لاپتہ ہونے والے بلوچستان کے ضلع خضدار کے عبدالحفیظ زہری کراچی کی ایک جیل سے بازیاب ہو گئے ہیں، وہ بیرون ملک سے رواں سال جنوری کے آخر میں حراست میں لیے جانے کے بعد سے لاپتہ تھے
اگرچہ وہ اس وقت جیل میں ہیں لیکن ان کی بہن بی بی فاطمہ نے ان کی بازیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”اگر معمولی چیز گم ہونے کے بعد مل جائے تو لوگوں کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی لیکن ہمارا تو بھائی مل گیا ہے، جو کہ ہمارے لیے اتنی بڑی خوشی ہے، جس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں“
فاطمہ کہتی ہیں ”چھوٹے بھائی کی جبری گمشدگی کے بعد لاش ملنے اور والد کے قتل کے بعد بڑے بھائی کا لاپتہ ہونا ہمارے خاندان کے لیے دکھ اور غم کا پہاڑ لے آیا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ مل گیا“
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کا بھائی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ایک جیل میں ہے لیکن ہمارے لیے یہ بہت بڑی بات ہے کہ ان کا پتہ چل گیا اور ان کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا
انہوں نے کہا ”بیرون ملک سے حراست میں لیے جانے کے باوجود کراچی میں ان کے بھائی کے خلاف بے بنیاد مقدمہ قائم کیا گیا لیکن مجھے امید ہے کہ عدالتوں سے ان کو جلد رہائی مل جائے گی“
عبدالحفیظ کے لاپتہ ہونے کے بارے میں بی بی فاطمہ نے بتایا کہ عبدالحفیظ چند سال قبل بلوچستان سے دبئی منتقل ہوئے اور وہ اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ دبئی کے انٹرنیشنل سٹی میں رہائش پذیر تھے
انھوں نے بتایا ’عبدالحفیظ کو رواں سال 27 جنوری کی شب اس وقت ان کے فلیٹس کی پارکنگ ایریا سے وہاں کے حکام نے حراست میں لیا تھا، جب وہ گھر واپس آ رہے تھے‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعد میں اتنا معلوم ہوا کہ انہیں دبئی سے پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا لیکن ان کا یہاں کوئی سراغ نہیں ملا
بی بی فاطمہ کہتی ہیں ’ہم نے ان کا پتا لگانے کے لیے پاکستان میں ہر اس در پر دستک دی جہاں پر جانا ہمارے خاندان کے لوگوں کے بس میں تھا لیکن ہمیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا تاہم اندازاً ڈھائی ماہ بعد ہمیں ان کا سراغ ملا‘
عبدالحفیظ کے خاندان کو ان کا سراغ کیسے ملنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فاطمہ کا کہنا تھا کہ جب ہمیں ان کے بارے میں پتہ نہیں چلا تو ہم نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جو کہ 29 مارچ 2022 کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کی گئی
انہوں نے بتایا کہ 14 اپریل کو جب ان کی گمشدگی کی درخواست کی سماعت ہوئی تو ہائیکورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ انھیں سی ٹی ڈی نے کراچی سے گرفتار کیا ہے اور انہیں سینٹرل جیل کراچی منتقل کیا گیا ہے
بی بی فاطمہ کے مطابق ’اگرچہ بھائی کے خلاف بے بنیاد مقدمہ قائم کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ جیل میں ہے لیکن یہ خوشی کی بہت بڑی خبر تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا سراغ مل گیا‘
انہوں نے بتایا ’ان معلومات کے بعد ہم سینٹرل جیل گئے اور بھائی کو اپنے آنکھوں سے بھی دیکھا، جہاں وہ خیریت سے تھے۔‘
وہ کہتی ہیں ’ہمارے خاندان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔ ایسے میں لاپتہ بھائی کے سامنے ہونے پر میرے اور خاندان کے دیگر لوگوں کے جو جذبات تھے، ان کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہوا کہ بھائی کو ایک خصوصی طیارے میں دبئی سے دو فروری کراچی منتقل کیا گیا اور ان سے یہاں تفتیش کیا گیا اور بعد میں ان کو 11 اپریل کو سینٹرل جیل کراچی منتقل کیا گیا‘
کیس کیا ہے؟
عبدالحفیظ کے خلاف سی ٹی ڈی تھانہ ضلع جنوبی کراچی میں سندھ اسلحہ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے
ان کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق ان کو 31 مار چ 2022 کو مبارک شہید روڈ سے گرفتار کیا گیا اور ان سے ایک 30 بور کا پسٹل اور گولیاں برآمد کی گئیں
جبکہ سی ٹی ڈی کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں اس سلسلے میں 14 اپریل کو جو جواب جمع کیا گیا ہے، اس کے مطابق لاپتہ عبدالحفیظ کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف دو دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے
دوسری جانب بی بی فاطمہ کہتی ہیں کہ ان کا بھائی بے قصور ہے اور ہمیں توقع ہے کہ عدالتوں سے ہمیں انصاف ملے گا اور بھائی کی رہائی ملے گی
واضح رہے کہ عبدالحفیظ کا بنیادی طور پر تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے ہے۔ وہ بلوچستان کے ایک بڑے قبیلے زہری سے تعلق رکھتے ہیں
انہوں نے خضدار کے معروف تعلیمی ادارے بلوچستان ریزیڈینشل کالج سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی
بی بی فاطمہ کے مطابق خضدار میں ان کے والد کا تعمیراتی سامان کا کاروبار تھا، جبکہ اس کے علاوہ وہ زمینداری بھی کرتے تھے
انہوں نے بتایا کہ تعلیم کے بعد بڑے بیٹے کی حیثیت سے عبد الحفیظ والد کے ساتھ کاروبار کو دیکھتے رہے۔ اس کے علاوہ علاقے میں ان کی جو زمینداری تھی اس کی بھی دیکھ بھال کرنا شروع کی
عبد الحفیظ کی بہن نے بتایا کہ خضدار میں ان کے خاندان پر زمین تنگ کی گئی جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سب سے پہلے ان کے چھوٹے بھائی عبدالمجید زہری کو سنہ 2011 میں ’جبری طور پر لاپتہ‘ کیا گیا، جن کی عمر چودہ سال تھی
’چھوٹے بھائی کو 8 اکتوبر کو والد کے دفتر سے مسلح افراد نے اغوا کیا اور 24 اکتوبر کو ان کی تشدد زدہ لاش پھینک دی گئی‘
بی بی فاطمہ نے بتایا کہ چھوٹے بھائی کی مبینہ جبری گمشدگی اور تشدد زدہ لاش کی برآمدگی کے واقعے کے بعد ان کے والد محمد رمضان کو دو فروری 2012 کو اس وقت فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا، جب وہ فیروز آباد میں اپنے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے
انہوں نے بتایا کہ معاملہ یہاں پر نہیں رکا بلکہ خضدار میں ان کے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا جبکہ ایک وقت مسلح افراد نے گھر میں ان کی گاڑیوں اور دیگر مشینری کو بھی جلا دیا
فاطمہ بی بی کے مطابق خضدار میں فیروز آباد کے علاقے اناری میں ان کی زرعی اراضی پر کام کرنے والے کسانوں کی جھگیوں اور گھروں کو بھی آگ لگا دی گئی
انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں ان کے بڑے بھائی عبدالحفیظ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق تھے، جس کے باعث ان کو بلوچستان میں اپنا گھر بار مجبوراً چھوڑ کر دبئی منتقل ہونا پڑا
اس سوال پر ان کے خاندان کے لوگوں اور ان کے املاک کو کیوں نقصان پہنچایا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ یہی سوال ان کا بھی ہے کہ انہیں کیوں مارا جا رہا ہے
انہوں نے کہا ”ہم یہی کہتے ہیں کہ اگر ہمارا کوئی قصور ہے تو ہمیں بتایا جائے۔ ورنہ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ بلوچ ہونا ہمارا قصور ہے“
عبدالحفیظ کی دبئی منتقلی
بی بی فاطمہ نے بتایا کہ عبدالحفیظ پہلے سنہ 2012 میں خود دبئی منتقل ہوئے اور اس کے بعد انہوں نے سنہ 2014 میں اپنے بچوں کو بھی بلا لیا
انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی نے دبئی کے انٹرنیشنل سٹی والے علاقے کو رہائش اور کاروبار کے لیے منتخب کیا۔ ‘پہلے بھائی نے وہاں ایک سٹور کے ساتھ ایک کیفے ٹیریا کھولا لیکن یہ دونوں نہ چل سکے، جس کے بعد انہوں نے سنہ 2014ع میں بلڈنگ مٹیریئل کی ایک کمپنی بنائی’
انھوں نے بتایا کہ اس کمپنی کی وجہ سے ان کا کام تھوڑا بہت چل گیا اور ان کے ساتھ تیس سے چالیس لوگ کام کرنے لگے، محنت اور کوششوں کے بعد وہ کسی حد تک سیٹ ہو گئے تھے لیکن وہ وہاں سے ان کو اٹھایا گیا
بی بی فاطمہ کا کہنا تھا کہ عبدالحفیظ کی بازیابی کے کراچی اور کوئٹہ میں احتجاج بھی کیے گئے.