پاکستان بھارت میں دو بھائیوں کے روح افزا کی کہانی۔۔

ویب ڈیسک

روح افزا کے مشہور زمانہ شربت کی ملکیت سے جڑے چند معاملات تب منظر عام پر آئے، جب ہمدرد انڈیا، ہمدرد وقف پاکستان کے خلاف عدالت میں پہنچ گئی، جس کے بعد ایمازون نے بھارتی عدالت کے ایک فیصلہ کے بعد اپنی لسٹ سے پاکستانی روح افزا کو باہر کر دیا ہے

روح افزا پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بہت مقبول ہے مگر پہلی بار ایسا ہوا، جب گرمی میں ’دل و جان کو تازگی اور روح کو سکون پہنچانے والا‘ مشروب بھارتی اور پاکستانی تمغے کی بنیاد پر موضوع بحث بن گیا

ایسا اس لیے ہوا کیونکہ ایمازون نے بھارتی عدالت کے ایک فیصلہ کے بعد اپنی لسٹ سے پاکستانی روح افزا کو باہر کر دیا ہے

گذشتہ ماہ عالمی شہرت یافتہ مشروب روح افزا تیار کرنے والی کمپنی ہمدرد، بھارت میں پاکستانی روح افزا کے خلاف ایک بڑی عدالتی جنگ جیت گئی

یہ جنگ ای-کامرس کمپنی ایمازون کے خلاف تھی، جو کہ بھارت میں پاکستانی روح افزا بیچ رہی تھی

ہمدرد انڈیا کو جب پتہ چلا کہ ایمازون بھارت میں بھارتی روح افزا کے علاوہ پاکستانی روح افزا بھی بیچ رہا ہے، تو ہمدرد انڈیا نے امریکی ای-کامرس ایمازون کے خلاف اعتراض درج کرایا اور ایک نوٹس بھیج کر ایمازون کو کہا کہ وہ بھارت میں صرف بھارتی برانڈ کا روح افزا مشروب بیچے، جسے ایمازون نے یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے

اس کے بعد ہمدرد انڈیا نے عدالت کا رخ کیا اور ایمازون کے خلاف عدالتی جنگ جیت گئی۔ اور اب ایمازون انڈیا نے اپنی ویب سائٹ سے پاکستانی روح افزا کو ہٹا دیا ہے

یہ بھی ایک سچ ہے کہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایک ہی خاندان کے مالکان روح افزا بناتے اور فروخت کرتے ہیں

ہمدرد انڈیا کے سی ای او سید حامد کہتے ہیں کہ پاکستان میں ان کی پھوپھی روح افزا چلاتی ہیں اور ان سے خاندانی روابط بہت ہی بہتر ہیں، مگر تجارتی نقطہ نظر سے بھارت میں صرف بھارت میں تیار کردہ روح افزا بیچی جا سکتی ہے

سید حامد نے روح افزا کی صد سالہ تاریخ پر بات کرتے ہوئے کہا ”پرانی دہلی کی گلیوں میں حکیم حافظ عبدالمجید نے ایک گھر میں مطب کا آغاز کیا، جہاں وہ یونانی طب سے علاج کرتے تھے۔ وہ اپنے جدید ذہن اور ریسرچ کے لیے مشہور تھے۔ انہوں نے طب یونانی میں کئی فارمولے بنائے، جو آج پوری دنیا میں مشہور ہیں، اسی دور میں گرمی کی کاٹ کے لیے انہوں نے ایک ٹھنڈا مشروب بنانے کی ٹھانی اور روح افزا کی شکل وجود میں آئی“

سید حامد مزید بتاتے ہیں ”ہمارے دادا حکیم عبدالمجید نے افزا کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کی کم عمری میں ہی موت واقع ہوگئی تھی، شاید چونتیس سال کی عمر میں ہی۔ ان کے دو بیٹے تھے، حکیم عبدالحمید اور حکیم محمد سعید۔ تقسیم ملک کے وقت حکیم عبدالحمید بھارت میں ہی رہ گئے اور افزا انڈیا کو آگے بڑھایا جبکہ حکیم محمد سعید پاکستان کے شہر کراچی چلے گئے اور وہاں افزا پاکستان چلانا شروع کیا“

روح افزا کے بھارتی اور پاکستان ہونے کے ایک سوال پر انہوں نے بتایا
”دونوں ایک ہی پروڈکٹ ہیں، تھوڑا سا فرق ہو سکتا ہے لیکن مالکانہ حقوق الگ الگ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی ایمازون کے ذریعہ پاکستانی روح افزا کی فروخت پر ہم نے اعتراض کیا“


یہ خبر بھی پڑھیں:  ایمازون بھارت میں پاکستانی ’روح افزا‘ کی فروخت بند کرے، عدالت


انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا ”کچھ مہینوں پہلے ہم نے نوٹس کیا کہ ایمازون انڈیا کی ویب سائٹ پر پاکستان میں تیار کردہ روح افزا مشروب فروخت ہورہا ہے جبکہ انڈیا میں روح افزا برانڈ پر مالکانہ حق ہمارا یعنی ہمدرد انڈیا کا ہے“

ظاہری سی بات ہے کہ باہر کے مالکانہ حقوق والی کمپنی کا روح افزا یہاں نہیں فروخت ہو سکتا۔ تو ہم نے ایمازون سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ پاکستانی روح افزا کہیں اور بیچ سکتے ہیں مگر بھارت میں نہیں بیچ سکتے۔ تو انہوں نے اپنا عذر دیا کہ وہ پاکستانی روح افزا کو نہیں روک سکتے۔ تو مجبوری میں ہمیں کورٹ جانا پڑا“

”عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ ایمازون انڈیا ان تمام فروخت کنندگان کو ہٹائے جو پاکستانی روح افزا بیچ رہے تھے تو ایمازون نے عدالت کا فیصلہ مانتے ہوئے پاکستانی روح افزا کو انڈین مارکیٹ سے ہٹا لیا“

انہوں نے بتایا کہ بھارت میں ایمازون کے ذریعہ پاکستانی روح افزا فروخت کرنا ایک اتفاق نہیں بلکہ یہ ایک گرے مارکیٹ ہے

واضح رہے کہ پاکستان میں تیار کردہ مصنوعات پوری دنیا میں فروخت ہوتی ہیں جیسے دبئی وغیرہ

بھارت اور متحدہ عرب ممالک کے درمیان تجارت ہو رہی ہے۔ بہت ساری مصنوعات وہاں سے بھی آتی ہیں۔ اس گرے مارکیٹ کے تحت ایک ریورس فلو ہوتا ہے اور پھر اس طرح مصنوعات آجاتی ہیں۔ اس طرح روح افزا پاکستان انڈیا پہنچ کر بکنے لگا“

سید حامد کہتے ہیں ”پاکستانی روح افزا فروخت ہونے سے، ظاہر سی بات ہے نقصان ہو گا، اسی لیے ہمیں ایسا کرنا پڑا۔ بازار الگ ہے۔ ہمدرد انڈیا کا روح افزا مشروب پاکستان میں فروخت نہیں ہو سکتا اسی طرح پاکستانی روح افزا کو یہاں نہیں بیچا جا سکتا کیونکہ دونوں ممالک میں ایک ہی مشروب پر الگ الگ مالکانہ حقوق ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close