علی ریسکیو 1122 کی گاڑی میں پڑے اسٹریچر پر درد سے کراہ رہا تھا، اس کی ماں خون سے لت پت اس کے گالوں کو دیوانہ وار چوم رہی تھی
والد کی پریشان نگاہیں اپنے کمسن بیٹے کے چہرے پر گڑھی ہوئی تھیں اور ایمبولینس ہسپتال کی جانب فراٹے بھرتی جارہی تھی۔ چند ہی لمحے قبل علی گھر کے سامنے کھیل کود میں مصروف تھا کہ اچانک علی اور تمام اہل خانہ پر قیامت ٹوٹی پڑی۔ چھ سالہ علی اپنے ہم عمر دوست عمران کے ساتھ اپنی ’’بندوق‘‘ لئے گلی میں کھیلنے کے لئے گیا تو تھوڑی ہی دیر بعد عمران دوڑتا ہوا آیا اور علی کے والد کو مطلع کیا کہ علی کی آنکھ میں کھلونا بندوق کی ’’گولی‘‘ لگ گئی ہے
ایسے ہی درجنوں واقعات ہمارے اطراف میں اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ عید سعید، جشن آزادی سمیت دیگر تہواروں کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تہواروں خصوصاً عید اور یوم آزادی کے پر مسرت موقع پر اکثر والدین انجام سے بے خبر اپنے بچوں کو خوشی خوشی کھلونا پستول لے کر دیتے ہیں اور بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ کھیلتے کودتے اکثر وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جو ساری زندگی کے روگ میں تبدیل ہو جاتا ہے
ہوتا کچھ اس طرح ہے کہ اکثر بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ والدین عید کے موقع پر انہیں کھلونا بندوق لازمی لے کر دیں اور آج کل پڑوسی ممالک میں تیار ہونے والی یہ کھلونا بندوقیں اصل سے کچھ ہی کم ہیں۔ ان میں پلاسٹک کی گولیاں استعمال کی جاتی ہیں اور ان کا پریشر بھی اتنا ہوتا ہے جو بچوں کی آنکھوں، جلد اور نازک اعضاء کو نقصان پہنچانے کے لئے کافی ہے
اور یہ کھیل خطرناک رخ تب اختیار کرتا ہے جبکہ ایک ہی گلی یا دوسرے محلے کے بچے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو جاتے ہیں اور ٹولیوں کی شکل میں دوستانہ لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ اس تصادم میں بچے ایک دوسرے پر آزادانہ گولیاں برساتے ہیں جن کی زد میں آکر اکثر و بیشتر راہ گیر بھی متاثر ہوتے ہیں اور اگر یہ گولیاں کسی نازک اعضاء جیسا کہ آنکھ میں لگ جائے تو بھاری نقصان ہوتا ہے اور کئی بچے عمر بھر کیلئے اپنی بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں
لیکن اس سارے معاملے کے جسمانی طور پر خطرناک ہونے کے علاوہ اس کا تشویشناک پہلو اس کے نفسیاتی اثرات کا ہے
یہی وجہ ہے کہ آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن ملک بھر میں ایک مہم چلا رہی ہے، جس میں انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کھلونا بندوقوں پر فی الفور پابندی لگائی جائے
اس ضمن میں فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا کا کہنا ہے کہ ’ہمارے بچوں کے اندر کھلونا بندوقوں کے ذریعے نفسیاتی تشدد بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اور اگر ہم نے اس پر توجہ نہ دی، قانون سازی نہ کی اس پر مل بیٹھ کراس کو روکنے کے اقدامات نہ کیے تو آنے والے وقتوں میں نہ صرف تشدد بہت بڑھے گا بلکہ ہمارے بچوں میں پرتشدد اور مجرمانہ سرگرمیوں کے رحجان میں شدید اضافہ ہوگا‘
کاشف مرزا کہتے ہیں ”اس وقت تمام اسٹیک ہولڈرز، اساتذہ، سول سوسائٹی اور حکومتی عہدہ داروں کو مل کر بیٹھنا ہوگا اور قانون سازی کرنا ہوگی“
انہوں نے امریکہ، برطانیہ، عراق اور دیگر ممالک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی ان کھلونوں کے خلاف قانون سازی کی جارہی ہے یا ہو چکی ہے، اس لیے پاکستان میں بھی اب اس حوالے سے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں
ان کے خیال میں نہ صرف کھلونا بندوقوں بلکہ ایسی پر تشدد وڈیو گیمز کو بھی بند کرنا ہوگا، تاکہ ذہنی طور پر ایک صحت مند نسل کو پروان چڑھایا جا سکے
واضح رہے کہ اگر آپ کھلونوں کی دکانوں پر جا کر مشاہدہ کریں تو وہاں لاتعداد اقسام کی کھلونا بندوقیں اور دیگر پر تشدد آلات کے کھلونے، چھوٹی بڑی سبھی کھلونوں کی دکانوں میں بچوں کے لیے موجود نظر آئیں گی
دکانداروں کے مطابق یہ کھلونا بندوقیں زیادہ تر چین سے آتی ہیں لیکن کچھ دکاندار انہیں لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ سے خرید کر اپنی دکانوں پر لاتے ہیں
شاہ عالم مارکیٹ کی اگر بات کی جائے تو، اس مارکیٹ سے دیگر دکاندار مال اپنی دکانوں میں ڈالنے کے لیے خرید کر لاتے ہیں۔ یہاں لایا جانے والا سامان زیادہ تر ’میڈ ان چائنہ‘ ہوتا ہے
شاہ عالم مارکیٹ میں کھلونا بندوقوں کے ہول سیل ڈیلر نفیس احمد نے بتایا کہ پہلے پہل بچوں کے لئے پانی والی بندوقیں یا پستول ’’واٹر گنز‘‘ آتی تھیں، جس کے بعد ابھی کچھ سال قبل تجرباتی طور پر چھرّے والی کھلونا بندوقیں چین سے فروخت کے لئے لائی گئی ہیں۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور کھلونا بندوقوں کو بچوں میں مقبولیت حاصل ہوئی
نفیس نے بتایا کہ کھلونا بندوقوں میں استعمال ہونے والے چھرے کا قطر 6.5 سے 8.5 ملی میٹر ہے اور مختلف رینج والی یہ بندوقیں8 سے 16 فٹ تک بآسانی ہدف کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔ ان کھلونا بندوقوں میں کلاشنکوف کی فروخت سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ اس کی رینج بہتر ہونا ہے۔ ان کھلونوں کی وجہ سے نقصان بھی ہوتا ہوگا مگر کیا کریں ہمارا یہ کام ہے، ہماری روزی روٹی ہے، اس لئے مجبوراً کرنا پڑتا ہے
شادمان میں کھلونوں کی دکان چلانے والے محمد عدنان نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا بیشتر سامان شاہ عالم مارکیٹ سے ہی آتا ہے، خاص طور پر کھلونا بندوقیں۔ ان بندوقوں میں جہاں ربڑ کی گولیوں یا میوزک والی بندوقیں دستیاب ہیں، وہیں ایک ایسی قسم ہے، جس کی طلب کافی زیادہ ہے۔ اس کی طلب شاہ عالم مارکیٹ میں بھی عید کے دنوں میں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ ہے چھروں والی بندوق
عدنان کا کہنا ہے ’اس بندوق کا کام یہ ہے کہ اس کے اندر چھرے ڈلتے ہیں۔ اس کے اندر میگزین ہوتی ہے۔ زیادہ تر بچے عید وغیرہ یا تہوار پر استعمال کرتے ہیں ورنہ اس کی طلب اتنی زیادہ نہیں ہوتی‘
عدنان نے بتایا کہ ان بندوقوں کی قیمت مختلف ہے، جتنی بڑی بندوق اس کی قیمت بھی اتنی زیادہ۔ قیمت ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار روپے تک ہے
ان کا کہنا ہے ’ہماری یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر ہمیں ہی آ کر گولیاں ماریں، یہ ہماری روزی روٹی ہے۔ ہم نے تو لانی ہیں چیزیں اور بیچنی ہیں اور پیسے کمانے ہیں۔ ہم وہ چیز دکان پر لاتے ہیں، جس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے اور کھلونا بندوقوں کی ڈیمانڈ ہے۔ والدین بچوں کو خرید کر دیتے ہیں اور بچے ان سے کھیل کر خوش ہوتے ہیں‘
لیکن کچھ والدین ایسے بھی ہیں، جن کے خیال میں بچوں کو بندوق جیسے کھلونے سے متعارف ہی نہیں کروانا چاہیے۔ سارہ رافع کے دو بچے ہیں اور وہ ایک گھریلو خاتون ہیں
سارہ کہتی ہیں ”چاہے وہ ربڑ کی گولیوں والی بندوق ہو یا کوئی بھی ہو، مجھے لگتا ہے کہ وہ تشدد کو ترویج دیتی ہیں۔ میں بالکل اپنے دونوں بچوں کو کھلونا بندوقوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتی ہوں نہ ہی انہیں ایسی وڈیو گیمز کھیلنے یا ایسی وڈیوز دیکھنے کی اجازت ہے، جن میں تشدد ہو۔ وہ اس لیے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ شروعات ہوتی ہے۔ آپ آج کھلونا بندوق کی اجازت دیں گے، تو کل کو بچے اصل بندوق سے بھی کھیلنا چاہیں گے“
ایک رپورٹ کے مطابق عیدالفطر اور جشن آزادی کے موقع پر کھلونا بندوقوں کی فروخت میں 70 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے اور روایتی کھلونوں کے بجائے بچوں میں کھلونا بندوقوں کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے
کراچی کے بڑے بھی تاجر چین سے خصوصی آرڈر پر کھلونا بندوقیں درآمد کرکے مقامی مارکیٹ میں فراہم کررہے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کھلونا اسلحہ کی مانگ میں اضافے کے باعث مقامی طور پر بھی اس کی تیاری شروع کردی گئی ہے
بچوں میں کھلونا بندوقوں کے بڑھتے ہوئے شوق پر سنجیدہ حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ آسان دستیابی اور زیادتی کی وجہ سے بچوں نے کھلونا بندوقوں میں پلاسٹک کے چھرے کی جگہ لوہے کی گولیاں (بال بیرنگ) تک استعمال کرنا شروع کردی ہیں اور ماہر امراض چشم کے مطابق کھلونا بندوقوں کے یہ چھرے آنکھوں کی بینائی ضائع کرسکتے ہیں
ایک اندازے کے مطابق کھلونا بندوقوں کے چھرے لگنے سے سالانہ سینکڑوں بچے زخمی ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق انڈر ورلڈ اور غنڈہ گردی کے موضوعات پر بنائی جانے والی بھارتی فلموں میں آتشیں اسلحے کی بے دریغ نمائش سے پاکستانی معاشرے پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، بے روزگار نوجوان راتوں رات امیر بننے اور طاقت کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کے لیے بھارتی فلموں جیسے ہی انداز اختیار کررہے ہیں، جس سے معاشرے میں محنت کرکے اپنا مقام بنانے کے بجائے جرائم کی راہ اختیار کرکے پیسہ کمانے کا منفی رجحان فروغ پارہا ہے
اس رجحان کی ایک جھلک شہروں اور قصبوں کی گلیوں میں کھیلنے والے بچوں کے مشاغل سے بھی ملتی ہے، اسلحے سے اپنے حریفوں کو زیر کرنے کا یہ کھیل بچوں کی شخصیت کا حصہ بننے کی صورت میں معاشرے سے برداشت اور تحمل ختم کردے گا جس کی روک تھام کے لیے والدین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا
ارباب اختیار کے ساتھ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کو ایسے کھلونے لے کر دیں جو ان کو مثبت رجحانات کی طرف راغب کریں تاکہ بچے جسمانی اور نفسیاتی نقصان سے محفوظ رہ سکیں
کھلونا بندوقوں کے استعمال کے بارے میں ماہر امراض چشم، اعصاب اور نفسیات کیا کہتے ہیں؟
سروسز ہسپتال کے ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر شمشاد کے مطابق کھلونا بندوق کا چھرّا لگنے سے آنکھ ضائع ہوسکتی ہے۔ عید اور جشن آزادی کے روز بچے کی آنکھوں یا جسم کے دیگر حصوں پر چھرّا لگنے کے متعدد کیس رجسٹرڈ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ بچوں کی 50 سے 90 فیصد بینائی ضائع ہوگئی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پلاسٹک کے بجائے لوہے کی گولی آنکھ کے ساتھ ساتھ دماغ کے لئے بھی انتہائی مہلک ثابت ہو سکتی ہے
انہوں نے والدین کو ہدایت کی کہ وہ بچوں کو کھلونا بندوقوں کے استعمال سے روکیں، اور اگر خدانخواستہ کسی بچے کی آنکھ میں چھرّا لگ جائے تو فوری طور پر قریبی معالج سے رجوع کریں
ماہر اعصابی امراض ڈاکٹر صبا صدیق کا کہنا تھا کہ کھلونا بندوقوں سے کھیلنا کوئی غلط بات نہیں، اور نہ ہی اس سے بچوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، البتہ کھلونا بندوقوں میں تشدد کا عنصر شامل ہونا بری بات ہے
انہوں نے کہا کہ بچے ہمارے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں جس سے ہم انہیں اس سے روک نہیں سکتے، کیوں کہ بچے مختلف طریقوں سے اعصابی تناؤ کو نکالتے ہیں
انہوں نے کہاکہ آپ بچوں سے کھیل کے میدان چھین لیں گے تو ان میں قانون سے بغاوت اور منفی سرگرمیاں پروان چڑھیں گی
ماہر نفسیات ڈاکٹر نجم الحسن کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کے حالات تشدد کو پروان چڑھاتے ہیں، کھلونا بندوقوں اور وڈیو گیمز میں تشدد دراصل معاشرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ والدین بچوں کو بخوشی کھلونا بندوقیں، مار دھاڑ سے بھرپور فلمیں، وڈیو گیمز دلاتے ہیں اور یہی عناصر بچوں میں تشدد کو جنم دیتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو عدم تشدد کی طرف راغب کرنے کے لئے ایسے کھلونوں کا متبادل تلاش کریں
ڈاکٹر نجم الحسن کا کہنا تھا کہ اقتصادی محرومی، بے روزگاری، غربت اور بچوں سے جسمانی کھیل کے مواقع چھین لینے سے معاشرے میں تشدد پروان چڑھتا ہے۔ آپ نے بچوں سے کھیل کے میدان چھین لیے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نوجوانوں میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر آج آپ بچوں کے ہاتھوں میں کھلونا بندوقیں تھمائیں گے تو ہمارا آئندہ مستقبل انارکی اور انتشار کا شکار ہوگا.