صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ملک کی پہلی ایسی شاہراہ کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے، جس کا ایک بڑا حصہ ساحل سمندر پر بنایا گیا ہے
حکام کے مطابق اُنیس کلومیٹر طویل اور چھ رویہ سڑک گوادر میں مشرقی ساحل سے مکران کوسٹل ہائی وے تک ہے، جو بندرگاہ اور اس کے فری زون کو قومی شاہراہوں کے نیٹ ورک سے ملا کر تجارت کے فروغ کا باعث بنے گی
گوادر پورٹ اتھارٹی کے چیئرمین نصیر احمد کاشانی کا کہنا ہے ’ایسٹ بے ایکسپریس وے‘ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے تحت گوادر پورٹ کا فلیگ شپ منصوبہ ہے، جس کی تعمیر پر 16 کروڑ 80 لاکھ ڈالر (32 ارب روپے ) سے زائد کی لاگت آئی اور اسے چینی کمپنی چائنا کمیونیکشن کنسٹرکشن کمپنی (سی سی سی سی) نے تعمیر کیا ہے
’منصوبے کی ٹیسٹ ڈرائیور کامیابی سے کرلی گئی ہے اگلے مہینے اس کا باقاعدہ افتتاح کرکے شاہراہ کو ٹریفک کے لئے کھول دیا جائےگا‘
چیئرمین جی پی اے کے مطابق ایسٹ بے ایکسپریس وے پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی شاہراہ ہے، جس کا تقریباً پانچ کلومیٹر حصہ آن شور ہے جسے ساحل سمندر پر مٹی اور ریت ڈال کر بنایا گیا ہے
ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کی انجینئرنگ اور ڈیزائننگ سمیت تعمیراتی کام چینی ماہرین نے کیا ہے، جبکہ پاکستانی ورک فورس نے بھی ان کے ساتھ کام کیا ہے
ان کے مطابق اس منصوبے سے دو ہزار افراد کو روزگار ملا جن میں بیشتر مقامی تھے
ان کا کہنا تھا کہ یہ چھ لین ایکسپریس وے گوادر پورٹ اور اس کے 2281 ایکڑ فری ٹریڈ زون کو کراچی جانے والی مکران کوسٹل ہائی وے اور ایم ایٹ شاہراہ سمیت سڑکوں کے اس نیٹ ورک سے جوڑے گی، جو بالآخر مغربی چین کے شہر کاشغر تک جائے گا
نصیر احمد کاشانی کا کہنا تھا کہ ’گوادر میں پہلے بڑی کارگو گاڑیاں شہر کے اندر سے گزرتی تھیں، جس سے عام ٹریفک میں خلل پڑتا تھا۔ اب ان کو گوادر شہر کے اندر آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی
’مستقبل میں شاہراہ کے اطراف میں ڈبل ٹریک ریلوے لائن بھی بچھائی جائے گی‘
واضح رہے کہ ایسٹ بے ایکسپریس گوادر میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ایک ارب ڈالر منصوبوں کا حصہ ہے
وفاقی وزارت منصوبہ بندی کی ویب سائٹ کے مطابق اس منصوبے کی ایکنیک نے 2015ع میں منظوری دی تھی اور یہ منصوبہ مقررہ مدت سے تقریباً دو سال کی تاخیر سے مکمل ہوا ہے
یہ منصوبہ مختلف تنازعات کا باعث بھی بنا جبکہ اگست 2020ع میں منصوبے پر کام کرنے والے چینی ماہرین کی گاڑی پر خودکش حملے میں ایک چینی ماہر زخمی جبکہ چار راہ گیر بچے ہلاک ہوئے تھے۔ 2018 اور 2019 میں مقامی ماہی گیروں نے سڑک کی تعمیر سے کشتیوں کی سمندر تک رسائی روکے جانے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ ماہی گیروں کے احتجاج کے بعد سڑک کے نیچے تین سرنگوں کی چوڑائی بارہ فٹ سے بڑھا کر سو فٹ کر دی گئی تھی
چیئرمین جی پی اے نصیر احمد کاشانی کے مطابق ماہی گیروں کے احتجاج کی وجہ سے منصوبے میں کچھ تبدیلیاں کرنا پڑیں جس سے منصوبے کی تکمیل کی مدت میں اضافہ ہوا
انہوں نے کہا کہ ہم نے تین پل بناکر ماہی گیروں کو سمندر تک رسائی کے لئے گزر گاہیں فراہم کیں۔ ہم نے پل کے ساتھ ماہی گیروں کو گودی کی سہولت اور ہال بھی بنا کر دیا جا رہا ہے
ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی، ماہی گیروں کے احتجاج سمیت باقی تمام مسائل اور لوگوں کے خدشات کو دور کو منصوبے کو مکمل کیا گیا ہے
گوادر بندرگاہ کی فعالیت
بحیرہ عرب کے ساحل پر گوادر کی بندرگاہ سمندر میں تیل کی ترسیل کے اہم راستوں کے قریب واقع ہے۔ اس کو مغربی چین سے سڑک کے راستے ملانے کے لیے پاکستان اور چین نے 2015ع میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو منصوبے کے تحت سی پیک معاہدہ کیا تھا
یاد رہے کہ گوادر بندرگاہ کا باقاعدہ افتتاح 2007 میں پرویز مشرف دور میں کیا گیا تھا۔ 2015 میں بندرگاہ کو مزید فعال بنانے کے لیے اسے چین کی سرکاری کمپنی چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی (سی او پی ایچ سی) کو 43 سال کے لیے لیز پر دیا گیا، تاہم بارہا اعلانات کے باوجود یہ بندرگاہ اب تک مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکی ہے
گوادر پورٹ اتھارٹی کے چیئرمین نصیر احمد کاشانی نے اس حوالے سے بتایا کہ گوادر انٹرنیشنل ائر پورٹ، ایسٹ بے ایکسیرپس وے جیسے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے منصوبوں سے مستقبل میں گوادر بندرگاہ سے کاروبار میں اضافہ ہوگا۔ ‘پورا ایکو سسٹم بنانے سے ہی بندرگاہ مکمل فعال ہوگی اس وقت گوادر بندرگاہ جزوی طور پر فعال ہے ۔ ریگولر کارگو اور پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے علاوہ ہائیڈروکاربن شپس اورتعمیراتی سامان لے کر آنے والے کئی بحری جہاز لنگر انداز گوادر پورٹ پرہوتے رہتے ہیں۔ان کی تعداد میں کمی بیشی آتی رہتی ہے۔’
نصیر احمد کاشانی کے بقول ملک کی باقی بندرگاہوں کے مقابلے میں گوادر بندرگاہ پر ٹیکس چھوٹ کے علاوہ ہم تاجروں اور سرمایہ کاروں کو بہت سی سہولیات بھی مفت فراہم کر رہے ہیں جس میں تین مہینوں تک فری سٹوریج بھی شامل ہے
ان کے مطابق ’ہم ڈیمریج چارجز بھی نہیں لے رہے آج کل باقی پورٹس پر ڈیمریج چارجز بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو سامان کی کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ سے بھاری رقوم ادا کرنا پڑتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ ساری چیزیں اس لئے مفت کی ہے تاکہ گوادر کی بندرگاہ کو پرکشش بناکر ملکی اور بین الاقوامی تاجروں اور سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکے۔‘