پاکستان کو ماحولیاتی بحران کی بھاری معاشی قیمت ادا کرنی ہوگی

ویب ڈیسک

ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ آئندہ دو دہائیوں میں درجہ حرارت ڈھائی سیلسیئس بڑھنے سے موسمی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کو سالانہ 3.8 ارب ڈالر کا نقصان کا سامنا کرنا ہوگا

ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک کی مشترکہ رپورٹ ’کلائمیٹ رسک کنٹری پروفائل‘ کے مطابق پاکستان میں درجہ حرارت بڑھنے کا خدشہ زیادہ ہے اور اس اضافے کے نتیجے میں معاشی اور سماجی نقصانات اٹھانے ہوں گے

رپورٹ میں کہا گیا ہے ”پاکستان میں اوسط درجہ حرارت میں عالمی اوسط سے کہیں زیادہ اضافہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں اور ملک میں 2090 تک درجہ حرارت میں 1.3 سے 4.9 سیلسیئس تک بڑھ سکتا ہے“

واضح رہے کہ بیسویں صدی میں پاکستان کے درجہ حرارت میں 0.57 سیلسیئس کا اضافہ ہوا جو کہ جنوبی ایشیا میں دیگر ممالک کے مقابلے میں کم تھا، جہاں پر 0.75 سلیسیئس کا اضافہ ہوا۔ لیکن 1961ع اور 2007ع کے درمیان درجہ حرارت میں اضافہ تیزی سے ہوا، جو 0.47 سیلسیئس ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی میں اضافہ موسم سرما اور مون سون کے بعد کے مہینوں میں زیادہ ہوا ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں موسم سرما کے درجہ حرارت میں 0.91 سے 1.12 سیلسیئس کا اضافہ ہوا ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں 0.52 سیلسیئس کا اضافہ ہوا

’کلائمیٹ رسک کنٹری پروفائل‘ کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ آفات کا سامنا ہے اور اسی لیے 191 ملکوں میں سے خطرے کے حساب سے پاکستان اٹھارہویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کو سیلابوں کا بھی سامنا ہے اور سیلابوں کے حوالے سے اس کا نمبر آٹھواں ہے، جبکہ خشک سالی میں پاکستان نمبر 43ویں پر ہے

رپورٹ کے مطابق 1900ع سے 2020ع تک زلزلوں کے پینتیس واقعات ریکارڈ کیے گئے، جن میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے، 74 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے جبکہ ملک کو ساڑھے 53 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا

اسی طرح شدید درجہ حرارت یعنی سخت سردی اور ہیٹ ویو کو ملا کر اٹھارہ واقعات پیش آئے، جن میں تقریباً تین ہزار افراد جان سے گئے جبکہ اَسی ہزار افراد متاثر ہوئے اور اس شدید درجہ حرارت کے باعث ملک کو اٹھارہ ہزار ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ دوسری طرف سیلابوں کے باعث آٹھ کروڑ افراد متاثر ہوئے جبکہ سوا دو کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا

تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں گذشتہ ایک دو ماہ میں جو درجہ حرارت رہا ہے، اس نے تمام قومی اور عالمی ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ پاکستان میں مارچ 1961ع کے بعد سے سب سے زیادہ گرم ترین مہینہ رہا ہے جبکہ بھارت کے جنوب مغرب اور وسط بھارت میں اپریل ایک صدی میں سب سے گرم ترین اپریل کا مہینہ رہا ہے

پاکستان میں صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد میں چند دن قبل ہی درجہ حرارت 49 ڈگری تک پہنچ گیا۔ واضح رہے کہ جیکب آباد کے بارے میں گذشتہ سال ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ شدید موسمی حالات کے باعث یہ شہر ’انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں ہے‘

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری کا اضافہ ہو جاتا ہے تو پاکستان میں کراچی اور بھارت میں کلکتہ جیسے شہر 2015ع جیسی گرمی ہر سال دیکھیں گے۔ پاکستان میں 2015ع میں آنے والی شدید ہیٹ ویو کے نتیجے میں بارہ سو سے زائد افراد چل بسے تھے۔ اسی طرح 2010ع کے بعد سے بھارت میں بھی ساڑھے چھ سے زیادہ افراد ہیٹ ویو کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں

جبکہ امریکی تنظیم برائے ماحولیات برکلے ارتھ کے تجزیے میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں اس صدی کے آخر تک درجہ حرارت میں ساڑھے تین ڈگری سیلسیئس کا اضافہ ہو چکا ہوگا

سوئٹزلینڈ کی عالمی تنظیم سوئس رے انسٹیٹیوٹ کے مطابق اگر درجہ حرارت اسی طرح بڑھتا رہا تو 2050ع تک عالمی جی ڈی پی میں 10 فیصد کمی واقع ہوگی۔ تاہم اگر درجہ حرارت میں 3.2 ڈگری سیلسیئس تک کا اضافہ ہوتا ہے تو عالمی سطح پر جی ڈی پی میں ہونے والی کمی 18 فیصد تک ہوگی

عالمی انسٹیٹیوٹ کے مطابق موسمی تبدیلی سے ہر معاشرہ، ہر کمپنی اور ہر فرد متاثر ہو گا۔ 2050ع تک دنیا کی آبادی دس ارب تک پہنچ جائے گی اور اس لیے ضروری ہے کہ موسمی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں

موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا تجزیہ کرنے والے سینیئر تجزیہ نگار رضا ہمدانی کہتے ہیں ”دنیا میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ چند ہی دہائیوں قبل جس دنیا میں ہم رہ رہے تھے، اس وقت ہم اس سے کافی مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں۔ موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور ایک بار جب یہ اثرات نمایاں ہونے شروع ہو جائیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دیر ہو چکی ہے“

ماحولیات پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈین بلسٹین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی بوتل کے جن کی مانند ہے کہ ایک بار باہر آ گیا تو واپس بوتل میں بند نہیں کیا جا سکے گا

ان کا کہنا ہے کہ اگر آج ہی سے پوری دنیا میں کاربن کے اخراج کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے تب بھی جو کاربن پہلے ہی ہمارے ماحول میں ہے اس کے اثرات کافی سالوں تک موجود رہیں گے

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی بھی ہے اور سائنس بھی۔ مسئلہ سائنس کے نہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قوت ارادی کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close