دو ہفتوں سے زائد عرصے تک جنگلات میں تباہی پھیلاتی آگ کے بارے میں ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر ڈی آئی خان، خان ملوک بتاتے ہیں ”آگ سے جلنے والے یہ جنگلات ہزاروں فٹ بلند پہاڑوں پر واقع تھے اور یہ ناممکن تھا کہ انسان اپنے طور پر اس آگ کو بجھا سکے“
اب اگرچہ یہ تباہ کن آگ بجھ چکی ہے، لیکن انگارے ابھی بھی پھیلے ہوئے ہیں
خان ملوک نے یہ تباہ کن منظر بیان کرتے ہوئے کہا ”دور دور تک نارنجی شعلوں کا رقص جاری تھا۔ درخت چٹخ کر گر رہے تھے، تپش ایسی تھی کہ ہزار گز دور سے بھی محسوس ہو رہی تھی“
وہ کہتے ہیں ”جب آگ لگتی ہے تو ہوا گرم ہو کر اوپر چلی جاتی ہے جس سے پیدا ہونے والے خلا کو دوسری ہوا جب بھرتی ہے تو ایک طوفان سا جنم لیتا ہے۔ ان ہی تیز طوفانی ہواﺅں کے باعث یہ آگ تیزی سے پھیلتی چلی گئی اور قابو سے باہر ہو گئی“
واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع شیرانی کے جنگل میں لگنے والی آگ نے ہزاروں ہیکٹرز پر موجود دنیا کے نایاب ترین چلغوزے کے جنگل کو جلا کر راکھ کر دیا
چھبیس ہزار ہیکٹرز پر مشتمل ان انتہائی زرخیز جنگلات سے کئی ارب ڈالرز مالیت کا تقریباً سات سو میٹرک ٹن چلغوزہ پیدا ہوتا تھا۔ اس جنگل کے ساتھ ہی چلغوزے کے کاروبار سے وابستہ کئی ہزار لوگوں کا روزگار بھی اس آگ میں جل کر راکھ ہو گیا اور وہ سڑک پر آ گئے ہیں
عینی شاہدین اور آگ بجھانے کے کام میں شریک لوگوں کے مطابق اس آگ کا پھیلاﺅ پانچ سے چھ کلومیٹر رقبے پر محیط تھا، جبکہ یہ آگ دس ہزار فٹ سے زائد بلندی پر موجود جنگلات میں لگی تھی، جہاں صرف ہیلی کاپٹر ہی اسے بجھا سکتے تھے۔ اپنی مدد آپ کے تحت اس آگ کو بجھانے کی کوششوں میں تین مقامی افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی زخمی ہوئے
پاکستانی فوج نے بھی آگ بجھانے کے کام میں حصہ لیا تھا۔ ان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’یہ آگ بہت شدید تھی اور کوہ سلیمان کے درمیان ایک پیالہ نما وادی میں لگی تھی۔ آگ کی شدت اور ہوا اتنی تیز تھی کہ ہیلی کاپٹر کا بھی اوپر سے پرواز کرنا مشکل تھا‘
پاکستانی فوج کے مطابق ’جنگل میں موجود آرمی کے فائر فائٹرز، ہیلی کاپٹر اسٹاف اور فائر فائٹر جیٹ مسلسل رابطے میں تھے تاکہ آگ بجھانے کے اس عمل کو کامیابی سے مکمل کیا جاسکے۔ آرمی کے فائر فائٹر جیٹ طیاروں نے پانی، آگ بجھانے والا کیمیکل اور چار سو فائر بالز بھی آگ بجھانے کے لیے استعمال کیے‘
آگ بجھانے والے یہ طیارے سبک زئی ڈیم سے پانی لیتے تھے، جو ان جنگلات سے پندرہ منٹ کی دوری پر واقع ہے۔ اب جبکہ آگ بجھ چکی ہے مگر انگارے ابھی بھی پھیلے ہوئے ہیں، لہٰذا کولنگ کا عمل جاری ہے
فوج کے ذرائع کا کہنا ہے ابتدائی تحقیقات کے مطابق بظاہر یہ ایک حادثہ تھا۔ چرواہے اپنے جانور چرانے جنگلات میں جاتے ہیں تو چائے وغیرہ بنانے کے لیے آگ جلا لیتے ہیں۔ ممکنہ طور پر اسی طرح کا کوئی واقعہ اس آگ کا سبب بنا ہوگا
چلغوزے کے یہ جنگلات دنیا بھر میں نایاب سمجھے جاتے ہیں۔ ماحولیاتی ماہر ڈاکٹر عاشق احمد خان کے مطابق ’یہ ایک انتہائی منفرد ایکوسسٹم یا ماحولیاتی نظام تھا جہاں صرف چلغوزے کے درختوں نے مل کر جنگل تشکیل دیا تھا، جنگلات میں عموماً ملی جلی انواع پائی جاتی ہیں۔ اگر ایک نوع پر مشتمل جنگل ہے تب بھی دوسرے درخت بھی درمیان موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً چلغوزے کے دیگر جنگلات میں دیودار، بلیو پائن وغیرہ کے درخت نظر آجاتے ہیں مگر یہاں صرف چلغوزہ تھا۔ یہی وہ ایکو سسٹم ہے جو سلیمان مارخور کا ایک بڑا مسکن بھی ہے‘
یہی وجہ ہے کہ اس آگ میں صرف درخت ہی نہیں جلے بلکہ اس نایاب ماحولیاتی نظام میں موجود مختلف نسل کے بہت سے جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے، جڑی بوٹیاں اور پھول پودے بھی خاکستر ہو گئے
یہ جنگلات بقا کے خطرے سے دوچار اور عالمی تحفظ یافتہ سلیمان مارخور کا مسکن بھی ہیں۔ یہاں افغان اڑیال اور لگڑ بگھا بھی پایا جاتا ہے، یہ تمام تحفظ یافتہ انواع ہیں۔ نو ہزار ہیکٹرز پر مشتمل کوہ سلیمان، سلیمان مارخور کا مسکن ہے۔ تورغر اور شیرانی کے یہ جنگل اس کا خصوصی گھر ہیں
اس آگ سے ان جانوروں کے حوالے سے بھی خدشات سامنے آ رہے ہیں۔ سلیمان مارخور وہ نوع ہے جو آج سے تیس سال پہلے معدومی کے قریب پہنچ چکی تھی اور اس کی نسل کے بہت کم مارخور بچے تھے۔ ان کے تحفظ کی ایک طویل جدوجہد ہے اور اگر اس آگ سے یہ جانور متاثر ہوتا ہے یا نقل مکانی کر جاتا ہے تو یہ بھی ایک بڑا نقصان ہوگا
سلیمان مارخور کی کم تعداد کے باعث اسے فطرت کے تحفظ کی عالمی تنظیم (آئی یو سی این) نے اپنی خطرات سے دوچار جانداروں کی عالمی فہرست ’ریڈ لسٹ‘ میں شامل کیا گیا ہے۔ بہت سے عالمی معاہدوں کے توثیق کنندہ کی حیثیت سے پاکستان ایسے تمام جان داروں کی حفاظت کا پابند ہے مگر معاہدوں پر دستخط اور ان پر عمل درآمد دو مختلف باتیں ہیں
سلیمان مارخور پاکستان کے قومی جانور مارخور کی ایک ذیلی نوع ہے۔ اسے کوہِ سلیمان یا سلیمان رینج کے حوالے سے سلیمان مارخور کہا جاتا ہے۔ اس کا سائنسی نام Capra falconeri jerdoni ہے اور اسے Straight-horned بھی کہا جاتا ہے ہیں کیونکہ اس کے سینگ دوسرے مارخوروں کے سینگ کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے ہیں اور ان میں بل بھی کم ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے پہاڑوں میں اس کا اصل مسکن تورغر اور شیرانی کے جنگلات اور پہاڑی علاقے ہیں
دنیا بھر میں اڑیال کی چھ ذیلی انواع ہیں، جن میں چار پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ ان میں افغان اڑیال، بلوچستان اڑیال، پنجاب اڑیال اور لداخ اڑیال شامل ہیں
بلوچستان میں سلیمان مارخور کے شکار کے لیے ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت ہے اور اس کے شکار کی فیس لاکھوں ڈالرز میں ہے اور مقامی افراد کے مطابق ’یہ ہمارے لیے ایک خواب جیسی بات ہے کہ جس جانور کا گوشت ہفتہ بھر نہ چل سکے اس کی قیمت لاکھوں تک جا سکتی ہے‘
جانوروں کے تحفظ کے اقدامات کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2011ع کے سروے کے مطابق ان پہاڑوں میں ساڑھے تین ہزار سے زائد سلیمان مارخور اور دو ہزار دو سو اسی کے قریب افغان اڑیال مشاہدہ کیے گئے
اگرچہ سلیمان مارخور اور افغان اڑیال کی نسل خطرے سے نکل آئی اور ان کی تعداد اطمینان بخش حد تک بڑھ گئی، مگر اس حالیہ خطرناک آگ نے ان جانوروں کے حوالے سے بہت سے خدشات پیدا کر دیے ہیں
بلوچستان کے وائلڈ لائف کنزرویٹر شریف کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ جانوروں میں خطرات کو محسوس کرنے کی فطری صلاحیتیں ہوتی ہیں اور امید ہے کہ بڑے جانور نکل چکے ہوں گے مگر چونکہ آگ بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور درختوں کی ٹہنیاں بلکہ درخت ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہوتے ہیں، ایسے میں بہت سے جانور پھنس سکتے ہیں‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی ہموار علاقہ نہیں، نالے، کھائیاں، اونچائی غرض یہ کہ یہ پہاڑی علاقے دشوار گزار ہوتے ہیں۔ وہاں سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ تیز ہوا میں آگ کی تپش اور شعلوں کی لپٹیں دور دور تک پہنچ رہی ہوتی ہیں۔ جانوروں کے جھلسنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔‘
ورلڈ وائڈ فنڈ فار وائلڈ لائف (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ریجنل ڈائریکٹر طاہر رشید کا کہنا ہے کہ ’یہ پائن کے جنگلات ہیں، جو بہت آہستہ نشو و نما پاتے ہیں۔ آگ کے بعد سب سے بڑا مسئلہ زمین کے کٹاﺅ کو روکنا ہے، کیونکہ درختوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے زمین کی مٹی بندھی رہتی ہے۔ اب چونکہ یہ زمین خالی ہے لہٰذا اس کا کٹاﺅ بڑھ جائے گا۔ فوری طور پر یہاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت درختوں کا لگانا بہت ضروری ہے۔ وہ جانور جو ان جنگلات میں رہتے تھے یقیناً ان کا اس جگہ لوٹنا اب آسان نہیں ہے۔ حتمی معلومات کے لیے باقاعدہ سروے ضروری ہے‘
اسی علاقے کے رہائشی عابد شیرانی کے مطابق جو ایک مقامی این جی او سے وابستہ ہیں، ’یہ آگ اتنی شدید تھی کہ پہاڑوں کے پتھر آگ سے چٹخ رہے تھے۔ جو جانور یہاں سے نکل گئے وہ بچ گئے، جو نہیں نکل سکے ان کا بچنا ناممکن ہے۔ یہ بھی خدشہ موجود ہے کہ یہ جانور گھبرا کر یہاں سے ہمیشہ کے لیے نقل مکانی نہ کر جائیں۔‘
عابد کا کہنا ہے کہ ’سلیمان مارخور کے ساتھ ساتھ چلغوزے کا کاروبار کرنے والے 300 گھرانے بھی یہاں سے رخصت ہونے پر مجبور ہوں گے۔‘
اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر خوش قسمتی سے یہ جانور آگ سے بچنے میں کامیاب ہو بھی گئے ہوں، تب بھی جنگل کی پناہ گاہ سے محرومی ان کے لیے خطرہ بنی رہے گی.
(اس رپورٹ کے لیے شبینہ فراز کے بی بی سی میں شائع ہونے والے فیچر سے مدد لی گئی ہے)