مصر جانے والی پی آئی اے کی وہ پرواز، جس کے صرف چھ مسافر ہی زندہ قاہرہ پہنچ سکے

ویب ڈیسک

”میں اس واقعہ پر بات ہی نہیں کرنا چاہتا۔ آپ مجھ سے اس واقعے پر بات مت کیجیے کیونکہ میں اُسے یاد ہی نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ میری بھتیجیاں اور دوسرے بچے بھی اس بارے میں پوچھتے ہیں لیکن میں اُن سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ ان باتوں کو میں یاد ہی نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں وہ سب کچھ بھول جانا چاہتا ہوں“

یہ الفاظ ہیں، اُن چھ مسافروں میں ایک کے، جو آج سے چھپن برس قبل یعنی 20 مئی 1965ع کی صبح پی آئی اے کی پرواز پی کے 705 کو قاہرہ میں پیش آئے حادثے میں زندہ بچ گئے تھے

’دی ٹائمز‘ لندن کے مطابق زندہ بچ جانے والے چھ انسانوں کے علاوہ اس پرواز پر سوار چھ بندر بھی زندہ بچ گئے تھے

مڈل ایسٹ نیوز ایجنسی کے مطابق بچ جانے والوں میں جلال الکریمی وہ واحد مسافر تھے، جو حادثے کے بعد جائے حادثہ پر چل پھر رہے تھے۔ حادثے کے بعد طیارے کے ملبے میں آگ لگی ہوئی تھی اور جلال زخمی حالت میں اس کوشش میں تھے کہ بچ جانے والے مسافروں کو تلاش کر کے ان کی مدد کر سکیں

کچھ گھنٹوں بعد جب ہنگامی امداد پہنچی تو زخمی جلال نے زرد رنگ کا رومال ہلا کر مدد کے لیے اشارہ دیا تھا، اس دوران وہ چند اور مسافروں کی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہو چکے تھے

جلال الکریمی نے ہسپتال میں صحافیوں کو بتایا تھا ”پرواز کے لینڈ کرنے سے دس منٹ پہلے اعلان کیا گیا تھا کے اپنی حفاظتی بیلٹیں باندھ لیں۔ اور اس کے چند لمحوں کے بعد زور دار دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ میں زمین پر چل رہا تھا۔ میں نے اپنے ایک دوست صلاح الدین کو دیکھا اور انہیں ملبے سے باہر نکالا۔ پھر میں نے دو اور مسافروں کو ملبے سے باہر نکالا۔ اُس وقت دھند سی تھی“

حادثے پر جس صدمے کا اظہار جلال الکریمی نے کیا، ایسی ہی حالت ایک اور بچ جانے والے مسافر صلاح الدین صدیقی کی ہے۔ وہ حادثے کے وقت پی آئی اے کے شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ تھے۔ وہ نہ صرف اپنے بچ جانے کے واقعے کو یاد کرتے ہیں بلکہ بچ جانے والے دیگر مسافروں کے نام بھی انہیں یاد ہیں

اس حادثے میں بچ جانے والوں میں صلاح الدین کے علاوہ یونیورسل ٹریولز کے شوکت میکلائی، پی آئی اے کے اسٹیشن مینیجر جلال الکریمی، کراچی کے ایک ہوٹل ڈی فرانس کے مالک عارف رضا (یہ ہوٹل کراچی ایئرپورٹ کے قریب اسٹار گیٹ کے سامنے ڈرگ روڈ پر واقع تھا)، گلوبل ٹریولز سے وابستہ ظہور اور ایرو ٹریولز کے امان اللہ کھانڈے والا شامل تھے

صلاح الدین صدیقی آج کل لندن میں اپنے بیٹے مبین صدیقی کے ساتھ رہتے ہیں۔ سنہ 1965ع کے حادثے کے بعد جب ان کی صحت بحال ہوئی تو ایئر مارشل نور خان اُن کا پرواز سے پیدا ہونے والا خوف دور کرنے کے لیے ایک طیارے پر انہیں ڈھاکہ لے گئے تھے

اس کے بعد ان کا لندن ٹرانسفر ہو گیا۔ پھر بعد میں انہیں جنرل مینیجر شعبہ تعلقات عامہ کے عہدے پر ترقی ملی۔ صلاح الدین صدیقی بھی اس حادثے کو یاد نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ وہ دوستوں اور ساتھیوں کی جدائی کے گہرے دُکھ اور صدمہ سے آج بھی نہیں نکل سکے

وہ کہتے ہیں ”اللہ نے مجھے موت کے منھ میں ڈال دیا اور پھر اسی نے مجھے بچا لیا۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس کا مجھ پر گہرا اثر ہوا“

حادثے کے بارے میں صلاح الدین صدیقی نے بتایا ”مومی گُل درانی نے صبح کے تقریباً پونے تین بجے قاہرہ ایئرپورٹ پر پی آئی اے کی اس پرواز کے اُترنے کا اعلان کیا۔ ’اپنی سیٹ بیلٹس باندھ لیجیے‘ اُنہوں نے یہ اعلان طیارے کے پچھلے حصے میں کھڑے ہو کر کیا تھا۔ اس کے بعد وہ قریب ہی ایک خالی نشست پر بیٹھ گئیں. مومی گل قاہرہ ایئرپورٹ پر اترنے کے آخری اعلان کے بعد جس نشست پر بیٹھی تھیں، وہ میرے ساتھ والی بائیں جانب کی تھی۔ دائیں جانب ایک اور ٹریول ایجنٹ بیٹھے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہی طیارہ ایک دھماکے سے زمین سے ٹکرایا اور پھر مجھے ہوش نہ رہا۔ جب کچھ ہوش آیا تو دیکھا کہ ہر جانب لاشیں تھیں اور طیارے کا ملبہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ جلال نے مجھے اور شوکت میکلائی کو ملبے سے زندہ نکالا تھا۔ اُس نے شاید اور مسافروں کو بھی بچانے کی کوشش کی“

کہا جاتا ہے کہ اُس وقت مصر میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے اچھے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ایئرپورٹ سے فقط بارہ میل کے فاصلے پر موجود جائے حادثہ پر ہنگامی امداد پانچ گھنٹوں کے بعد پہنچی تھی

صلاح الدین بتاتے ہیں ”کچھ دیر بعد ایک مصری ہیلی کاپٹر وہاں آیا، جس پر زخمیوں کو قاہرہ کے ہسپتال منتقل کیا گیا۔ وہاں پتہ چلا کہ میرے بائیں جانب بیٹھی ہوئی مومی گل اور دائیں جانب بیٹھے ہوئے ایک ٹریول ایجنٹ دونوں حادثہ میں ہلاک ہو گئے تھے۔ میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا اور بچ گیا“

بدنصیب پرواز کی کہانی

پی آئی اے کی یہ پرواز کراچی سے براستہ ظہران، قاہرہ اور جنیوا، لندن کے لیے رواں دواں تھی

قاہرہ میں اپنے دوسرے اسٹاپ پر جب یہ پرواز اُتر رہی تھی تو ایئرپورٹ سے بارہ میل پہلے زمین سے ٹکرا گئی

اس پرواز نے چند گھنٹے قبل ہی ظہران سے اڑان بھری تھی اور جمعرات کی صبح تقریباً دو بج کر پچاس منٹ پر اس نے قاہرہ کے ایئرپورٹ پر اترنا تھا

لیکن خبر رساں ادارے یونائیٹڈ پریس ایجنسی (یو پی آئی) نے 21 مئی کو خبر بریک کی کہ ”پی آئی اے کا بوئنگ 720 بی جیٹ، جو ایک سو تیرہ مسافروں اور عملے کے تیرہ ارکان کو لے کر جا رہا تھا، جمعرات کی صبح قاہرہ کے بین الاقوامی ایئرپورٹ سے انیس کلو میٹرکے فاصلے پر گر کر تباہ ہو گیا”

فرانس کی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ’اس حادثے میں ایک سو بیس افراد ہلاک ہوئے

ہلاکتوں کی مختلف تعداد بیان کی جاتی ہے لیکن ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کے مطابق ایک سو اکیس افراد ہلاک ہوئے تھے

حادثے میں زندہ بچ جانے والے شوکت میکلائی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا ”صحرا میں ریسکیو ورکرز سے پہلے وہاں پہنچنے والے مقامی بدّو مرے ہوئے لوگوں کی اشیا چوری کرنے پہنچ گئے تھے۔ جب مصری حکام آئے تو انھوں نے بچ جانے والے زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد پہنچائی اور لاشوں کو جمع کرنا شروع کیا“

لندن کے دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مصری فوجی ہیلی کاپٹر قاہرہ کے اُس صحرا سے پی کے 705 پرواز کے حادثہ میں بچ جانے والے چھ مسافروں اور ایک سو اکیس افراد کی جلی ہوئی لاشوں کو لے کر قاہرہ کے ایئر پورٹ کے مضافات میں ’ہیلیوپولِس‘ کے ہسپتال لایا تھا

بعد میں لندن کے اخبار دی ٹائمز کی 26 مئی کی ایک خبر کے مطابق مقامی پولیس نے اطلاع دی کہ طیارے کے ملبے میں ایک ٹرانسسٹر ریڈیو ملا تھا، جس میں قیمتی زیورات تھے، جن کی مالیت ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر بتائی گئی تھی

پی آئی اے کے ذرائع سے اس کے مالک یا مالکہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا

 ایک صحافی، جو اس پرواز پر سوار نہ ہو سکنے پر ناراض تھا

صلاح الدین صدیقی بتاتے ہیں ”اس افتتاحی پرواز میں مسافروں میں کچھ تو ٹکٹ لے کر سوار ہوئے تھے لیکن زیادہ تر ٹریول ایجنٹس تھے، جن کے نام پی آئی اے کے مختلف شعبوں کے مینیجروں نے تجویز کیے تھے۔ ایک پی آئی اے کے کمرشل ڈائریکٹر تھے، باقی صحافی تھے، جن کا انتخاب اخبارات کی انتظامیہ یا مالکان نے کیا تھا“

کراچی کے ایک فوٹوگرافر اور مصنف و محقق ایس ایم شاہد نے بتایا کہ اس وقت کے کراچی کے ایک بڑے اخبار روزنامہ ’انجام‘ سے وابستہ صحافی طفیل احمد جمالی کو بھی ریٹائرڈ میجر جنرل حیا الدین کی جانب سے دعوت ملی ہوئی تھی۔ لیکن جب وہ سوار ہونے کے لیے ایئرپورٹ پہنچے تو پتہ چلا کے اُن کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی

ایس ایم شاہد کہتے ہیں ’جنرل حیاالدین اور کئی لوگوں نے کوشش کی کہ وہ کسی بھی طرح سوار ہو جائیں لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا اور بالآخر وہ مایوس ہو کر گھر چلے گئے۔ وہ بہت ناراض تھے“

’اگلی صبح اخبار میں دیکھا کہ حادثہ ہو گیا۔ وہ پہلے تو روئے پھر بہت خوش ہوئے۔ وہ اور اُن کی اہلیہ بعد میں بہت شکر ادا کرتی رہیں۔‘

عجیب اتفاقات

زوار حسن اُس وقت ’مارننگ نیوز‘ میں سینیئر اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر تھے۔ مارننگ نیوز نیشنل پریس ٹرسٹ کا اخبار تھا اور اُس وقت اُس کے ایڈیٹر محسن علی تھے

زوار حسن کی عمر اب چھیانوے برس ہے اور وہ کیلیفورنیا کے ’بے ایریا‘ کے ایک ساحلی شہر میں اپنے تین بچوں اور اہلیہ کے ہمراہ ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہے ہیں. وہ بتاتے ہیں کہ ”ایڈیٹر محسن علی نے اس پرواز سے چند دن پہلے مجھے بلایا اور کہا کہ پی آئی اے کی قاہرہ کے لیے افتتاحی پرواز روانہ ہو رہی ہے، اس میں ٹریول ایجنٹس اور صحافیوں کو دعوت دی گئی ہے۔ تم سینیئر بھی ہو اور تجربہ بھی رکھتے ہو اس لیے تم اس پرواز میں چلے جاؤ. ایڈیٹر کی جانب سے نامزدگی کی اطلاع میں نے نیوز روم میں اپنے ساتھیوں کو دی۔ وہاں میرے ایک سینیئر سبطِ فاروق فریدی بھی موجود تھے اور جنہیں احترام کی وجہ سے میں سبطِ بھائی کہتا تھا۔ قاہرہ کا سُن کر سبطِ بھائی خوش ہوئے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں کچھ تحقیق کر رہا تھا اور مجھے اس کے لیے مصر جانا تھا۔ کاش میں اس پرواز میں قاہرہ جاتا اور اپنا کام بھی کر لیتا۔ میں کچھ دیر بعد ایڈیٹر کے پاس گیا اور کہا کہ آپ میری جگہ سبطِ بھائی کو بھیج دیجیے۔ میں سینیئر صحافی کے حق میں دستبردار ہو گیا“

زوار حسن کہتے ہیں ”مجھے خوشی ہوئی تھی کہ سبطِ فاروق اس سفر میں جائیں گے اور اپنی ریسرچ مکمل کر سکیں گے۔ لیکن اُس وقت کس کو معلوم تھا کہ یہ پرواز انہیں موت کی جانب لے جائے گی۔ جب حادثہ پیش آیا تو عجیب سی خوشی بھی ہوئی لیکن سوچا کہ اگر چلا جاتا تو سبطِ بھائی بچ جاتے“

انھیں ایک اور صحافی کے اس پرواز میں سوار ہونے کا واقعہ بھی یاد آیا ”ایک صحافی تھے خالد، وہ کراچی جم خانہ کے سامنے ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے اچانک اس پرواز میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہوٹل سے اٹھے اور ایئر پورٹ پہنچ گئے“

زوار حسن یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایم بی خالد نے ’گیٹ کریشر‘ صحافیوں کے اپنے مخصوص انداز میں پوری کوشش کی کہ وہ طیارے میں سوار ہو جائیں، لیکن ان کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا۔ عملے نے اور دیگر متعلقہ اسٹاف نے صاف صاف کہہ دیا کہ جب تک پاسپورٹ نہیں ہوگا، آپ سوار نہیں ہو سکیں گے. خالد مجبوراً ایئر پورٹ سے نکلے اور کسی بھی طرح جلدی جلدی کراچی شہر میں اپنے گھر پہنچے، وہاں اپنا پاسپورٹ تلاش کیا اور پھر ایئر پورٹ واپس پہنچے۔ پرواز یا تو اُن کا انتظار کر رہی تھی یا شاید ابھی اتنا وقت تھا کہ وہ روانہ نہیں ہوئی تھی۔ وہ غالباً پرواز میں سوار ہونے والے آخری مسافر تھے“

جلال الکریمی

پاکستان کے سینیئر صحافی محمد ضیا الدین کہتے ہیں ”ایک زندہ بچ جانے والے ٹریول ایجنٹ جلال الکریمی زمانہِ طالب علمی میں مشرقی پاکستان میں ان کے جونیئر تھے۔ یہ مصری تھے اور اُن کا خاندان آزادی سے پہلے ہندوستان آ کر آباد ہو گیا تھا اور پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان جا بسا تھا۔ بعد میں جلال کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا تھا“

شوکت میکلائی روزنامہ ڈان میں 26 نومبر سنہ 2011 کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں ”جلال الکریمی نے انہیں جہاز کے جلتے ہوئے ملبے سے باہر نکالا تھا۔ میں آج اِنہی کی وجہ سے زندہ ہوں“

جلال الکریمی کو انگریزی ادب سے گہرا شغف تھا اور ڈراموں کی ہدایتکاری کا بھی شوق تھا۔ عربی ان کی اپنی زبان تھی۔ شاید اسی لیے انہیں سعودی عرب کے ساحلی شہر، ظہران میں پی آئی اے نے اپنا اسٹیشن مینیجر تعینات کیا تھا

صحرا شعلوں کی لپیٹ میں

مصری حکام نے بتایا کہ بوئنگ حادثے کے وقت قاہرہ ایئرپورٹ کے کنٹرول ٹاور سے رابطے میں تھا۔ اخباری خبروں کے مطابق مصری حکام کا کہنا تھا کہ طیارے کے کیپٹن نے اس وقت خرابی کی اطلاع دی تھی، جب طیارہ لینڈنگ کے قریب پہنچ چکا تھا

کنٹرول ٹاور نے فوری طور پر ایئرپورٹ عملے کو رن وے پر کھڑے ہونے کے لیے روانہ کر دیا تھا۔ اُسی وقت چند سیکنڈز کے بعد ہی یہ حادثہ پیش آیا۔ ایک مقامی بدّو عرب، جو حادثے کے وقت قریب ہی صحرا میں موجود تھے، نے بتایا کہ انہوں نے اس طیارے کو بہت نیچے اڑتا ہوا دیکھا اور پھر ایک شدید دھماکہ ہوا

حکام کے مطابق ’صحرا اچانک شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ ہم واقعی یہ دیکھنے سے قاصر تھے کہ کیا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ آگ کے شعلے کم ہوئے اور فضا پر خاموش طاری ہو گئی

انہی آخری لمحات کو شوکت میکلائی نے شازیہ حسن کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں یوں بیان کیا تھا ”عملے نے اپنے ہیٹس پہن رکھے تھے اور وہ اپنے کیبن کا سامان جمع کر چکے تھے۔ جب طیارہ رن وے 34 کی جانب لینڈنگ کے لیے اتر رہا تھا وہ قاہرہ ایئرپورٹ کے آس پاس ایک دائرے میں چکر لگا رہا تھا اور اس وقت وہ گر کر تباہ ہوا۔ بس اُسی لمحے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ جب میں نے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو مجھے یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ بجائے اس کے کہ مدد کے لیے پکاروں، میں چیختے ہوئے اپنا نام لے کر شوکت! شوکت! پکار رہا تھا۔ ایک اور مسافر، ایک نوجوان جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا، وہ میری جان بچانے کے لیے پہنچا. وہ بری طرح زخمی تھا لیکن اس نے مجھے ملبے سے نکال لیا۔ ہمارے چاروں طرف لاشیں اور سامان پڑا تھا۔ میں نے ان میں اپنی بیوی کی بے جان لاش دیکھی۔“

انہوں نے کہا ”میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا لیکن میں ساکت رہا۔ ابھی بھی صدمے کی حالت میں، میری زندگی کی ایک فلم میرے ذہن میں گزری۔ میرے بچپن سے اب تک کی زندگی، میں نے جو کچھ دیکھا تھا اور کیا تھا اور وہ چیزیں، جو میں نے بعد میں کرنا تھیں، وہ سب ذہن میں ایک لمحے کے لیے آئیں۔ یہ سوچ کر کہ میری زندگی جلد ہی ختم ہو جائے گی، میں نے خدا کے بارے میں سوچا اور کہا کہ اگر اس نے مجھے زندگی گزارنے کا ایک اور موقع فراہم کیا تو میں آنے والے دن کا انتظار کیے بغیر ہر کام اسی وقت کروں گا اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کم خوش قسمت لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کروں گا“

دنیا کی دس بہترین ایئر ہوسٹیسز میں سے ایک

ہلاک ہونے والوں میں چار ایئر ہوسٹس (فضائی میزبان) بھی شامل تھیں، جنہیں اس پرواز کی اہمیت کے لحاظ سے خاص طور پر مہمانوں کی خدمت کے لیے پی آئی اے انتظامیہ نے منتخب کیا گیا تھا۔ ان میں ایک ایئر ہوسٹس مومنہ گل درانی تھیں، جو گذشتہ دہائی سے اپنی پُرکشش شخصیت اور حُسن کی وجہ سے پی آئی اے کی شناخت بن گئی تھیں

مومنہ گل درانی نہ صرف پاکستان کی قومی ایئرلائن کی ایک شناخت تھیں بلکہ ’ایوی ایشن وائس‘ کی ویب سائٹ کے مطابق وہ پیشہ ورانہ خدمات کی وجہ سے دنیا کی دس بہترین ایئر ہوسٹیسز میں بھی شمار ہوتی ہیں

مومنہ گل درانی، جنہیں ان کے دوست پیار سے مومی گل بھی کہتے تھے، پاکستان کے معروف موسیقار، سہیل رانا کی بیگم قندیل گل کی بہن تھیں۔ قندیل اور سہیل رانا آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں۔ سہیل رانا کہتے ہیں کہ ”مومی گل ایک خوش مزاج، خوش مذاق، خوش روح مشرقی خاتون تھیں. وہ پی آئی اے کا فخر تھیں اسی وجہ سے ایئر مارشل نور خان ہمیشہ ان کا خیال رکھتے تھے۔ اس پرواز کے عملے میں وہ شامل نہیں تھیں۔ انہیں عموماً خاص خاص پروازوں میں شامل کیا جاتا تھا۔ لیکن طیارے کے عملے کی ایک ایئر ہوسٹس کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور ان کی جگہ مومنہ کو جانا پڑا“

سہیل رانا بتاتے ہیں ”مومنہ درانی کا تعلق افغانستان کے شاہی خاندان سے تھا، جن کی نسل ہندوستان میں سہارنپور اور امرتسر میں آکر آباد ہو گئی تھی۔ جب مومی بیس اکیس برس کی عمر میں پی آئی اے میں شامل ہوئیں تو وہ جب کسی محفل میں آتیں تو لوگ ان کے لیے احتراماً ایسے کھڑے ہوجاتے، جیسے وہ ایک شہزادی ہوں“

اس طیارے کے زندہ بچ جانے والے ایک مسافر شوکت میکلائی نے 26 نومبر 2011 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ دورانِ پرواز اپنی نشست پر ’قبضہ‘ ہو جانے کی وجہ سے طیارے میں اسٹاف سے باتیں کرنے لگ گئے تو وہاں ان کی مومی گل سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی

’مومی گُل اُس وقت بہت زیادہ خوش مزاج نظر نہیں آئیں۔ تو میں نے اُن سے کہا کہ مجھے کمپلینٹ کارڈ دیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ شکایت کرنا چاہتے ہیں؟ تو میں نے کہا بالکل، یہ پی آئی اے کی اہم پرواز ہے اور آپ کا رویہ بہت اچھا نہیں ہے۔‘

اس پر مومنہ گل نے کہا کہ ’رولز کے مطابق انہیں اس پرواز پر ہونا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ وہ مسلسل دوسری پرواز پر بھیج دی گئی تھیں۔ شاید اس لیے ان کا مزاج اتنا اچھا نہیں تھا، جتنا ہونا چاہیے تھا۔‘

تھوڑی دیر بعد طیارے کے عملے نے مداخلت کرکے شوکت میکلائی کی نشست خالی کرا دی اور وہ وہاں بیٹھ گئے

شوہر بچ گئے، اہلیہ ہلاک ہوگئیں

شوکت میکلائی جن کا اوپر ذکر آیا ہے، لکھتے ہیں کہ جب اس افتتاحی پرواز کا اعلان ہوا تھا تو ان کا نام مسافروں کی فہرست میں نہیں تھا، لیکن انہوں نے پی آئی اے کے حکام سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ ان کی زیادہ ٹکٹیں فروخت کرتے ہیں، اس لیے انہیں اس پرواز میں شامل کیا جائے

میکلائی کی کوشش کے بعد پرواز سے چند گھنٹے پہلے ان کا نام شامل کیا گیا۔ انہوں نے اپنی اہلیہ بانو میکلائی کا نام بھی شامل کروایا۔ یہ دونوں جب طیارے میں سوار ہوئے تو دیر سے فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے دونوں کو ساتھ ساتھ نشستیں نہ مل سکیں

شوکت میکلائی کو طیارے میں سب سے آخری قطار میں ایک نشست ملی تھی، جبکہ ان کی اہلیہ اگلی قطار کی نشست پر دوسرے دوستوں کے ساتھ بیٹھیں تاہم بقول ان کے دورانِ پرواز وہ باقی دوستوں کے ساتھ برِج کھیلنے کے لیے اگلی نشستوں پر چلے گئے تھے

لیکن جب پرواز قاہرہ ایئرپورٹ پر اترنے والی تھی تو وہ پیچھے اپنی نشست پر بیٹھنے چلے آئے

شوکت میکلائی نے لکھا تھا ”جب میں واپس اپنی نشست پر آیا تو وہاں کوئی اور مسافر بیٹھا ہوا تھا۔ میں کہیں اور بیٹھ سکتا تھا لیکن میں نے اصرار کیا کہ اپنی ہی نشست پر بیٹھوں گا۔ لہٰذا طیارے کے عملے نے مداخلت کر کے مجھے اُسی نشست پر بٹھا دیا، جہاں میں بیٹھا ہوا تھا“

خط یا وصیت

اس حادثے میں ہلاک ہونے والے مجید المکی کے سب سے چھوٹے بیٹے جواد المکی نے بتایا ”میرے والد کو پی آئی اے کی جانب سے دو ٹکٹوں کی پیشکش ہوئی تھی۔ لیکن انہوں نے صرف ایک ٹکٹ ہی قبول کی تھی“

جواد بتاتے ہیں ”میرے والد کو شاید احساس ہو گیا تھا کہ یہ اُن کا آخری سفر تھا۔ لاہور سے جب وہ کراچی پہنچے تو انہیں ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا، جہاں انہوں نے بوئنگ میں سوار ہونے سے پہلے اپنے تینوں بچوں، بیوی، اپنے مینیجر اور ہمارے اسکول کے پرنسپل کو اس طرح کے خط لکھے کہ جیسے وہ وصیت لکھ رہے ہوں. قاہرہ میں حادثے میں ہلاکت کے بعد ہم لوگ پریشان ہوئے۔ ظاہر ہے خاندان کے بڑے کی موت ہم سب کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔ لیکن ان کی موت کے دو تین دن بعد میرے بڑے بھائی اور ہمیں اُن کے خطوط ملے جن میں انہوں نے مفصل ہدایات دی ہوئی تھیں۔ لگتا ہے کہ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ وہ آخری سفر پر جا رہے تھے“

کیا یہ محض ایک حادثہ تھا؟

پاکستان کی تاریخ میں طیارے کے حادثے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا لیکن یہ سب سے زیادہ المناک تھا۔ اُس زمانے کی ایسوسی ایٹ پریس (اے پی) کی ایک وڈیو رپورٹ کے مطابق یہ پہلی افتتاحی پرواز تھی جس کے ذریعے چین کو مشرقِ وُسطیٰ سے ملایا جا رہا تھا۔ طیارے میں کئی چینی مسافر بھی سوار تھے

تاہم اُس زمانے کے پی آئی اے کے پبلک ریلیشننگ افسر صدیقی کہتے ہیں کہ پی آئی اے کی اس افتتاحی پرواز کا چین کو مشرق وُسطیٰ سے ملانے کی پالیسی یا ایسے کسی اعلان کے بارے میں پی آئی اے کے حکام کو کوئی علم نہیں تھا

ہلاک ہونے والے مسافروں میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے 22 صحافی، ٹریول ایجنٹس، اور معتبر کاروباری شخصیات اور چند ایک سرکاری افسران بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ برطانوی، لبنانی جرمن اور چینی شہری بھی سفر کر رہے تھے

ان میں سب سے اہم چینی مسافر پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے لڑاکا طیارے کی چیف ڈیزائنر بھی شامل تھے

اکیاون برس کے ہوانگ کانگ (ژقیان) پیپلز لبریشن آرمی کے جنرل پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے افسر تھے۔ ایک چینی بلاگر ووتو لکھتے ہیں کہ ہوانگ ساری زندگی ہوا بازی سے پیار کرتے رہے، جیسے کہ وہ صرف ہوا بازی کے لیے ہی پیدا ہوئے تھے

ان کی بے وقت موت کی وجہ سے چین کے لڑاکا طیارے J-8 کی بروقت تکمیل نہ ہو سکی۔ یہ طیارہ پھر سنہ 1979ع میں مکمل ہوا۔ انہوں نے چین کے سوشلسٹ انقلاب سے پہلے امریکہ کی یونیورسٹی آف مشی گن سے ایوی ایشن انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انقلاب کے بعد وہ پی ایل اے میں شامل ہو گئے تھے

سنہ 1965 کا یہ وہ زمانہ تھا جب صرف ایک برس پہلے خلیجِ ٹونکین میں امریکا اور شمالی ویتنامی مسلح کشتیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی، اور امریکا نے جنوبی ویت نام میں اپنے اڈے مضبوط کر کے شمالی ویتنام میں قائم سوشلسٹ حکومت پر حملوں میں تیزی کر دی تھی

خاص طور پر اس وقت امریکا کے رہنماؤں کو چین سے خوف تھا کیونکہ وہ ابھی ایک برس پہلے ہی جوہری طاقت بنا تھا، اور وہ طویل عرصے سے امریکی مخالفت میں بیان بازی میں مصروف تھا

اس دوران چین اپنی فوجی طاقت بھی بڑھا رہا تھا، جس کے لیے چینی انجینیئرز کے کردار کو کسی بھی طرح کم نہیں سمجھا جاسکتا تھا۔ ایک حقیقت ہے کہ طیارے پر سوار چینی ڈیزائنر کی موت سے چین کے J-8 لڑاکا طیارہ کے بنانے میں بہت تاخیر ہوئی۔ یہ لڑاکا طیارہ اپنی صلاحیت کے لحاظ سے امریکہ کے U-2 اور B-52 بمبار کو انٹرسیپٹ کر سکتا تھا

تاہم پی آئی اے کی پرواز پی کے 705 کے بارے میں تخریب کاری کی بات کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ البتہ ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کی ویب سائٹ بیان کرتی ہے کہ بوئنگ کے غیر معمولی حد تک نیچے آنے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی

کوشش کے باوجود اس بارے میں نہ بوئنگ کمپنی سے اور نہ ہی پی آئی اے سے کچھ مزید معلوم ہوسکا۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ شاید بوئنگ طیارہ ریت کے طوفان کی وجہ سے نیجے پرواز کرتے ہوئے زمین سے ٹکرا گیا ہو تاہم قاہرہ ایئرپورٹ سے پائلٹوں کا رابطہ تھا اور وہاں سے ریت کے طوفان کی وارننگ کی کوئی شہادت نہیں ملتی ہے

رات کا وقت تھا اس لیے شاید اکثر مسافر سو رہے ہوں گے۔ طیارہ جب قاہرہ ایئر پورٹ کے قریب پہنچا تو نیچے اترنا شروع ہو گیا تھا۔ ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کی سائٹ کے مطابق کیپٹن نے طیارے کے پروں میں موجود فلیپس میں خرابی کی شکایت کی تھی

طیارے کے فلائیٹ کمانڈر کیپٹن علی اختر خان کو ایئرپورٹ کے کنٹرول ٹاور نے رن وے 34 پر اترنے کی ہدایت کی اور انھوں نے طیارے کا اس جانب رخ کر کے نیچے اتارنا شروع کر دیا تھا۔ تب ایک عینی شاہد نے اطلاع دی کہ طیارہ زمین پر گرتے ہی صحرا میں ’آگ کی گیند‘ کی مانند نظر آ رہا تھا

’یہ شعلوں میں گر کر تباہ ہوا اور سینکڑوں ٹکڑوں میں صحرا میں بکھر گیا۔‘

ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کے مطابق اس حادثے کی ممکنہ وجہ یہ تھی کہ ’طیارے نے سرکٹ کے لیے مناسب اونچائی کو برقرار نہیں رکھا اور جب تک یہ زمین سے ٹکرا نہیں گیا یہ تسلسل سے اترتا رہا (تاہم) اس غیر معمولی انداز سے تسلسل کے ساتھ اترنے کی وجہ معلوم نہیں ہے۔‘

حادثے کے بعد قاہرہ ائیرپورٹ کے چیف کنٹرولر نے بین الاقوامی انکوائری کمیشن کو بتایا تھا کہ ’بوئنگ‘ کے پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو آگاہ نہیں کیا تھا کہ حادثے سے قبل ان کے ایک انجن میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اس نے واقعتاً ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ فلیپس میں خرابی کی بھی شاید کوئی بات نہ ہوئی ہو

بوئنگ 720 کو پرواز کرتے ہوئے ابھی تین برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے اس لحاظ اسے ایک نیا طیارہ کہا جا سکتا تھا۔ قاہرہ ائیرپورٹ پر طوفان کی بھی تصدیق نہیں ملتی ہے، اسی لیے ماہرین کی نظر میں اس حادثے کے دو امکانات زیادہ واضح نظر آتے ہیں: اول یہ کہ قاہرہ ائیرپورٹ پر فنی نقائص تھے جس کی وجہ سے شاید پائلٹ کو ایئر پورٹ نظر نہیں آیا اور اُس نے ضرورت سے زیادہ خو د اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طیارے کو ایئرپورٹ پہنچنے سے پہلے نیچے کرنا شروع کر دیا

دوسرا امکان یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی نقص نہ ہو، پائلٹ نے غلط اندازہ لگایا ہو اور اندھیرے کی وجہ سے طیارے کو اتار دیا ہو۔ بہرحال تحقیقات میں کوئی حتمی بات طے نہیں کی گئی.

(اس رپورٹ کے لیے ثقلین امام کے بی بی سی میں شائع ہونے والے تفصیلی فیچر سے مدد لی گئی ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close