14 مئی کی دوپہر پونے ایک بجے کے قریب احمد یار، جن کا پانچ سال کا بیٹا عریض ایک دن پہلے گھر کے باہر پارک میں کھیلتے ہوئے اغوا ہو گیا تھا، کو ایک نامعلوم غیر ملکی نمبر سے کال آئی
کال کرنے والے نے احمد یار کو پنجابی میں یہ کہتے ہوئے مخاطب ہوا ”ہیلو، تمہارا ’سامان‘ ہمارے پاس ہے۔ دس کھوکھوں کا بندوبست کرو اگر اپنا سامان صحیح سلامت واپس چاہتے ہو تو“
احمد یار کو پہلے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ نامعلوم کالر سامان کسے کہہ رہا ہے اور پھر دس کھوکھوں سے کیا مراد ہے
لیکن چونکہ احمد یار اپنے بیٹے کے اغوا کے متعلق لاہور کے علاقے بحریہ ٹاؤن کی حدود میں واقع تھانہ سندر میں درخواست جمع کروا چکے تھے تو انھیں اندازہ تھا کہ شاید بیٹے کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا ہے اور ایسے فون آ سکتے ہیں، تب اسے معاملے کا اندازہ ہونے لگا
احمد یار تھوڑی ہی دیر میں سمجھ گئے کہ سامان سے مراد ان کا مغوی بچہ ہے، لیکن وہ پھر بھی جرائم کی دنیا میں استعمال ہونے والی اصطلاح ‘کھوکھے’ کے کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھے
بعد ازاں احمد یار نے بتایا ”سامان کی اصطلاح مجھے سمجھ آگئی تھی کہ میرے بیٹے کے متعلق بات کر رہے ہیں لیکن کھوکھوں کی اصطلاح کا مجھے نامعلوم کالر سے پوچھنا پڑا کہ یہ کیا چیز ہے“
احمد یار کے مطابق اس کالر نے جواب دیا ”دس کھوکھوں کا مطلب ہے دس کروڑ!“
جس پر احمد یار نے کالر سے کہا ”میری اتنی سکت نہیں کہ ابھی دس کروڑ کا بندوبست کر سکوں“
اس پر نامعلوم کالر کہنے لگا ”ہم نہیں جانتے بس پیسوں کا بندوبست کریں، چاہے بنکوں سے ادھار لیں، بچے بیچیں یا کچھ اور کریں، ہمیں بس دس کروڑ چاہئیں“
احمد یار دس کروڑ تاوان کے مطالبے پر پریشان ہو گئے کیونکہ ان کے پاس اتنی بڑی رقم نہیں تھی۔ احمد یار گذشتہ کچھ سالوں سے چاولوں کا کاروبار کرتے ہیں اور وہ اس کاروبار سے معقول آمدنی کما رہے ہیں۔ احمد یار کے دو بیٹے ہیں، ایک آٹھ سالہ محمد عبدﷲ اور دوسرا پانچ سالہ عریض
عریض پری نرسری کا طالبعلم تھا اور 13 مئی کو گھر کے باہر بنے پارک میں جھولا جھولتے ہوئے اغوا ہو گیا. عریض اس وقت اپنے دیگر کزنز اور محلے کے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا جب تقریباً سہ پہر ساڑھے پانچ بجے کے قریب دو نقاب پوش ملزمان سرخ رنگ کی 125 موٹر سائیکل پر آئے اور عریض کو زبردستی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے. وہاں موجود عریض کے کزنز اور دوستوں نے شور مچایا لیکن جب تک لوگ جمع ہوتے، ملزمان تیزی سے وہاں سے فرار ہو گئے
احمد یار اس وقت گکھڑ منڈی گوجرانوالہ میں تھے، جب انہیں گھر سے بیٹے کے اغوا کی اطلاع دی گئی۔ جس کے بعد وہ فوراً لاہور واپس پہنچے اور پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کیا
پنجاب پولیس کے ضابطہ کار کے تحت قتل، ڈکیٹی، ریپ اور اغوا کے کیسز میں لوکل پولیس کے ساتھ ساتھ کرائم ایجنسی (سی آئی اے) کی ٹیمیں بھی متحرک ہو جاتی ہیں، اسی لیے جیسے ہی اس اغوا کا مقدمہ درج ہوا تو فوراً سی آئی اے پولیس کی ٹیمیں بھی حرکت میں آگئیں
ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کے مطابق، اطلاع ملتے ہی سی آئی اے لاہور کی تمام ٹیمیں متحرک ہوگئیں کیونکہ پہلی ترجیح بچے کو صحیح سلامت بازیاب کروانا تھا۔ ان کا ٹیکینیکل ونگ بھی پوری طرح متحرک ہوچکا تھا جو سی سی ٹی وی کی مدد سے بچے کے اغوا اور ملزمان کے فرار کے روٹ کی نشاندہی کر رہا تھا
انہوں نے بتایا ”ہم تین، چار روز کے اندر اندر اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ بچے کو اغوا کرنے والے کون لوگ ہو سکتے ہیں اور کس مقصد کے لیے بچے کو اغوا کیا گیا ہے. اس وقت تک بچے کے والدین کو ہم نے یہ اطلاع نہیں دی کہ ان کے بچے کے اغوا میں کون کون ملوث ہوسکتا ہے تاکہ بچے کی بازیابی کا آپریشن متاثر نہ ہو“
دوسری طرف پولیس متاثرہ خاندان بالخصوص مغوی بچے کے والد احمد یار کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھی اور اسے اغوا کاروں کے ساتھ بات چیت کے متعلق آگاہ کرتی رہی
احمد یار کے مطابق اغوا سے لے کر ان کے بیٹے کی بازیابی تک اغوا کاروں نے اسے 14 سے 15 کالز کیں، جس میں تاوان کی رقم کے متعلق بات چیت ہوئی۔ پولیس بھی احمد یار کو سمجھا رہی تھی کہ وہ بات چیت کے ذریعے جتنا زیادہ وقت اغوا کاروں سے لے سکتے تھے اتنا لیں تاکہ انہیں ان کی لوکیشن کے متعلق صحیح معلومات مل سکیں
کیونکہ اغوا کار ہمیشہ کال ایک غیر ملکی نمبر سے کرتے کیونکہ ان کا ایک ساتھی مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں بیٹھ کر یہ سب کر رہا تھا، جس کی وجہ سے پاکستان میں موجود ملزمان کی لوکیشن تک پہنچنا ایک معمہ بنا ہوا تھا
ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کا کہنا ہے ”پولیس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بات چیت کے پانچویں روز بات پانچ کروڑ تاوان تک آگئی اور ہوتے ہوتے 19 مئی کو ڈیڑھ کروڑ روپے میں اغوا کاروں کے ساتھ ڈیل فائنل ہو گئی“
لیکن ملزمان میں سے ایک مہوش، جو کہ احمد یار کی سوتیلی ساس ہیں، وہ نہیں مان رہی تھی اور ان کا بار بار اصرار تھا کہ پانچ کروڑ سے کم میں ڈیل نہیں کرنی
واضح رہے کہ مغوی بچے کے نانا نے دو شادیاں کر رکھی ہیں
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور کامران عادل نے بتایا ”اغوا برائے تاوان کے لیے ساری منصوبہ بندی احمد یار کی سوتیلی ساس پچیس سالہ مہوش نے کی، جس کو عملی جامہ اس نے اپنے دوست اور پولیس ریکارڈ یافتہ ملزم شہباز کے ذریعے پہنچایا۔ شہباز نے مہوش کے کہنے پر بچے کو اغوا کرنے کے لیے اپنے دیگر ساتھیوں کا بندوبست کیا تھا
پولیس ریکارڈ کے مطابق شہباز اور دیگر ملزمان اقدام قتل سمیت دیگر سنگین وارداتوں میں ملوث رہے ہیں
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور کامران عادل نے بچے کی بازیابی کے بعد بتایا ”پولیس پہلے دن سے تمام روٹ پر نظر رکھے ہوئے تھی اور ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں ملزمان بچے کو پشاور یا کراچی وغیرہ نہ لے جائیں، جس سے ہمارے لیے مشکلات بڑھ جانی تھیں“
انہوں نے کہا ”آج کل بہت سے گینگ آپریٹ کر رہے ہیں اور ایسے کیسز میں وہ پیسے لے کر کسی دوسرے گروہ کو بیچ دیتے ہیں اور پھر پولیس کا مغوی کو واپس لانا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے“
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور کامران عادل کے مطابق پولیس اس شبے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف شہروں میں چھاپے مار رہی تھی اور اسی طرح کے ایک چھاپے میں جو سرائے عالمگیر مارا گیا تھا، وہاں سے دو ملزمان سجاد اور اکرم کو حراست میں لیا گیا اور ملزمان کے قبضے سے دو عدد جدید کلاشنکوف اور ایک ہزار گولیاں بھی برآمد کی گئیں
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن کے مطابق دوران تفتیش ملزمان نے سب بتا دیا اور بچے کو ان کے دیگر ساتھی لاہور کے ایک مقام پر چھوڑ گئے، جہاں سے پولیس نے اسے اپنی حفاظت میں لے لیا
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن کے مطابق اس واردات کے مرکزی ملزم مہوش اور اس کا دوست شہباز دونوں فرار ہیں لیکن بہت جلد وہ پولیس حراست میں ہوں گے
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن کے مطابق اس گینگ کا غیر ملکی ساتھی بھی بہت جلد انٹر پول کی مدد سے وطن واپس لایا جائے گا
ایک سوال کے جواب میں ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور کا کہنا تھا کہ ملزمان نے بچے پہ کسی طرح کا تشدد نہیں کیا بلکہ اس کی من پسند چیزیں لاکر دیتے تھے تاکہ وہ شور نہ کرے
کامران عادل کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان اور خصوصاً بچے کے والد احمد یار کے حوصلے اور تعاون سے ہی پولیس بنا تاوان ادا کیے مغوی کو بازیاب کروانے میں کامیاب ہوئی ہے
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن کہتے ہیں ”عام طور پر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ریپ اور اغوا برائے تاوان کے کیسز میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار ضرور ملوث ہوتے ہیں اور اس کیس میں بھی بچے کی سوتیلی نانی مہوش کا بہت بڑا عمل دخل رہا ہے“