ہالینڈ: سائنسدانوں نے الیکٹرون خردبین، تھری ڈی پرنٹنگ اور دوسری جدید ٹیکنالوجی سے دنیا کی سب سے چھوٹٰی کشتی تیار کی ہے۔ یہ انسانی آنکھ سے بھی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اس کی جسامت صرف تیس مائکرو میٹر ہے، جی ہاں، صرف تیس مائکرو میٹر!
تفصیلات کے مطابق ہالینڈ کی لائڈن یونیورسٹی نے کشتی نما یہ شے ایک تحقیقی منصوبے کے تحت بنائی ہے جس میں ایسے مختصر روبوٹ بنانے تھے، جو انسانی جسم یا خون کی رگوں میں دوڑ سکیں۔ ایسے روبوٹ بنانے کا مقصد ان کو بہت سے طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا
یاد رہے کہ لکڑی کی کشتی کا یہ انتہائی مختصر ماڈل تھری ڈی پرنٹر سے چھاپا گیا ہے جو ایسے پرنٹراور اس کی ٹیکنالوجی کی افادیت کو ظاہر کرتا ہے
لائڈن یونیورسٹی کی ماہرِ طبیعیات ، ڈینیئلا کرافٹ کہتی ہہیں کہ اگر کسی مادی شے کے ایک قطرے میں لیزر پہنچائی جاسکتی ہے تو حسبِ ضرورت اشیاء ڈھالنا آسان ہوتا ہے۔ یعنی اگر لیزر کو ڈی این کی شکل میں گھمایا جائے تو اس طرح آپ ڈی این اے ہی بنارہے ہوتے ہیں
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی ٹیم نے لیزر اور تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے کئی خردبینی اشیاء بھی بنائی ہیں۔ ان میں خلائی جہاز، گیندیں، اور دیگر اشکال شامل ہیں۔ ماہرین چاہتے ہیں کہ جس طرح ہمارے جسم میں بیکٹیریا، الجی اور نطفے تیر کر سفر کرتے ہیں، اسی طرح سے ایسے خردبینی روبوٹ بھی تیار کیے جائیں جو تیر کر انسانی جسم میں ایک سے دوسرے مقام پر جا سکیں
اگر ایسے روبوٹ بن گئے تو یہ جسم کے مطلوبہ مقام تک دوا پہنچانے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں جو اس وقت طبی سائنس میں ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس کی تفصیلات سافٹ میٹر نامی جرنل میں شائع ہوئی ہیں ۔ فی الحال یہ ایجاد بیکٹیریا کے نقل و حکم کو سمجھنے کی کوششوں تک ہی محدود ہے.