پاکستان میں شروع دن سے ہی بچوں کو ایک خواب دکھایا جاتا ہے، بہتر مستقبل کا خواب۔ قوم کی خدمت کا سپنا اور آگے بڑھنے کی امید دلائی جاتی ہے۔ بچے اسی خواب کے سہارے آگے بڑھتے ہیں۔ ان بچوں کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ انہوں نے بڑے ہوکر ڈاکٹر بننا ہے۔ یہ بچے کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہر کلاس میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوں، ان کے گریڈ بہتر ہوں تاکہ وہ میڈیکل کالج میں داخلے کے قابل ہوسکیں۔ کئی سال سے ملک میں میڈیکل کالجز کے امتحانات کےلیے ہر صوبے میں علیحدہ نصاب رائج تھا۔ ان کی نگرانی کےلیے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل قائم تھی، جسے اب تحلیل کرکے یہ فریضہ پاکستان میڈیکل کمیشن کو سونپ دیا گیا ہے، جبکہ امتحانات کی ذمے داری نیشنل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کو دے دی گئی۔ نئے نظام نے باگ ڈور سنبھالتے ہی نئے تجربات کا آغاز کردیا۔ ان تجربات کی بھینٹ اس وقت ڈیڑھ لاکھ طلبا چڑھ چکے ہیں۔ اپنے مستقبل سے مایوس یہ لڑکے اور لڑکیاں شدید کرب میں مبتلا ہیں۔ پورے ملک میں ایف ایس ای اور اے لیول کے طلبا اس وقت شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔ جو طلبا و طالبات ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھ رہے تھے، جن کی تعبیر کےلیے انہوں نے ایف ایس ای اور اے لیول کے امتحانات میں خوب تیاری کی، اچھے نمبرز آنے کے باوجود وہ میڈیکل کالج میں داخلے کو لے کر پریشان ہیں۔ ان کی پریشانی کی اہم وجہ پی ایم ڈی سی کی جانب سے طریقہ امتحان اور میڈیکل کالجز میں داخلے کےلیے نصاب میں کی جانے والی تبدیلیاں ہیں۔
پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے قانون کے مطابق رواں برس پہلی بار پورے ملک میں طلبا ایک ہی انٹری ٹیسٹ دیں گے۔ قانون کے مطابق سب کو ایک ہی نصاب کے تحت یہ امتحان دینا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج تک ہر صوبے اور ہر ادارے کا نصاب الگ رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ پی ایم سی نے امتحانات کےلیے 15 نومبر کی تاریخ کا اعلان تو کردیا لیکن نصاب اب جاری کیا ہے، جب امتحانات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ طلبا کو ڈر ہے کہ وہ چھ ماہ سے جو پڑھ رہے ہیں اگر امتحان میں اس میں سے کچھ بھی نہ آیا تو ان کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔
پی ایم سی نے پانچ اکتوبر کو ایک بیان جاری کیا جس میں دیگر اطلاعات کے ساتھ طلبا سے یہ بھی کہا گیا کہ میڈیکل کے انٹری ٹیسٹ کےلیے نمز یعنی نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز امتحانات کا انعقاد کرے گی اور تمام طلبا نمز کی جانب سے جاری کیے گئے نصاب کے تحت تیاری کریں۔ اس فیصلے پر تمام صوبوں سے ردعمل آیا، جس کی وجہ نصاب میں عنوانات کا ممکنہ فرق تھا۔ اس کے بعد پی ایم سی نے سات اکتوبر کو اعلان کیا کہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج داخلہ ٹیسٹ کےلیے کوئی ایسا حصہ یا موضوع شامل نہیں کیا جائے گا جو صوبائی سطح پر موجود نصاب سے الگ یا اضافی ہو۔ تاہم جو نصاب جاری کیا گیا اس پر طلبا نے ناراضی کا اظہار کیا۔ ان کے بقول یہ نصاب دراصل نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کا ہی نصاب ہے، جسے نقل کیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کو بین الاقوامی معیار پر لانے کی کوشش میں پی ایم سی کے اندر ’سیاسی‘ بنیادوں پر تعیناتیاں کی گئی ہیں اور جلدی میں بنا سوچے سمجھے ایسے فیصلے کیے جارہے ہیں جنھیں بار بار تبدیل کیا جارہا ہے، جو طلبا کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بن رہا ہے۔ حکومتی اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج طلبا و طالبات کے صرف پانچ مطالبات ہیں۔ طلبا کا مطالبہ ہے کہ صوبائی ایم کیٹ یا انٹری ٹیسٹ بحال کیا جائے۔ اگر صوبائی ٹیسٹ ممکن نہیں تو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام مشترکہ نصاب دیا جائے، یعنی ایسا نصاب دیا جائے جو چاروں صوبوں کے سیلیبس کے مطابق ہو۔ نمز یونیورسٹی نے انٹری ٹیسٹ کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے لیکن طلبا کا مطالبہ ہے کہ ٹیسٹ کی تاریخ کو مؤخر کیا جائے تاکہ انہیں ٹیسٹ کی تیاری کا موقع مل سکے۔ طلبہ کا چوتھا مطالبہ نمبرز کی غیر مساوی تقسیم سے متعلق ہے۔ طلبا کے مطابق کورونا وائرس کے باعث رواں سال ایف ایس سی کے امتحانات نہیں ہوسکے اور بورڈز نے تین فیصد گریس مارکس دے کر طلبا کو پاس کردیا۔ یہ فیصلہ گزشتہ سال کامیاب ہونے والے طلبا کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ طلبا کا آخری اور اہم مطالبہ ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن طلبا نمائندوں سے ملے اور ان کے تحفظات دور کرے۔
پاکستان میڈیکل کمیشن اپنے قیام سے لے کر اب تک متنازعہ ہی رہا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز ہیں کہ وہ کمیشن کے قوانین کو ماننے سے انکاری ہیں۔ کمیشن کے ممبران کی بات کی جائے تو یہ میڈیکل کے شعبے کو بہتر بنانے سے زیادہ اپنوں کو نوازنے کی ایک کوشش ہے۔ نیشنل لائسننگ کے امتحان پر بھی سوالات ہیں۔ کئی طلبا و طالبات پی ایم سی کے رویے کے باعث ملک چھوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اپنے قیام کے بعد پی ایم سی کو پہلا انٹری ٹیسٹ کنڈکٹ کروانا تھا مگر پہلے ہی امتحان میں متنازعہ فیصلوں نے ادارے کے کردار کو مشکوک بنادیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنوں کو نوازنے کے بجائے ماہرین طب کو کمیشن میں شامل کرے اور عوامی مفاد کے تحت فیصلے کیے جائیں۔ اگر حکومت طب کے شعبے کو بہتر نہیں بنا سکتی تو ایک قانون بنادیا جائے، جس میں طب کی تعلیم کو ممنوع قرار دیا جائے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز