کریئر کاؤنسلنگ: بچے اپنی مرضی کے پروفیشن کا انتخاب کیوں نہیں کر پاتے؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں والدين کی اکثریت اپنی اولاد کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس بات کا تعین کر لیتی ہے کہ بچوں کو بڑے ہو کر کس شعبے میں جانا ہے۔ ایک زمانے میں ڈاکٹر اور انجینیئر سرفہرست ہوتے تھے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سوچ میں اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ پروفیشنز کی لسٹ میں اضافہ ہو گیا ہے

فاطمہ افضل ایک کامیاب مارکٹینگ مینیجر ہیں اور وہ بھی کچھ اسی قسم کے تجربے سے گزری ہیں

وہ بتاتی ہیں ’میرے والدين مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے کیونکہ میرے بہن بھائی دونوں ڈاکٹر تھے۔ تاہم مجھے ڈاکٹر بننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ آخر میں بننا کیا چاہتی ہوں اور مجھے کیا پڑھنا چاہیے‘

فاطمہ کہتی ہیں ’ویسے تو میں ایک چھوٹے سے شہر کے سب سے اچھے اسکول میں پڑھی تھی لیکن کیونکہ میں اپنے بہن بھائی کی طرح بہت لائق نہیں تھی اس لیے والدین اور ٹیچرز کی طرف سے یہ جملے سننے کو ملتے تھے کہ تم کس پر گئی ہو۔ پتا نہیں تمہاری نالائقی تمھیں کچھ بننے دے گی یا نہیں‘

فاطمہ کا کہنا ہے ’مجھے کبھی یہ نہیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر بننے کے علاوہ میں کیا کر سکتی ہوں؟ کالج میں بھی کسی قسم کی کیریئر کاؤنسلنگ نہیں کی جاتی تھی۔ سائنس پڑھی لیکن میڈیکل میں داخلہ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے یونیورسٹی میں بھی مجبوراً بائیولوجی پڑھنی پڑی کیونکہ میں نہیں جانتی تھی کہ اس کے علاوہ میں کیا کر سکتی ہوں‘

فاطمہ افضل کہتی ہیں ’اس دباؤ کا مجھے ایک فائدہ ہوا کہ یونیورسٹی میں مختلف اقسام کے مضامین پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا، جس کی وجہ سے میں نے اپنا کیریئر اس مضمون میں چن لیا، جو سب سے زیادہ دلچسپ لگتا تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں آج کامیاب اور مطمئن ہوں۔‘

فاطمہ کی طرح سب اپنی مرضی نہیں کر پاتے ہیں۔ علی رضا اپنے والدین کی خواہش پر ڈاکٹر بنے۔ وہ سی ایس ایس کرنا چاہتے تھے۔ وہ لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کر رہے ہیں لیکن وہ آج بھی سوچتے ہیں کہ وہ مقابلے کا امتحان دے کر میڈیکل پروفیشن کو خیرباد کہہ دیں

فاطمہ اور علی کی کہانی تقریباً پاکستان کے ہر دوسرے بچے کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔ ’کون کیا بننا چاہتا تھا اور کیا بن گیا‘ سے لے کر ’اسے کیا بننا چاہیے‘ تک بہت وقت گزر چکا ہوتا ہے، کبھی کبھار تو اتنا وقت کہ پھر کچھ بننے کے لیے بھی وقت نہیں بچتا

پاکستان کے تعلیمی نظام پر نظر ڈالیں تو اسکول اور کالج تک چند مخصوص مضامین ہی پڑھائے جاتے ہیں۔ جن میں سائنس، ریاضی، کمپیوٹر اور دیگر بنیادی مضامین شامل ہیں

زیادہ تر بچے اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ ان مضامین کے علاوہ کون کون سے مضامین موجود ہیں۔ والدین سمیت زیادہ تر تعلیمی ادارے بچے کو مختلف اقسام کے مضامین سے متعارف ہی نہیں کرواتے، جو ان کی سوچ کو ایک حد تک محدود کر دیتا ہے

اگر آپ اس حوالے سے بچوں سے بات کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ 90 فیصد سے زیادہ بچے یہ نہیں جانتے کہ جو کریئر وہ چننا چاہتے ہیں، اس کے لیے انہیں کون سے مضامین پڑھنا ہوں گے

عالین فاطمہ اے لیول کی طالب علم ہیں اور سائنس پڑھ رہی ہیں۔ وہ خلاباز بننا چاہتی تھیں۔ جبکہ ان کے والدین چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر بنیں

انہوں نے بتایا ’مجھے شوق تو تھا خلاباز بننے کا لیکن میں یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے لیے مجھے کیا پڑھنا ہوگا۔ او لیول تک تو کسی قسم کی رہنمائی نہیں ملی۔ ہاں البتہ اے لیول میں آنے کے بعد میری ملاقات کیریئر کاؤنسلر سے ہوئی۔ میں نے جب انہیں بتایا کہ میں خلاباز بننا چاہتی ہوں تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تو اس کا زیادہ رجحان نہیں ہے اس لیے آپ کو پاکستان سے باہر جانا ہوگا اور کسی دوسرے ملک کے یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہوگا۔ جس کے بعد میں نے خود انٹرنیٹ پر اس بارے میں ریسرچ شروع کر دی۔ اگر میں اس میں کامیاب نہ ہوئی تو پھر کچھ اور سوچوں گی‘

دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ روایتی کیریئر کو کمائی اور عزت دار پروفیشن سے جوڑتے ہیں

کنزہ انجم انٹرمیڈیٹ کی طالبہ ہیں۔ وہ ادب پڑھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ لکھاری بن سکیں۔ لیکن ان کی والدہ چاہتی ہیں کہ وہ ڈاکٹر بنیں جبکہ ان کے بھائی چاہتے ہیں کہ وہ کمپوٹر انجینیئر بنیں

کنزہ کا کہنا ہے ’ہمارے ہاں اگر کوئی بچہ روایتی پروفیشن سے ہٹ ہر کوئی کیریئر چنتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اس میں پیسہ نہیں ہے۔ کماؤ گے کیسے اور ویسے بھی ایسے پروفیشنز کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے‘

یہی نہیں بلکہ ہنر مند تعلیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کنزہ کا کہنا تھا ’میں کچھ ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو شیف بننا چاہتے ہیں لیکن انہیں یہ کہا جاتا ہے کہ تم باورچی بنو گے؟ یہ بھی کوئی پروفیشن ہوا۔‘

’لوگ تو فیشن ڈیزائننگ کو بھی کہتے ہیں کہ سلائی کا کام کرو گے۔ ہم لوگوں نے ہر پروفیشن کے ساتھ کوئی نہ کوئی بات منسلک کر رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے بچے اپنی مرضی کا کیریئر چننے سے ڈرتے ہیں۔‘

کیریئر کے انتخاب میں رہنمائی اور مشاورت کتنی ضروری ہے؟

ریچل حسن لاہور کی نجی یونیورسٹی میں بطور استاد کام کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کو تمام تر مضامین اور کیریئر سے متعلق رہنمائی بھی فراہم کرتی ہیں

ان کا خیال ہے کہ بچے اپنی پسند کا کریئر اس لیے بھی نہیں چن پاتے کیونکہ ہمارے ہاں بچے اپنے والدین پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کی پڑھائی کا خرچہ ان کے والدین اٹھاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں ان کی پسند کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے

انہوں نے کہا ’یہ سچ ہے کہ ہمارے زیادہ تر تعلیمی اداروں خصوصاً اسکولوں میں بچوں کو کریئر سے متعلق رہنمائی دینے کا رواج نہیں ہے جبکہ دنیا کے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں یہ عمل بچپن سے ہی شروع کر دیا جاتا ہے۔ اور اس عمل کی والدین کے ساتھ ساتھ زیادہ ذمہ داری اساتذہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ بچے کا شوق اور ان کا ٹیلنٹ دیکھ کر اسے مزید نکھارنے میں مدد کر سکتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’اگر والدين اپنے بچے کے انتخاب پر اعتماد کا اظہار کریں اور تعلیمی ادارے بچے کی صحیح رہنمائی کریں تو بچہ ایک کامیاب پروفیشل بن سکتا ہے‘

’ہمارے زمانے میں اتنے مضامین اور پروفیشن نہیں ہوا کرتے تھے‘

اس بارے میں جب والدین کے خیالات جاننے کے لیے ان سے بات کی گئی تو کچھ کا ردعمل یہ تھا کہ ’ہم اگر بچوں کو کوئی مخصوص پروفیشن چننے کا کہتے ہیں تو ان کی بہتری کا سوچ کر کہتے ہیں، ان کے روشن مستقبل کے لیے سوچتے ہیں‘

جب کے کچھ والدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بات میں بھی حقیقت ہے کہ ’ہمارے زمانے میں اتنے مضامین اور مختلف قسم کے پروفیشن نہیں ہوا کرتے تھے۔ ہمیں جن کا پتا ہے ہم وہ اپنے بچوں کو بتاتے ہیں۔‘

محمد عارف کے دو بچے ہیں اور وہ ایک بینک میں بطور مینیجر کام کر رہے ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی دسویں جماعت کی طالبہ ہے اور ان کا بیٹا ساتویں جماعت میں پڑھ رہا ہے

عارف کا کہنا ہے ”میں خود پڑھا لکھا ہوں اور اپنے بچوں کی پڑھائی اور کریئر میں رہنمائی کرتا رہتا ہوں۔ لیکن ابھی تک میری بیٹی یہ نہیں جانتی ہے کہ وہ آگے کیا کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ میرا بیٹا فوج میں جانا چاہتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اگر تم یہ نہ کر پائے تو کیا کرو گے تو کہنے لگا کہ پھر میں سی ایس ایس کروں گا۔ لیکن اسے یہ نہیں پتا اسے سی ایس ایس کرنے کے لیے کیا پڑھنا ہے“

ان کا مزید کہنا تھا ’ہمارے خاندان میں میرے بیٹے نے افسر بھی دیکھے ہیں اور فوجی بھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان کو دیکھ کر ویسا بننا چاہتا ہے۔ لیکن بہت سے ایسے بچے ہیں جن کے گھروں میں یا خاندان میں بتانے اور رہنمائی کرنے والا نہیں ہوتا ہے۔ اس صورت میں تعلیمی اداروں کا کردار اہم ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اسکولوں میں کریئر کاؤنسلنگ کا تصور ہی نہیں ہے۔‘

عارف کہتے ہیں ”مجھ سمیت بہت سے والدین یہ کہہ تو دیتے ہیں کہ بچے جو چاہیں کریں لیکن کوئی بھی بچوں کو مکمل طور پر آزادی نہیں دیتا ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close