بلوچستان میں چلغوزے کے جنگل میں آگ: 26 ہزار ایکڑ پر محیط قیمتی جنگل تباہی کے دہانے پر

ویب ڈیسک

جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے کارکنوں نے بلوچستان کے خیبرپختونخوا سے متصل ضلع شیرانی میں خطے کی چلغوزے کے ایک بڑے جنگل میں لگنے والی آگ کو بجھانے کے لیے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے

رضاکاروں اور کارکنوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر آگ کو بجھانے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو چلغوزے کے قیمتی جنگلات اور جنگلی حیات کی پناہ گاہوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ سکتا ہے

بلوچستان میں چلغوزے کے پراجیکٹ کے کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ موسیٰ خیل نے کہا کہ آگ پر قابو پانے کے لیے کم ازکم پندرہ سے بیس ہیلی کاپٹروں کو استعمال میں لانا چاہیے

ادہر مقامی لوگوں کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت محدود وسائل کے ذریعے آگ کو بجھانے کی کوشش کے دوران تین افراد ہلاک اور تین زخمی بھی ہوئے

ڈپٹی کمشنر شیرانی اعجاز احمد نے بتایا آگ اندازاً پانچ سے چھ کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، جس کو بجھانے کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن ایسے میں بارش ہی ایک بہت بڑی غیبی مدد ثابت ہوسکتی ہے

واضح رہے کہ ضلع شیرانی میں چلغوزے کے یہ جنگلات گزشتہ کئی دن سے آگ کی لپیٹ میں ہیں، جسے ابھی تک بجھایا نہیں جا سکا

ڈپٹی کمشنر شیرانی نے بتایا کہ آگ ضلع کے علاقے شرغلی میں ایسے پہاڑی علاقوں میں لگی ہے، جن کی بلندی اندازً پانچ ہزار فٹ ہے

ان کا کہنا تھا کہ یہ آگ ایک بڑے علاقے میں پھیلی ہوئی جو کہ اندازاً پانچ سے چھ کلومیٹر کا علاقہ ہے

انھوں نے بتایا کہ اس علاقے میں چلغوزے کے جنگلات ہیں اور یہ جنگلات ہی آگ کی لپیٹ میں آگئے ہیں

چلغوزے کا شمار ان خشک فروٹ میں ہوتا ہے جن کی قیمت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بہت زیادہ ہے

کوئٹہ کی مارکیٹ میں خشک میوے کے کاروبار سے وابستہ کاروباری افراد کے مطابق کورونا کے باعث چین کی جانب اس کی ایکسپورٹ میں کمی کے باعث پہلے کے مقابلے میں اگرچہ اس کی قیمتوں میں کمی آئی ہے لیکن اس کی اعلیٰ کوالٹی کی فی کلو کی قیمت اب بھی سات ہزار روپے سے زائد ہے

چونکہ چلغوزے کے جنگلات شیرانی اور اس سے متصل اضلاع کے لوگوں کی آمدن کا اہم ذریعہ ہیں، اس لیے جب علاقے کے لوگوں نے دیکھا کہ آگ ان کے اس اہم اثاثے کو بھسم کررہی ہے تو علاقے لوگوں نے اس کو بجھانے کی کوشش کی

ڈپٹی کمشنر شیرانی نے بتایا کہ اس کوشش کے دوران علاقے سے تعلق رکھنے والے تین افراد ہلاک اور تین زخمی ہوگئے

جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تحریک اشر سے تعلق رکھنے والے رضاکار سالمین خان اخپلواک نے بتایا کہ علاقہ مکینوں مطابق آگ بہت بڑے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے

جمعے کے روز وزیر اعلیٰ بلوچستان کو دی جانے والی ایک بریفنگ کے دوران حکام نے بتایا کہ بلوچستان میں یہ آگ خیبر پختونخوا کے علاقوں سے شیرانی پہنچی

چلغوزہ پراجیکٹ بلوچستان کے کوآرڈینیٹر نے بتایا کہ ’بدقسمتی سے یہ آگ دس روز پہلے تورغر میں لگی تھی، جہاں سے یہ آگ شیرانی تک پہنچی اور پھر شیرانی کے مختلف علاقوں تک پھیلنے کے بعد پھر یہ شرغلی تک پہنچ گئی‘

ان کا کہنا تھا ’ہوا تیز ہے اور آگ پر اگر فوری طور پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے گی‘

اشر تحریک کے سالمین خان نے بتایا کہ اس علاقے میں چلغوزے کے جنگلات کا شمار دنیا کے بڑے جنگلات میں ہوتا ہے. ہزاروں لوگوں کے روزگار اور معاش کا انحصار اسی جنگل پر ہے

انہوں نے کہا ‘میرے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص بات ہوئی جو اس تباہی پر رو رہا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا ایک خاندان کو انہی جنگلوں سے سالانہ 7 لاکھ روپے ک آمدنی ہوتی تھی۔ یہ جنگلات تین ارب ڈالر پیداوار کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ جل کر راکھ ہو رہے ہیں

یحییٰ موسیٰ خیل نے بتایا کہ سلیمان رینج میں چلغوزے کا یہ جنگل دنیا کا ایک اہم جنگل ہے اور یہ مجموعی طور چھبیس ہزار ایکڑ پر محیط ہے

انہوں نے بتایا کہ یہاں سے ہر سال 650 سے لے کر 675 میٹرک ٹن کا چلغوزہ پیدا ہوتا ہے اور مجموعی طور پر چلغوزے کی 2.6 ارب کی تجارت ہوتی ہے

ان کا کہنا تھا کہ یہاں چلغوزے کے جنگلات سے متعلق ہونے والے سروے کے مطابق ایک ایکڑ پر ساڑھے نو سو درخت آرہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہر ایکڑ کے حساب سے اتنے زیادہ درخت تباہ ہوجائیں گے تو اس کا اندازہ لگائیں کہ چلغوزے کے پیداوار پر کتنا بڑا اثر پڑے گا

’آگ سے پہاڑ پر جنگلات کا بڑا حصہ متاثر ہوا ہے۔ اس سے یہاں کے لوگ اچانک آسمان سے زمین پر آجائیں گے’

دوسری جانب علاقہ مکینوں نے آگ پر فوری طور پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہ ہونے پر احتجاج کیا اور علاقے میں اہم شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کردیں

اشر تحریک کے سالمین خان اخپلواک نے آگ بجھانے کی کوششوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا

یحیٰی موسیٰ خیل نے آگ کی تیزی سے پھیلنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آگ زرغون زبر کی طرف پھیل رہی ہے

ان کا کہنا تھا کہ درمیان میں ایک نالہ ہے اگر آگ نے نالے کو عبور کرکے آگے زرغون زبر کی طرف گیا، تو اس سے ہمارا سارا جنگل تباہ ہوجائے گا. اس وقت جو اقدامات کیے جارہے ہیں وہ ناکافی ہیں

انھوں نے تجویز پیش کی کہ اگر پندرہ سے بیس ہیلی کاپٹر اور فائر بالز بھیجے جائیں تو اس سے آگ پر قابو پایا جاسکتا ہے

محمد یحیٰی نے بتایا کہ مارخوروں کی معروف نسل سلیمان مارخور کی پناہ گاہیں یہی جنگلات ہیں ۔جبکہ یہاں بلیک بیئر اور دیگر جنگلی حیات کی بھی پناہ گاہیں

انھوں نے بتایا کہ ’جہاں اس آگ سے ایک اہم اور قیمتی جنگل تباہ ہورہا ہے وہاں جنگلی حیات کی پناہ گاہیں بھی متاثر ہورہی ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ اس جنگل کی تباہی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بھی علاقے میں ایک بڑے نقصان کا باعث بنے گا

ان کا کہنا تھا کہ اب بھی وقت ہے کہ وزرات موسمیاتی تبدیلی ایکشن لے اور اس تباہی سے جنگلات کو بچائے

ڈپٹی کمشنر نے شیرانی اعجاز احمد نے بتایا کہ پی ڈی ایم اے، محکمہ جنگلات، انتظامیہ کے اہلکار علاقے کے رضاکاروں کے علاوہ ایک ہیلی کاپٹر بھی آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہے

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جو بھی دستیاب وسائل ہیں، ان کو بروئے کار لایا جارہا ہے لیکن آگ جتنے بڑے پیمانے پر پھیلی ہے، اس میں بظاہر انسانی کوششوں سے اس پر قابو پانے کے امکانات بہت زیادہ نہیں ہیں

انھوں نے کہا کہ ایسے میں بارش ہی اس اہم اثاثے کو بچانے میں ایک بڑی غیبی مدد ثابت ہوسکتی ہے

دریں اثنا ایک سرکاری اعلامیہ کے مطابق جمعہ کے روز وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کو شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ بجھانے کے اقدامات پر سیکرٹری جنگلات دوستین جمالدینی اور ڈی جی پی ڈی ایم اے نصیر احمد ناصر نے بریفنگ دی

وزیر اعلیٰ کو بتایا گیا کہ آگ خیبر پشتونخوا کے جنگلات سے بلوچستان کی حدود میں پہنچی ہے ۔ جس سے جنگلات اور جنگلی حیات متاثر ہورہی ہیں تاہم انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق نہیں

انہوں نے بتایا کہ آگ بجھانے کی کارروائی میں پاکستان فوج اور ایف سی کی ٹیمیں بھی بھرپور حصہ لے رہی ہیں

ان کا کہنا تھا کہ پہاڑوں کے دامن میں متاثرین کے لیے 100 خیموں پر مشتمل سٹی قائم کرکے خوراک اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کی جارہی ہیں

انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی اداروں سے بھی معاونت حاصل کی جا رہی ہے

اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے ہدایت دی کہ آگ بجھانے کے لیے حکومت مزید وسائل بھی فراہم کریگی اور جنگلات کی بحالی کو بھی یقینی بنایا جائے گا

وزیر اعلیٰ نے یہ بھی ہدایت کی کہ بین الاقوامی اداروں کی معاونت بھی حاصل کی جائے

بلوچستان میں جنگلات کا مجموعی علاقہ کتنا ہے؟

محکمہ جنگلات کوئٹہ ڈویڑن کے کنزرویٹر نیاز کاکڑ نے بتایا کہ کسی بھی علاقے میں ماحول کی بہتری کے لیے اس کا کم سے کم پچیس فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے

انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچستان میں توجنگلات کا علاقہ ویسے بھی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پورے ملک میں اس کا حصہ بمشکل پانچ فیصد ہے

ان کا کہنا تھا ”بلوچستان میں جنگلات کا علاقہ بمشکل 1.5 فیصد ہے۔ ان میں گوادر کے ساحلی علاقے میں مینگروز کے جنگلات بھی شامل ہیں۔اگر مینگروز کو نکال دیا ہے تو یہ علاقہ اس سے بھی کم رہ جائے گا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close