کھانا کھاتے وقت شاید ہی ایسا ہوتا ہو کہ کھانے میں پلاسٹک کا چھوٹا ٹکڑا ملا ہو، جو نوالے کے ساتھ پیٹ میں چلا جائے اور پھر وہاں بھی وہ نظام ہضم کی گرفت سے بچ کر فضلہ بن جانے کے بجائے آنتوں کے ذریعے خون میں شامل ہوکر پورے جسم میں گشت کرتا پھرے اور انسانی زندگی کے لیے خطرہ بن جائے
عصرِ حاضر میں پلاسٹک روز مرہ کی اشیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چیز بن چکا ہے۔ یہ وہ خطرناک دیو ہے جو ہماری حسین اور رنگین دنیا کے صحت افزا ماحول کو نگل رہا ہے، لیکن شاید کسی نےسوچا بھی نہ ہوگا کہ پلاسٹک کسی طرح ہمارے جسم میں داخل ہوکر خون کے ذریعے گھومتا پھرے گا اور جان جوکھوں میں ڈال دے گا
اور بات صرف یہاں تک ہی محدود رہتی تو بھی قابو کی جاسکتی ہے، لیکن معاملہ ہوا میں تیرنے والے پلاسٹک کے ‘مائکرو اسکوپک بٹس’ کا بھی ہے، جو سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہونے کے بعد نظام تنفس یا نظام ہاضمہ کے ذریعے آنتوں سے گزر کر خون میں شامل ہو جاتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ ہم نے زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے چکر میں خود کو ایسی مشکلات میں ڈال دیا ہے، جن کا ہمیں ادراک تک نہیں ہے
مذکورہ بالا حقائق کا انکشاف ہالینڈ کے محققین نے سائنسی جریدے مارچ انوائرمنٹ انٹرنیشنل میں کیا ہے
تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر پھیپھڑوں یا آنتوں میں داخل ہونے والا پلاسٹک تکنیکی طور پر جسم میں داخل نہیں ہوتا بلکہ وہیں مدافعتی یا ہاضمے کے نظام اسے ختم کر دیتے ہیں۔ پلاسٹک صرف اسی وقت جسم میں داخل ہوسکتا ہے، جب وہ کسی طرح خون میں شامل ہونے میں کامیاب ہوجائے
اس مقالے میں محققین کا کہنا ہے کہ انسانی خون کے نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات کی موجودگی نے ہمیں حیران کر دیا۔ خون میں پلاسٹک کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پورے جسم میں گردش کرتے ہوئے کسی بھی حساس حصے جیسے دماغ یا دل تک پہنچ سکتے ہیں اور وہاں کسی شریان کو بلاک کرکے برین ہیمبرج یا دل کے دورے کا موجب بن سکتے ہیں
محققین کا مزید کہنا ہے کہ یہ چیز اس نئی دریافت کو تشویشناک بناتی ہے۔ مائیکرو پلاسٹک جسم کے مختلف نظاموں میں سوزش کا سبب بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں پلاسٹک کے بٹس میں زہریلے کیمیکل بھی ہو سکتے ہیں، جو ہمارے ہارمون اور تولیدی نظام کو متاثر کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ کچھ جنگلی حیات میں دیکھا گیا
تحقیقی ٹیم میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ خون میں خوردبینی پلاسٹک کے ذرات کو تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ انہیں صرف ایک خوردبین سے نہیں دیکھا جاسکتا، لہٰذا ہم نے ایک کیمیائی نقطہ نظر اپنایا
محققین کے مطابق ”ہم نے بائیس بالغوں سے خون جمع کیا اور بڑے خلیات کو ہٹانے کے لیے نمونے پر کارروائی کی۔ اس سے ایک مائع رہ گیا۔ اس کے بعد 700 نینو میٹر (0.00003 انچ) سے بڑے ذرات کو فلٹر کیا“
محققین نے انسانی خون کے نمونوں نے پولیمر کی تلاش کی، جو پانچ مختلف قسم کے پلاسٹک بناتے ہیں۔ سترہ لوگوں کے خون میں چار قسم کی پولیمر پائی گئیں
محققین کے مطابق ٹیسٹ شدہ خون کے ہر چار نمونوں میں سے ایک میں پولی تھیلین موجود تھا۔ یہ خاص طور پر عام پلاسٹک ہے، جو شاپنگ بیگز اور بوتلوں سے لے کر کھلونے اور ٹکڑے ٹکڑے کی کوٹنگز تک مصنوعات کی بہت وسیع رینج میں استعمال ہوتا ہے
اسی طرح ٹرائل میں حصہ لینے والے نصف لوگوں کے خون میں پی ای ٹی بھی پائی گئی، جو کپڑوں اور پلاسٹک کی بوتلوں میں استعمال ہوتا ہے
جبکہ ایک تہائی سے زیادہ خون کے نمونوں میں پولیسٹیرین پائی گئی، جو انسولیٹنگ فوم، کمپیوٹر کیسز، سائنسی لیب ویئر، پلاسٹک کے کانٹے اور بالوں کی کنگھی میں پایا جاتا ہے
محقیقن کے مطابق صرف ایک نمونے میں پولی میتھائل میتھکریلیٹ یا پی ایم ایم اے پایا گیا، جو شفاف اور ہیٹ مولڈ پلاسٹک کے دانتوں کے کام میں استعمال ہوتا ہے
ٹیم نے خون کے نمونوں میں پولی پروپیلین کو بھی تلاش کیا، لیکن وہ نہیں مل سکا.