ہیں

اس پراجیکٹ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ کاشتکاروں اور زمینداروں کی تربیت تو ان کے ذمہ ہے ہی لیکن زیتوں کی فصل کی تیاری کے بعد یہ لوگ ہیلپر کے طور پر فصل کی رکھوالی کے لیے لوگ بھی ہائر کر سکتے ہیں، جو ابتدائی ایام میں عارضی طور پر کام کریں گے لیکن کچھ عرصہ بعد فصل کے نتائج اطمینان بخش آنے پر ان کو مستقل بنیادوں پر رکھا جا سکے گا

زیتون کی کاشت بڑے پیمانے پر سیٹل ایریاز میں تلہ گنگ، ہری پور ہزارہ اور ضم شدہ اضلاع میں باجوڑ، مہمند، خیبر کے کرم علاقہ اور وزیرستان جیسے علاقوں میں ہو رہی ہے

سیڈز ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر کے مطابق باجوڑ اور سیٹل ایریاز کے زیتوں کی اوائل کی فصلوں سے جو زیتون کشید کیا گیا ہے اس کا معیار اسپین اور اٹلی کے زیتون سے کئی درجہ بہتر ہے

ان کا دعویٰ تھا کہ اگر متعلقہ محکمہ اور ان علاقوں کے کاشت کار، جہاں یہ فصل لگائی جا رہی ہے، اگر ذرا سی بھی توجہ اس کو دے پاتے ہیں تو چند سالوں میں ہم زیتون میں خود کفیل ہو سکتے ہیں

واضح رہے کہ پاکستان زیتون کا تیل امپورٹ کرنے پر کثیر سرمایہ خرچ کرتا ہے لیکن اگر اس طرح کے منصوبے بنائے جائیں تو آنے والے دس برسوں میں پاکستان زیتون کا تیل ایکسپورٹ کرنے کے قابل بن سکتا ہے

قبائلی علاقے محض پوست اور بھنگ کی کاشت کے حوالے سے مشہور یا بدنام تھے. کیونکہ جہاں ان کا استعمال کئی اہم بیماریوں کے لئے بھی تریاق سمجھا جاتا تھا، وہیں اس کے منفی پہلو سے بھی انکار ممکن نہیں، جس نے کئی نسلیں منشیات کی وجہ سے تباہ و برباد کر کے رکھ دیں

اگر ضم شدہ اضلاع کی غیراستعمال شدہ اراضی کو مثبت طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے تو یہاں نہ صرف زیتون بلکہ نت نئی فصلوں کی کاشت کے تجربات بھی کیے جا سکتے ہیں. مثلاً ملک میں بہت زیادہ مقدار میں چائے پی جاتی ہے، جس کی امپورٹ کے لیے سالانہ اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں. اگر زیتون کے علاوہ یہاں چائے اور دیگر اہم فصلوں کی کاشت پر توجہ دی جائے تو آنے والے برسوں میں اس کا بہت زیادہ معاشی فائدہ ہو سکتا ہے

ایک طرف تو ہم درسی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے تو دوسری جانب ملک کی سرسبز اور قابل کاشت زمینوں کو ٹاؤن شپس کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے. اگر باقی ماندہ زمینیں بھی رہائشی منصوبوں کی بھینٹ چڑھ جائیں گی تو مستقبل میں یہاں غذائی بحران پیدا یو جائے گا، جس کے ابتدائی نتائج سامنے آ رہے ہیں، جبکہ ماحولیاتی تباہی اس سے سوا ہے

یہ مسئلہ ضم شدہ اضلاع میں بھی سر اٹھا رہا ہے، ان میں سے سرمایہ دار طبقہ اکثر بلند و بالا تجارتی مراکز تعمیر کرتے دکھائی دیتے ہیں. کاشت اور کھیتی بھاڑی کو چھوڑ کر کروڑوں اربوں روپے بڑی بڑی بلڈنگز بنانے میں کھپا دیے جاتے ہیں. ایسے میں اگر اس طرح کے مثبت زرعی منصوبے شروع کیے جائیں تو یقیناً اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرکے نہ صرف معاشی بہتری کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں بلکہ ماحولیاتی تباہی کے اثرات کی تباہی سے بھی بچا جا سکتا ہے

(اس رپورٹ کے لیے محمد مونس سہیل کے ٹی این این میں شائع ہونے والے فیچر سے مدد لی گئی)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close